... loading ...
ہالینڈکا زیادہ عرصے تک قبضہ برقراررہنے کے باعث سری نام میں ڈچ زبان کو سرکاری زبان کادرجہ حاصل ہے ‘ پرقومی زبان نہیں
سری نام کاشمار جنوبی امریکا کے خوبصورت ترین ملکوں میں ہوتا ہے اورہرسال لاکھوں سیاح اس ملک کی خوبصورتی کی وجہ سے اس کی سیر کرنے کے لیے اس ملک کا رخ کرتے ہیں ، اوریہاں کے حسین مقات کی سیرکرکے لطف اندوزہوتے ہیں ۔ یہ ملک بدقسمتی سے مختلف ادوار میں مختلف طاقتوں کے زیر نگیں رہا لیکن اس ملک کے جری باشندوں نے کبھی بھی غلامی کو دل سے قبول کیا اور نہ ہی اسے اپنا مقدر تصور کرکے اس کے سامنے سر جھکایا ۔ آزادی کی جدوجہد میں مصروف رہے جس کی وجہ سے مختلف ادوار میں مختلف طاقتوں کو یہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا رہا۔لیکن ہمیشہ اس ملک میں موجود قیمتی معدنی وسائل غیر ملکی طاقتوں کو یہاں آنے کی ترغیب دیتی رہیں اور اس ملک کے باشندے یکے بعد دیگرے مختلف طاقتوں کے زیر نگیں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے رہے ، بالآخر 1970 میں اس ملک کے عوام غلامی کا آخری طوق بھی توڑ نے میں کامیاب ہوئے اور آخری قابض ملک ہالینڈ کو بھی سری نام کو آزادی دے کر یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔
سری نام پر ہالینڈ کی طویل حکمرانی کی وجہ سے اب ڈچ زبان سری نام کی سرکاری زبان تصور کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ سری نام کے کسی بھی سرکاری دفتر میں چلے جائیں ڈچ زبان میں ہی آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا اور سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے سری نام کے بیشتر اسکولوں میں یہی زبان پڑھائی جاتی ہے ، لیکن ڈچ زبان سری نام میں بولی جانے والی واحد زبان نہیں ہے اور نہ ہی اس زبان کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سری نام کی قومی زبان کون سی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے 38 سال بعد بھی4 لاکھ 70 ہزار نفوس پر مشتمل یہ قوم ابھی تک اپنی قومی زبان کا تعین نہیں کرسکی ہے،اور ابھی تک اس پر بحث ومباحثے کاسلسلہ جاری ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سری نام میں 10 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں چینی، ہندی، جاپانی، ڈچ ، انگریزی اور نصف درجن سے زیادہ مقامی زبانیں شامل ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی زبان کو دوسری زبان پر فوقیت نہیں دی جاسکتی تاہم سری نام کی قدیم زبان سرانن ٹونگو کو رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔
حالیہ برسوں کے دوران سری نام میں بڑی تعدا د میں پرتگالی باشندوں کی آمد کی وجہ سے اب پرتگیزی زبان بھی سری نام میں بولی اورسمجھی جانے والی زبانوں میں شامل ہوگئی ہے جبکہ ٹیلی ویژن کے انگریزی پروگراموں کی وجہ سے اب انگریزی بھی سری نام کے عام گھروں میں بولی اور سمجھی جانے لگی ہے ۔
سری نام کی مقامی زبان سرانن ٹونگو کے مشہور شاعر اور ادیب 58 سالہ پال میڈے لیجن کا کہنا ہے کہ ہم نے ہالینڈ سے آزادی تو حاصل کرلی ہے لیکن ہمارا دماغ اور زبان ابھی تک ہالینڈ کی غلام ہے ،پال میڈے لیجن کا کہنا ہے کہ سری نام کے باشندوں کی اکثریت کیریبین اور شمالی امریکا سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں اس لیے مناسب یہ ہے کہ انگریزی کو قومی زبان کا درجہ دے دیا جائے ، اور جہاں تک ملک میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی مقامی زبان سرانن ٹونگو کا تعلق ہے تو قومی زبان کا درجہ نہ دئے جانے کے باوجود یہ زبان اپنا وجود برقرار رکھے گی اور سری نام کے بازاروں اور سڑکوں پر سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان کی حیثیت سے اس کاتشخص قائم رہے گا۔
پال میڈے لیجن کا کہنا ہے کہ سرانن زبان میں اتنی لچک ہے کہ یہ ملک کے وسیع تر علاقے میں بولی جانے والی زبان کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جہاں تک انگریزی زبان کاتعلق ہے تو اس ملک پر قابض ہالینڈامریکا اور برطانیاسے تجارت کرتا رہا ہے اور اس حوالے سے انگریزی کو اس ملک میں پیر جمانے کا موقع ملا ہے ۔یہی نہیں بلکہ اس ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو 17 ویں صدی عیسوی سے اس ملک کے امریکا کے ساتھ تعلقات رہے ہیں اور انگریزی کسی نہ کسی صورت اس ملک میں موجود رہی ہے۔جہاں تک سرانن کا تعلق ہے تو سرانن کو قوم پرستوں کی سرپرستی حاصل ہے اس زبان کو قوم پرستوں کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے لیکن قوم پرست بھی انگریزی زبان کے مخالف نہیں ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی کو قومی زبان کادرجہ دیئے جانے کے بعد بالآخر ڈچ زبان سے جسے قوم پرست غلامی کی علامت تصور کرتے ہیں جان چھوٹ جائے گی۔
سری نام کے دانشوروں کاکہنا ہے کہ مقامی زبان سرانن ہی دراصل ہم لوگوں کومتحد کرنے کا ذریعہ ہے اور اس کے بغیر یہ قوم تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائے گی۔سری نام میں جہاں بھی جائیں یہ دیکھنے میں آتاہے کہ لوگ کوئی بھی زبان بول رہے ہوں لیکن مقامی زبان سرانن سے محبت کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ زبان ترقی کرتی رہے ۔یہاں تک کہ سری نام میں کتابوں کی دکان کے مالکان بھی سرانن بولنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔