... loading ...
پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے حالیہ دورہ ٔ چین کے دوران جو مثبت بات سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ چین نے امریکا کا نام لیے بغیر یہ بات واضح کردی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اس انداز میں اعتراف نہیں کیا گیا جس کا وہ مستحق تھا۔ پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران میں چینی وزیر خارجہ وانگ لی کے اس بیان کو پاکستان کے بارے میں حالیہ امریکی رویے کا جواب کہا جاسکتا ہے ۔انہوں نے اس سلسلے میں امریکا کا نام نہیںلیا لیکن بعض ممالک کا کہہ کر انہوں نے واضح اشارہ کردیا ہے کہ امریکا کسی طور بھی پاکستان کی قربانیوں کے اعتراف سے اجتناب کررہا ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ چین اپنے دیرینہ دوست پاکستان کے ساتھ پورے عزم کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر صورت ہم پاکستان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ـ درحقیقت یہ اعلان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے افغانستان کے حوالے سے حالیہ بیان کے خلاف پاکستان کے ساتھ اتحاد کا مظہر ہے۔
دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تلخیوںکے خاتمے کے لیے چین نے پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا اعلان بھی کیا ہے جو بیجنگ میں اس سال کے آخرمیں منعقد کیا جائے گا۔ اسی طرح گزشتہ دنوں پاکستان کے مخصوص میڈیا پر برکس کانفرنس کے دوران پاکستان مخالف بیان کا خاصا چرچا رہا ہے جس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں چین مکمل طور پر پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔دوسری جانب پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ باقاعدہ مذاکرات میں ہے اور یہ مسئلہ صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کسی صورت بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کرے گا۔ اس بات سے امریکی اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح واقف ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن چونکہ افغانستان میں امریکا کے مطلب کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آرہا تو اس کی ذمہ داری وہ پاکستان پر ڈال کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکا کی جانب سے افغانستان میں بھارت کے سیکورٹی سے متعلق تحفظات کو جائز قرار دینے یا دوسرے الفاظ میں افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار دینے کی کوششوں کے حوالے سے پاکستان نے دوست ممالک کے ساتھ مسلسل مشاورت کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اس لیے کسی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ چین اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ انہی معاملات کے تناظر میں چین کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کو قریب لانے میں اہم اور تعمیری کردار ادا کرے گا ۔ اس حوالے یہ معاملات مزید اہم ہوجاتے ہیں کیونکہ اس سال کے آخر میں چین نے پاک افغان اور چین کے وزرائیخارجہ کے اجلاس میں افغان طالبان کے وفد کو بھی شریک کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔یقینا چین کی جانب سے یہ سوچ ایک مثبت اور تعمیری قدم ہے۔ لیکن امریکا اور بھارت اسی معاملے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیںجبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ افغان طالبان کے بغیر افغانستان کے حل کے کوششیں کرنا بے کار ہیں کیونکہ افغان طالبان اس وقت افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے ایک اہم فریق ہیں۔ جس وقت امریکا اور اس کے صہیونی دجالی مغربی اتحادی افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے، اس وقت ان حملوں کا سامنا افغان طالبان نے کیا تھا۔ ان کی ہی حکومت کو شمالی اتحاد کی مدد سے گرایا گیا تھااور پھر افغان طالبان نے ہی ڈیڑھ عشرے پر پھیلی ہوئی عسکری مزاحمت میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی ناک افغان زمین پر رگڑوائی۔ اس لیے اگر عالمی سطح پر کوئی فریق یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل افغان طالبان کے بغیر نکل سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے کیونکہ افغان طالبان ہی افغانستان کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ اشرف غنی جیسی کٹھ پتلی حکومت کا کابل سے باہر کیا رسوخ ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔امریکیوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر معصوم لوگوں کے قتل عام کے سوا اب تک کچھ نہیںکرسکے ہیں۔امریکا کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ اور کرتا دھرتا کبھی افغانستان میں مستقل قیام کے خواب دیکھتے ہیں تو کبھی بھارت کو ’’بڑا کردار‘‘ دے کر اپنی جنگ میں اب بھارت کو بھی جھونکنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو بڑا کردار امریکا بھارت کو افغانستان میں سونپنا چاہتا ہے گزشتہ سولہ برسوں کے دوران میں وہ یہ کردار خود کیوں نہ ادا کرسکا ؟ جو تیر امریکا اور اس کے مغربی اتحادی نہ مار سکے وہ کیا بھارت مار لے گا؟ امریکا نے بحالی کے نام پر افغانستان میں بھارت کا جو کھیل کھیلنا چاہاہے، اس میں مزید تباہی کے سوا کچھ نہیں اور یہی بات امریکی چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکا کا کردار کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور دیگر تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ قرار دیا ہے تو دوسری جانب اب برکس کانفرنس کے موقع پر لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ اپنی کارروائیاں کرتے وقت پاکستان کی سرزمین استعمال کرتی ہیں۔جس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس امریکی موقف کی کھل کر مزاحمت کرنے کے بجائے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’ہم نے اپنے دوستوں کو آگاہ کردیا ہے کہ ہم نے اپنا گھر بہت حد تک ٹھیک کرلیا ہے‘اور عالمی برادری کے اعتماد کے لیے ہم اس پر مزید کام کررہے ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔