... loading ...
پاکستان کی قومی سیاست سخت بحرانی دور سے گزررہی ہے اسلام آباد کی احتساب عدالت سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی منتظر ہے۔ ان کے خلاف قومی احتساب نے بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے ریفرنس داخل کررکھے ہیں۔19 ؍ستمبر کو عدالت میں ذاتی طور پر حاضری کا بگل بج چکا ہے۔سمن جاری ہوگئے ہیں۔ ملزمان میں نااہل قرار دیے جانے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف ان کے سمدھی اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ صاحبزادے حسن اور حسین نواز ،داماد صفدر، بیٹی مریم نواز شامل ہیں جو لاہور کے حلقہ 120 کے ضمنی الیکشن میں اپنی والدہ کلثوم نواز کی کامیابی کے لیے بھر پور انتخابی مہم چلاچکی ہیں۔ انہوں نے جلسوں اور ریلیوں میں پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کا انداز اختیار کرنے کی پوری کوششیں کی۔
1978 میں بے نظیر بھٹو بھی اسی طرح سے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کے لیے میدان میں نکلی تھیں جنہیں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سے نکال کر جیل میں بند کررکھا تھا۔ ابتدا میں بے نظیر بھٹو بھی نو آموز تھیں‘سیاسی میدان میں نو وارد تھیں۔ انہوں نے لاڑکانہ سے طلبہ تنظیم کے صدر کو فون کرکے کہا تھا کہ کوئی ایسا واقعہ ہو جس کی خبر بی بی سی پر نشر ہو۔تنظیم کے لیڈر نے یہ ذمہ داری زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے یونٹ کے سپرد کی۔ آتشزدگی کا واقعہ ظہور پزیر ہوا اور رات کو یہ خبر بی بی سی سے نشر ہوگئی۔ بعدازاں قید وبند اور جلا وطنی کی صعوبتیں برداشت کرکے وہ اتنی بڑی لیڈر بن گئیں کہ سارا ملکی اور غیر ملکی میڈیا ان سے بات چیت کے لیے بے چین رہتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کی صاحبزادیوں میں فی الوقت کوئی مواز نہ سورج اور چراغ کی مماثلت کے متراف ہوگا۔ اس وقت کا منظر نامہ یہ ہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نواز شریف اور ان کے خاندان کو کٹہرے میں بلا رہی ہے اور دوسری طرف قومی احتساب بیورو ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کا تعاقب کررہا ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تلاش ہے۔ کمیشن نے وارنٹ جاری کردیے ہیں حالانکہ یہ کام عدالتوں کا ہے لیکن الیکشن کمیشن اپنے عدالتی اختیارات سے فائدہ اٹھارہا ہے۔ کپتان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی 5 ٹیمیں تشکیل دے کر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
ادھر اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس لندن میں موجود متحدہ قومی موومنٹ کے بانی قائد الطاف حسین کے پیچھے ہے۔ تحقیقات کررہی ہے اور پاکستان کی حکومت سے مدد مانگ لی ہے۔ مختلف اداروں میں پھنسے ان چار سیاستدانوں کے بعد صرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہرالقادری ہی باقی رہ جاتے ہیں جن پر کوئی الزام نہیں ہے۔ سراج الحق اپنی جماعت میں’’ ادنی کارکن‘‘ سے سفر کرکے اس اعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں۔ جماعت اسلامی کی امارت آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑی جدوجہد اور بلند کردار کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح علامہ طاہرالقادری نے مسجد کی امامت سے آغاز کرکے پی اے ٹی اور منہاج القرآن جیسی جماعت اور ادارہ تشکیل دیا ہے جس کے لاکھوں کارکنان ان کے ایک اشارے پر کسی بھی جگہ جمع ہونے اور جانیں قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اسلام آباد اور لاہور کے دھرنوں میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ پاکستان کی روایتی سیاسی قیادت کرپشن اور نااہلی کے پاتال میں اتری ہوئی ہے۔ چوٹی کے سیاستدان عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ میاں نواز شریف کو تو وزیراعظم بننے کا تیسری بار موقع ملا تھا۔ اس سے قبل انہیں دوبارہ قبل از وقت اقتدار سے نکالا گیا اور ان کی ثابت قدمی ہے کہ تیسری مرتبہ بھی انہوں نے اپنا یہ ’’اعزاز‘‘برقرار رکھا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے ایک ہزار سال لڑنے کا نعرہ لگا کر 1970 کے عام انتخابات میں پنجاب سے کامیابی حاصل کی اور پاکستان کے وزیر اعظم بنے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بھارت کبھی بھی پاکستان اور مسلمانوں کا دوست نہیں رہا ہے۔ میانمار (برما) میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے ان کے گھر جلائے جارہے ہیں‘ بستیاں اجاڑی گئی ہیں‘ خواتین اور بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی نے میانمار جاکر مسلمانوں کی قاتلہ آنگ سانگ سوچی کو شاباش دی ہے۔ پوری دنیا نے ان مظالم کی مذمت کی ہے اور مودی مسلم دشمنی میں اندھا ہوکر سوچی سے پیار کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان حالات میں اگر پاکستان کی سیاسی قیادت بھارت سے دوستی کا خواب دیکھے گی تو لازمی طور پر پاکستان کی بقا وسلامتی اور استحکام کے ذمہ دار اداروں سے ٹکراؤ ہوگا۔
1990 کی دہائی میں بھی میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورے میں انہیں لاہور میں 19 توپوں کی سلامی دے کر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ بھارت نے آج تک کسی پاکستانی وزیر اعظم کے لیے ایسی خیر سگالی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ پاکستان کی زمینی وسیاسی پوزیشن بڑی نازک ہے۔ اس کی دفاعی وخارجہ پالیسی بنانے میں پاک فوج کے تحفظات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے جس کی بنیادی ذمہ داری اندرونی وبیرونی استحکام اور تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ پہلے تو چار سال تک سرتاج عزیز جیسے بزرگ کو آگے رکھ کر وزیر اعظم نواز شریف خود خارجہ پالیسی چلاتے رہے اور وزیر دفاع خواجہ آصف ان کے اشاروں پر چلتے رہے۔ اس دوران پانی سرسے اونچا ہوا اور بالٓا خرخود ان کا سانس لینا دشوار ہوگیا ‘دوسری طرف ملک کو غیر ملکی قرضوں کے جال میں مزید جکڑ دیا گیا۔ قرضوں پر کمیشن اور ان کے ذریعے بننے والے منصوبوں میں کرپشن جب ناقابل برداشت ہوگئے تو ادارے حرکت میں آئے اور بات نااہلی تک جا پہنچی ۔اس پس منظر میں ایک یہی راستا باقی رہ جاتا ہے کہ نیک ‘محب وطن اور الزامات سے پاک قیادت وجود میں آئے جس کے لیے سراج الحق اور علامہ طاہرالقادری بہترین انتخاب ہوسکتے ہیں۔ ان کے دامن کرپشن کے الزامات سے پاک ہیں۔ ان کی جماعتیں ملک میں بڑے بڑے دینی اور فلاحی ادارے چلارہی ہیں۔ ایک نیا اسلامی اور جمہوری اتحاد وجود میں آسکتا ہے‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور (س) بھی اس کا حصہ بن سکتا ہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان مولانا شاہ احمد نورانی‘ مولانا عبدالستار خان نیازی‘ پروفیسر شاہ فرید الحق اور صوفی ایاز خان نیازی جیسی بلند وبالا شخصیات کی رحلت کے بعد گوکہ کٹھن حالات کی شکار ہے لیکن حاجی حنیف طیب جیسی قد آور شخصیات کو متحرک کرکے اس اتحاد کا حصہ بنایا جاسکتا ہے‘ علامہ ناصر عباس‘ علامہ ساجد نقوی اور علامہ حسن ظفر نقوی جیسی شخصیات بھی اسلامی اور جمہوری محاذ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ لٹیرے سیاستدانوں کا اقتدار میں واپسی کا راستا بند کیا جاسکتا ہے۔ پاک سر زمین پارٹی اور ایم کیو ایم کو بھی اتحاد میں شامل کیا جاسکتا ہے جن کے آبا ؤاجد ادنے 70 برس قبل غیر منقسم ہندوستان کے ان علاقوں میں پاکستان کی جنگ لڑی جنہیں پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا‘ اس راہ میں انہوں نے عظیم قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی ہے۔ لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں حسین عبداﷲ ہارون اور ایاز لطیف پلیجو جیسی شخصیات بھی نئے سیاسی اتحاد کا حصہ بن سکتی ہیں۔2018 کے
عام انتخابات اب زیادہ دور نہیں رہے۔
پاکستان مدینہ منورہ کے بعد اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے‘ لوٹ کھسوٹ کے نظام اور بد کردار‘ بد دیانت سیاستدانوں نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اسے درست کرنے کے لیے صاف ستھری اور باکردار قیادت کی ضرورت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس ملک کو پانچ موسم اور ہر قسم کی معدنیات عطا کی ہیں‘ تین بندرگا ہیں اور دنیا میں سب سے بڑا آبپاشی کا نظام اس کی زینت ہیں ۔ ضرورت صرف ایماندار‘ دیانتدار‘ محب وطن اور مخلص قیادت کی ہے۔ سراج الحق اور علامہ طاہر القادری جیسی شخصیات نئی قیادت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ نیا اسلامی سال 1439 شروع ہورہا ہے۔ پژ مردہ اور کرپٹ سیاستدانوں سے مایوس قوم کو نئے اسلامی سال کا نیا ایجنڈا دیا جاسکتا ہے۔ نئی امید دی جاسکتی ہے جو نئے اسلامی سال کا حقیقی تحفہ ہوگا ۔آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے دبئی میں انکشاف کیا ہے کہ 2013 سے ہر ماہ پاکستان سے 5 ارب ڈالرز رمبادلہ بھارت جارہا ہے ۔کیا اس کے بعد بھی کسی کے BACK COME کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔