وجود

... loading ...

وجود

قاہرہ کا نواحی نخلستان سیوا سیاحوں کی توجہ کا مرکز

اتوار 17 ستمبر 2017 قاہرہ کا نواحی نخلستان سیوا سیاحوں کی توجہ کا مرکز

کچھ عرصہ قبل تک بہت کم لوگ قاہرہ کے نواح میں واقع وسیع نخلستان سیوا کے بارے میں کچھ جانتے تھے اور مصر کی سیر کے لیے نکلنے والے سیاح عام طور پر قاہرہ اور مصرکے دیگر مشہور شہروں تک ہی محدود رہتے تھے ،سیوا قاہرہ کے شمال مغربی علاقے میں لیبیا کی سرحد کے قریب واقع ہے اور اسے مصر کے لیے قدرت کا تحفہ قرار دیاجاتا ہے، اس شہر کی تاریخی عمارتیں اور علاقے میں واقع روایتی مکان دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ، اور انھیں دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اس علاقے کو بجا طور پر مصر کا پوشیدہ خزانہ کہا جاتا ہے، کچھ عرصہ قبل ٹور آپریٹرز نے سیوا کی کچھ انداز میں تشہیر شروع کی کہ قاہرہ آنے والے غیر ملکی سیوا کی سیر کئے بغیر اپنے تفریحی دورے کو نامکمل تصور کرنے لگے۔اس طرح اب قاہرہ کے نواح میں واقع یہ علاقہ بھی اب سیاحوں کی آماجگاہ بن گیا ہے ،اس کے نتیجے میں اس علاقے میں بھی دولت کی فراوانی نظر آنے لگی ہے ، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد اور دولت کی ریل پیل کے باوجود اس علاقے کی قدیم آبادی قدیم باشندوں کی حالت زندگی ابھی تک نہیں بدلی ہے اور ان کی غربت و افلاس اور درماندگی میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے ۔
مصر کی اس گم گشتہ جنت میں پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سڑک کے راستے یعنی بس ، کار یا جیپ کے ذریعے لیکن قاہرہ سے جیپ یا بس کے ذریعہ ہی سفر زیادہ محفوظ ہے اگرچہ حکومت نے قاہرہ سے ایک نئی شاہراہ کے ذریعے سیوا کو قاہرہ سے ملادیا ہے ، لیکن یہ شاہراہ ریگستان کے درمیان سے گزرتی ہے اور کار یاچھوٹی گاڑیوں کے کسی بھی وقت ریگستانی طوفان میں پھنس جانے کا اندیشہ رہتا ہے ۔قاہرہ کو سیوا سے یا سیوا کو قاہرہ سے ملانے کے لیے تعمیر کی گئی یہ شاہراہ اتنی سیدھی اور سنسان ہوتی ہے کہ اس پر گاڑی کی رفتار کااندازہ ہی نہیں ہوتا اور گاڑیاں ہوا کے ایک جھونکے کی طرح گزرتی رہتی ہیں ۔
قاہرہ سے اس شاہراہ کے ذریعے سیوا پہنچنے میں کم از کم 10 گھنٹے لگتے ہیں لیکن ارد گرد کا منظر اتنا خوشنما ہے کہ 10 گھنٹے کایہ طویل سفر محسوس ہی نہیں ہوتا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چشم زدن میں ہم قاہرہ سے سیوا پہنچ گئے ، راستے میں جگہ جگہ صحرا کے درمیان واقع سرسبز قطعات اراضی اور اس کے بعد تاحد نظر پھیلے ہوئے صحرا کی خوبصورتی اس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کی توجہ کچھ اس طرح اپنی جانب مبذول کرائے رکھتی ہے کہ وقت کااندازہ ہی نہیں ہوپاتا۔
سیوا کو بلاشبہ مصر کا انتہائی خوبصورت علاقہ قرار دیاجاسکتا ہے اس کا قدرتی ماحول منفرد ہے ، یہاں مختلف مقامات پر زمین سے پھوٹنے والے 200 سے زیادہ معدنی پانی کے چشمے ہزاروں سال اس علاقے کے مکینوں کے زندہ رہنے کا سامان پیدا کررہے ہیں اور لق ودق صحرا کے درمیان خوبصورت نخلستان کے وجود کی ضمانت ہیں ،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہزاروں سال کے دوران آبادی میں بے انتہا اضافے اور اسی مناسبت سے کاشت کاری اور باغات میں اضافے کے باوجود ان چشموں سے نکلنے والے پانی میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس علاقے کے لوگوں کو پانی کی کسی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے ۔
سیوا کے باشندوں کی اکثریت کا تعلق بربر نسل سے ہے اس شہر کی آبادی اب کم وبیش 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے لیکن یہ لوگ رہن سہن اور تہذیب وتمدن کے اعتبار سے عام مصری باشندوں سے قطعی مختلف ہیں ، یعنی انھیں کسی بھی اعتبار سے مصری نہیں کہا جاسکتا۔یہاں تک کہ ان کی زبان بھی مصر میں بولی جانے والی عام زبان سے مختلف ہے ۔ اب مصر کی حکومت اس علاقے میں بھی عربی کی ترویج کی کوشش کررہی ہے جس کی وجہ سے قدیم زبان آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی جارہی ہے اور اب علاقے میں 40 سال سے کم عمر کاشاید ہی کوئی شخص علاقے کی قدیم زبان بول اور سمجھ سکتا ہو، کہتے ہیں کہ قدیم زمانے میں شمالی افریقہ اور جزیرہ نما عرب جانے والے قافلے سیوا میں پڑاؤ ڈالا کرتے تھے اور یہا ں کچھ دنوں آرام کرنے اور پانی وغیرہ کا ذخیرہ لے کر آگے روانہ ہوتے تھے ۔
اس علاقے میں سیاحوں کی آمد میں اضافے کے بعد مصر کے دوسرے شہروں کی طرح اس شہر میں بھی تعمیر وترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے لیکن سیوا کے عام باشندے اس ترقی سے خوش نہیں ہیں ان کا خیال ہے کہ اس سے ان کا اپنا تشخص ختم ہوجائے گا اور علاقے کی قدرتی خوبصورتی کو نقصان پہنچے گا، اس لیے وہ علاقے کی تیز رفتار ترقی کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔
سیوا کی خوبصورتی اور کشش کااندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی ملکوں سے آنے والے بہت سے سیاح اس علاقے کی خوبصورتی اور یہاں دستیاب سکون کی وجہ سے اس علاقے میں طویل عرصے تک قیام کرنے اور اس علاقے میں قیام کے دوران پرسکون انداز میں تصنیف وتالیف اور پینٹنگز وغیرہ کا کام مکمل کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے غیر ملکی بھی مقامی آبادی کے ساتھ قیام پذیر نظر آتے ہیں ۔
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ سیوانام کا یہ شہر ساتویں صدی قبل از مسیح آباد ہواتھا اور گزشتہ 12 ہزار سال سے نہ صرف یہ کہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ باہر سے آنے والوں کو بھی اپنے اندر سموتا جارہا ہے ۔سیوا کے شہری اردگرد موجود طویل صحرا کو اپنے اس نخلستان کاقدرتی محافظ قرار دیتے ہیں ،یہ لوگ روایتی طورپر گارے اور اینٹوں سے مکان بنا کر رہتے ہیں ،اور اپنے بنائے ہوئے روایتی مکانوں کو سرکاری طور پر تعمیر کی ہوئی پختہ عمارتوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔اس نخلستان کی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیوانام کا یہ شہر ایک زمانے میں مصرکے مشہور شہر لگزراور غزہ کے مقابلے کاشہر تھا،اس شہر میں انسان کی آمد کے جو سب سے قدیم نشانات دستیاب ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے میں 30 لاکھ سال قبل انسانوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہواتھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کا قدیم ترین مندر اس علاقے میں واقع تھا ، اس مندر کے آثار اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں ،کہاجاتا ہے کہ سکندر اعظم اس صحرا سے گزرتے ہوئے چڑیوں کو اڑتے دیکھ کر اس نخلستان میں آیاتھا اور یہاں اس نے کچھ دنوں آرام کیا تھااور یہاں مندر کے پجاری سے مہورت نکلوائی تھی کہتے ہیں کہ اس مندر کی سیڑھیوں سے اترتے وقت سکندر اعظم نے اس علاقے کے لوگوں سے کہاتھا کہ مجھے یہ بات القا ہوئی ہے کہ میں مصرکا نیا فرعون ہوں ۔سیوا کے لوگ رہن سہن کے اعتبار سے لیبیا کے باشندوں سے زیادہ ملتے ہیں اور سیوا کے باشندوں کی لیبیا کے باشندوں کے ساتھ اب بھی رشتہ داریاں قائم ہیں جس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ ا س علاقے کے لوگ مصر کے بجائے لیبیا کو زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔
سیوا اب دنیا کاسب سے زیادہ مشہور سیاحتی علاقہ بن چکا ہے اور قاہرہ کے تاجر اور ڈیولپرز حکومت کی جانب سے اس علاقے کو محفوظ علاقہ قرار دیئے جانے کے اعلان سے فائدہ اٹھارہے ہیں یہاں روایتی گارے اوراینٹوں سے بنائی ہوئی عمارتوں کی تزئین وآرائش کرکے آرامدہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں تبدیل کردیاگیا ہے جہاں ایک رات کے قیام کے لیے سیاحوں کو 500 ڈالر تک کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔
برطانیا کے شہزادہ چارلس سمیت دنیا کی متعدد مشہور شخصیات بھی اس نخلستان میں قیام کرچکی ہیں اور ماہرین یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ یہاں کے باشندے فصلوں کو کیڑا لگنے سے بچانے کے لیے کیا ٹیکنک استعمال کرتے ہیں اور مصنوعی کھاد استعمال کئے بغیر اس علاقے میں افریقہ کی بہترین کھجوریں اور زیتون کی کاشت کس طرح کی جارہی ہے باقاعدہ ریسرچ کرتے نظرآتے ہیں ۔
سیوا کے قدیم باشندوں کاکہنا ہے کہ یہاں آنے والے سیاح ہماری طرح قدیم طرز معاشرت کی طرح رہنے کی کوشش کرتے ہیں ، قدیم باشندوں کاکہنا ہے کہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد دولت کی ریل پیل سے قدیم باشندوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا یہ صحیح ہے کہ کچھ لوگوں کو گائیڈ کے طور پر یا یہاں کھلنے والے ہوٹلوں کے کچن میں کام کرنے کے مواقع مل گئے جس کی وجہ سے ان کی آمدنی میں کچھ اضافہ ہوگیا یا انھیں آمدنی کاایک ذریعہ مل گیا لیکن سیوا کے عام قدیم باشندے کی زندگی میں ابھی بہار کاایک جھونکا بھی نہیں آیا ہے ،کیونکہ یہاں کاروبار جمانے والوں کی اکثریت کا تعلق قاہرہ کے تاجر اور متمول طبقے سے ہے جو یہاں سے دولت کما کر قاہرہ لے جاتے ہیں ،اور یہاں کے قدیم باشندوں کی غربت دور کرنے کا نہ انھیں کوئی خیال ہے اور نہ ہی سیاحوں کی آمد کی وجہ سے سالانہ کروڑوں ڈالر کمانے والی حکومت کو ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر