وجود

... loading ...

وجود

ہمارے رانجھے

هفته 23 ستمبر 2017 ہمارے رانجھے

وزیراعظم شاہدخاقان عباسی صاحب وزیرداخلہ اوروزیرخارجہ کابیان کے گھرکی صفائی ضروری ہے کسی طرح بھی نظراندازکیے جانے کے لائق نہیں ہے ۔اس سے پہلے چوہدری نثارنے ملک کوسنگین خطرات لاحق ہونے کی بات کی تھی ،سوال یہ ہے کہ وہ سنگین خطرات کیاہیں ؟اگرہم کڑیوں سے کڑیاں جوڑیں توہم ان خطرات تک پہنچ سکتے ہیں ،میاں نوازشریف نے اقتدارسنبھالنے کے بعدجن چندضرورتوں کوفوری طورپرپوراکرنے کی کوشش شروع کردی تھی ۔ان میں ایک ضرورت پڑوسیوں سے تعلقات اچھے کرناتھے ۔اس سلسلے کوماضی میں وہ جہاں چھوڑکر بھیج دیئے گئے تھے انہوں نے اس سلسلے کووہیں سے جوڑااورانڈیاسے تعلقات درست کرنے کی کوشش کاآغازکیامگرسول حکومت کی کوشش بحرحال کوشش ہی ہوتی ہے ۔
اگرریاست حکومت کی سوچ سے متفق نہ ہوتوحکومت اپنی کوشش کوایک حدسے آگے نہیں لے جاسکتی ۔اس باربھی کچھ ایساہی ہوا۔انڈیاسے تعلقات خوشگوارنہ ہوسکے اورآئندہ بھی ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں ۔حکومت انڈیاسے اس لیے تعلقات اچھے کرناچاہتی ہے کیونکہ حکومت کوعلم ہے کہ ریاست نے دہلی کے لال قلعے پرجھنڈالہرانے کاخواب ضروردکھاناہے مگراقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں ایساممکن نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکا افغانستان اورعراق میں قبضہ کرنے کے باوجودوہاں مقامی حکومت کاقیام عمل میں لایا۔چاہے وہ مقای حکومت لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہومگرایک نام کی ہی سہی مگر عوامی نامی حکومت قائم کی جاتی ہے ۔حکومت سمجھتی ہے کہ جب ہم نے دلی فتح نہیں کرناتوپھردلی سے جھگڑاکب تک ؟مگردلی سے جھگڑ اکسی کے لیے راشن کارڈبھی توہوسکتا ہے ؟انڈیاگزشتہ کچھ عرصے میں اپنے سفارتی محاذ پرزبردست کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہاہے ۔جس میں سے ایک کامیابی حال ہی میں تجارتی تنظیم برکس کے اعلامیے میں پاکستان کے اندرموجودبین الاقوامی طورپر کالعدم تنظیموں کی مزاحمت کے بیان کواعلامیے میں شامل کرواناہے ۔اس تنظیم میں ہمارادوست چین بھی شامل تھا۔
موودی، ٹرمپ کواس بات پرقائل کرچکاہے کہ امریکا لشکرطیبہ اوردیگربین الاقوامی طورپرکالعدم تنظیموں کے دفاترکوپاکستان کے اندرڈرون کے ذریعے نشانہ بنائے ۔اس صورتحال میں راولپنڈی ،فیصل آباد،لاہوروغیرہ میں بھی امریکا ڈرون حملے کرسکتاہے اورٹرمپ اس حوالے سے کوئی اہم فیصلہ لے سکتاہے ۔ ان ڈرون حملوں کے بعدپیداہونے والی صورتحال میں حزب اختلاف کی پارٹیاں جوایک عرصے سے حکومت مخالف تحریک چلارہی ہیں وہ اس تمام صورتحال کوحکومت کے سرڈالیں گی اوراس عمل کوحکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کانام دیں گی جبکہ یہ حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں آزادخارجہ پالیسی ہرمنتخب حکومت کاخواب رہی ہے ۔اورمحترمہ بے نظیرکی پہلی حکومت میں توان کوصاف کہہ دیاگیاتھاکہ وہ خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کرینگی ۔خواب دکھانے والوں نے بلاول کوبھی خواب دکھائے ہیں کہ اگروہ زرداری سے جان چھڑوالیں توان سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔اوران کواقتدارمیں حصہ دیاجاسکتاہے ۔اس وقت حکومت نئی پیداہونے والی صورتحال کے نتائج کااندازہ قبل ازوقت لگاتے ہوئے ملک کواس صورتحال سے بچانے کے لیے بھرپورکوشش کررہی ہے ۔
چندہفتوں کے دوران وزیرخارجہ‘ وزیرداخلہ اوروزیراعظم کی میٹنگزاورپریس کانفرنس یاغیرملکی دوروں کودیکھیں تواس بات کاباخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت ذمہ داری کاثبوت دے رہی ہے ۔ اورکسی بڑے خطرے کے پیش نظر حکومت اس خطرے سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کررہی ہے ۔خواجہ آصف کے بعداحسن اقبال اورپھرشاہدخاقان صاحب نے یک زبان ہوکراس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ملک کے اندرسے ان قوتوں کوکنٹرول میں لاناہوگاجن کی وجہ سے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کوبدنامی کاسامناکرناپڑرہاہے ۔اگرہم ماضی میں ڈان لیکس کی طرف جائیں تواس میٹنگ میں یہی بات جواس حکومت کاموقف ہے اس کاحکومت نے کھل کراظہارکیا تھا۔اوراس پرڈان لیکس سامنے آگئی حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے امریکا کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہوتی ہے ۔اورہم امریکا کی اندرونی کہانیوں تک سے پردااٹھاتے ہیں توکیاامریکا کوہمارے رازاورہمارے بارے میں ہماری پالیسیوں کے بارے میں علم نہیں ہوگا؟یہاں وہ مثال یادآرہی ہے کہ جس آدمی کی بیوی اخلاقی لحاظ سے کمزورہوتی ہے اس شخص کے سوایہ بات سارے محلے کومعلوم ہوتی ہے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے لبرلزحلقوں نے کبھی بھی دوقومی نظریے کونہیں مانا اس وقت سے ریاست کودفاع میں مددحاصل کرنے کے لیے دینی لوگوں کواستعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔اورتاریخ گواہ ہے کہ پاکستان پرجومشکل جووقت آیا پاکستان کے مذہبی حلقے استعمال ہونے کے لیے اپنے آپ کوپیش کرتے رہے ہیں ۔ جہادافغانستان سے البدر،الشمس بنگال اورکل کشمیر،افغانستان تک بکھرے شہداء کے لہوکی خوشبوں گواہی دے رہی ہے کہ سرکارنے وطن کے دفاع کے لیے جب جب مذہبی حلقوں کواستعمال کرناچاہا وہ لبیک لبیک کہتے دوڑے چلے آئے مگرجواب میں اسلامی نظام کے نفاذکے لیے صرف کمیٹیاں بنتی رہی ہیں ۔ سلالہ چیک پوسٹ پرحملہ ،کاکول اکیڈمی کے قریب حملہ کوئٹہ میں ڈرون حملہ ریمنڈڈیوس کی حوالگی توکل کی باتیں ہیں ۔ماضی میں ایمل کانسی کوامریکیوں کے حوالے کرنے سے بھی پیچھے جائیں توہراس وقت جب ہمیں کسی اپنے کے ڈولوں کی ضرورت پڑی ،ہمیں بس ’’جوبچ گیااس پرشکرکرو‘‘ کی تھپکی دے دی گئی ۔خدانہ کرے مگراگرشہروں پرڈرون حملے ہوگئے تو کیا ہوگا؟ چندلوگ صاف صاف کہیں گے۔ ہم امریکا سے نہیں لڑسکتے وہ ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے ہے یہی بات سوچ کرلگتاہے حکومتی وزراء مارپڑنے سے پہلے قوم کوبچانے کی فکرمیں مصروف ہیں ؟رانجھاہیرحاصل نہ کرسکنے کے باوجودجس طرح رانجھاہی ہے اسی طرح ہمارے رانجھے بھی چوریاں کھائیں ۔ وہ ہمیشہ ہمارے رانجھے ہی رہیں گے ،چاہے ہیرکوکوئی کندھے پرڈال کرلے ہی کیوں ناجائے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر