... loading ...
مولانا محمد جہان یعقوب
اس وقت جیسے حالات ہیں،انھیں دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم قربِ قیامت کے زمانے میں جی رہے ہیں۔اسلام نے جن عقاید پر ایمان لانے کو اپنے ماننے والوں کے لیے ضروری قرار دیا ہے،ان میں سے ایک عقیدۂ آخرت وقیامت بھی ہے،ذیل میں اس حوالے سے ضروری معروضات پیش کی جارہی ہیں۔سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ دنیا میں جو شخص بھی آیا ہے،چاہے وہ شاہ ہے یا گدا،مالک ہے یا مملوک،حاکم ہے یا محکوم،اعلیٰ ہے یا ادنیٰ،برتر ہے یا کم تر،عزیز ہے یا رزیل،مرد ہے یا عورت یا بچہ،سب کو ایک دن اس دنیا کو چھوڑکر قبر کی تنگ وتاریک کوٹھڑی میں جانا ہے،جہاں ہمارے اعمال ِصالحہ کے سوا کوئی روشنی کا منبع ہوگا اور نہ ہی کوئی مونس وغم خوار،اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آئے گا،جب اس کائنات کو پیدا کرنے کی غرض پوری ہوجائے گی ،تو خالق ِ کائنات اس کائنات کی بساط لپیٹ دیں گے،یہ کب ہوگا ؟مخبر صادق ﷺ نے اس کی مختلف چھوٹی بڑی علامات بھی بیان فرمائی ہیں،پھر قیامت وآخرت اور حساب کتاب کا مرحل ہ وگا،جس کے بعد ابرارکے لیے جنت اوراشرار کے لیے جہنم کے فیصلے ہوں گے۔دین سے دوری اور بے راہ روی اس قدر عام ہوگئی ہے کہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والے نوجوان بھی بنیادی دینی عقاید سے لاعلم ہوتے ہیں اور ہندی فلموں کے اثر سے دوسرے جنم،آواگون اور تناسخ کی باتیں کرتے ہیں۔اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ عقیدہ ٔ آخرت وقیامت کے حوالے سے قرآن وذخیرہ احادیث میں جابجا پھیلی تعلیمات کو یک جا کیا جائے،تاکہ ہر مسلمان اپنے عقیدے کی درستی کی فکر کرے ۔
…نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے مختلف مراحل کی علامات بیان کی ہیں، ان میں سے کئی ظاہر ہو چکی ہیں اور بہت سی ظاہر ہونا باقی ہیں،ان میں سے چند اہم علامات درج ذیل ہیں:
علامات صغریٰ
٭…قیامت سے قبل حجاز سے ایک بہت بڑی آگ نکلے گی جس کا اثر شام تک پہنچے گا۔٭…مسلمانوں اور ترکوں میں جنگ ہوگی۔٭…ایک موقع ایسا آئے گا کہ سر زمین عرب پر،جو ریگستانی علاقہ ہے،سر سبزی و شادابی پھیل جائے گی، نہریں جاری ہو جائیں گی، جس میں جانور جہاں چاہیں گے چریں گے۔٭…عورتوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اور مردوں کی تعداد بہت کم ہو جائے گی،یہاں تک کہ تناسب اس حد تک گر جائے گا کہ پچاس عورتوں کے مقابلے میں صرف ایک مرد ہو گا۔
٭…ماں کی نافرمانی اور بیوی کی فرماں برداری شروع ہوجائے گی۔٭…فرات یعنی عراقی نہر میں سونے کا ایک پہاڑ ظاہر ہوگا۔٭…نبوت کے جھوٹے مدعی پیدا ہوں گے، ان میں سے تیس بہت بڑے دجال (قسم کے جھوٹے) ہوں گے۔٭…زندگی کے ہر شعبے میں بدترین اخلاقی زوال پیدا ہو جائے گا، اولاد نافرمان ہوجائے گی، بیٹیاں تک ماں کی نافرمانی کرنے لگیں گی، دوست کو اپنا اور باپ کو پرایا سمجھا جانے لگے گا۔٭…علم اٹھ جائے گا،جہالت عام ہوجائے گی، دین کا علم دنیا کمانے کے لیے حاصل کیا جائے گا۔٭… نااہل لوگ امیر اورحاکم بن جائیں گے، ہر قسم کے معاملات، عہدے اور مناصب نااہلوں کے سپرد ہوجائیں گے۔
٭…نیک لوگوں کے بجائے رذیل اور غلط کار قسم کے لوگ اپنے علاقے اور قبیلے کے سردار بن جائیں گے،لوگ ظالموں اور برے لوگوں کی تعظیم اس وجہ سے کرنے لگیں گے کہ ،یہ ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں۔٭…شراب کھلم کھلا پی جانے لگے گی۔٭…شرم و حیا بالکل ختم ہوجائے گی، زنا کاری اور بدکاری عام ہوجائے گی،ناچنے اور گانے والی عورتیں عام اور گانے بجانے کا سامان اور آلاتِ موسیقی بھی عام ہوجائیں گے۔٭…ظلم و ستم عام ہوجائے گا۔ ٭ … لوگ امت کے پہلے بزرگوں کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔٭…جھوٹ عام ہوجائے گا اور جھوٹ بولنا کمال سمجھا جانے لگے گا۔ ٭ … امیر اور حاکم ملک کی دولت کو ذاتی ملکیت سمجھنے لگیں گے۔٭…ایمان سمٹ کر مدینہ منورہ کی طرف چلا جائے گا، جیسے سانپ سکڑ کر اپنے بل کی طرف چلا جاتا ہے۔٭…ایسے حالات پیدا ہوجائیں گے کہ دین پر قائم رہنے والے کی وہ حالت ہوگی جو ہاتھ میں انگاراپکڑنے والے کی ہوتی ہے۔٭ … زکوٰۃ کو لوگ تاوان سمجھنے لگیں گے،اور امانت کے مال کو مالِ غنیمت سمجھا جائے گا۔
علامات کبریٰ
قیامت سے پہلے یہ بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی ،جن پر ہم کو ایمان لانا ضروری ہے،انھیں علامات کبریٰ کہا جاتا ہے:
٭…حضرت امام مہدیؓ تشریف لائیںگے ،(صحیح بخاری)چوں کہ حضرت مہدیؓ کے حوالے سے بھی عمومی طور پر لاعلمی پائی جاتی ہے،اس لیے احادیث طیبہ میں ان کے حوالے سے درج تفصیلات کا خلاصہ ان سطور میں پیش کیا جاتا ہے:
آپ ؓ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین(یعنی باپ اورماں دونوں کی طرف سے) سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔مہدی ان کا لقب ہوگا،جس کا مطلب ہے :ہدایت یافتہ۔(ابن ماجہ)جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح وہ شکل و شباہت اور اخلاق و شمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے۔وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعوی ٰکریں گے، نہ ان کو کوئی نبی کہے گا۔(تفسیر ابن کثیر ) مدینہ طیبہ میں ان کی پیدائش و تربیت ہوگی، مکہ مکرمہ میں ان کی بیعت و خلافت ہوگی اور بیت المقدس ان کی ہجرت گاہ ہوگی۔ جب ان سے بیعتِ خلافت ہوگی توروایات و آثار کے مطابق ان کی عمر چالیس برس کی ہوگی ۔(مستدرک حاکم) ساری دنیا میں عدل وانصاف فرمائیں گے۔ (سنن ابو داؤد) عیسائیوں سے جنگ کریں گے، ستر ہزار کا لشکر لے کر قسطنطنیہ فتح کریں گے۔ ان کی خلافت کے ساتویں سال دجال کا خروج ہوگا،حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کے نزول کے بعد آپ دو سال تک ان کے ساتھ رہیں گے، پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ ( مشکوٰۃشریف )
اب آئیے!مزید
علاماتِ کبریٰ کی طرف
٭…دجال نکلے گا ۔(مسند احمد) ٭ … حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمانوں سے نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ ٭ … یاجوج ماجوج نکلیں گے ۔(الأنبیاء )٭ … دھوئیں کاظاہرہونا ۔(الدخان)٭…زمین کا دھنس جانا ۔(صحیح مسلم)٭…سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ۔(صحیح بخاری)٭…صفا پہاڑی سے ایک جانور کا نکلنا۔(سورئہ نمل)٭…حبشیوں کی حکومت اور بیت اللہ کا شہید ہونا۔(شرح عقیدہ سفارینیہ)٭… آگ کا نکلنا۔(صحیح مسلم )٭…ٹھنڈی ہوا کا چلنا اور تمام مسلمانوں کا وفات پاجانا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت بدترین لوگوں پر واقع ہوگی، اس وقت مومن اور نیکوکارلوگ موجود نہیں ہوں گے۔(صحیح مسلم )
بہرحال ان علامات کے ظہور کے بعد قیامت آئے گی،اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیشی ہوگی،جسے آخرت کہتے ہیں۔ آخرت پر ایمان کا تقاضایہ ہے کہ آدمی آخرت کی جواب دہی کا تصور اپنے دل میں ہر وقت زندہ رکھے ،اور اس بات پر کامل ایمان رکھے کہ :
1…قیامت یعنی اس دنیا کا خاتمہ، پھر اس کے بعد ہر شخص کا زندہ ہونا بر حق ہے،دنیا پر یہ فناکامرحلہ ایسے ہی طاری ہوگا جیسے ایک انسان پر موت طاری ہوتی ہے۔(سورئہ یونس)حضرت اسرافیل علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے صور پھونکیں گے توقیامت قائم ہو جائے گی۔ (الأنعام) ٭ … زمین پر سخت زلزلہ آجائے گا۔ ٭ … پہاڑ روئی کی طرح اڑتے پھریں گے۔ ٭ … سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ ٭ … سورج چاند کی روشنی ماند پڑ جائے گی ،وہ آپس میں ٹکرا جائیں گے۔٭… ستارے بے نور ہو کر بکھر جائیں گے اور آسمان و زمین میں جتنی مخلوقات ہیں سب ختم ہو جائیں گی۔اورایک وقت ایسا آئے گا جب اللہ کے علاوہ کوئی زندہ نہیں بچے گاپھر اللہ سب کو زندہ کرے گا۔ (المزمّل، طہٰ، التکویر، المرسلٰت، الرحمن)
خلاصہ یہ کہ ہر شخص کو موت کے بعدقیامت کے دن زندہ ہو کرمیدان حشر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، جس کے بعد وہ جنت کی نعمتوں یا جہنم کی سزاؤںسے ہمکنار ہو گا۔(آل عمران)