وجود

... loading ...

وجود

ٹلہ جوگیاں جہلم میں سورج پرست آریوں کی نشانی

اتوار 17 ستمبر 2017 ٹلہ جوگیاں جہلم میں سورج پرست آریوں کی نشانی

ٹلہ کی چوٹی سطح زمین سے 3200 فٹ بلند ہے۔ یہ ایک صحت افزا اور خوبصورت مقام ہے۔ جہاں طبی جڑی بوٹیوں کے علاوہ ایسے مختلف قسم کے درخت اور پرندے بھی پائے جاتے ہیں جو اس علاقے کے دوسرے حصوں میں دکھائی نہیں دیتے۔ آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے آریہ قوم ترکمانستان سے کوہ ہمالیہ کے شمالی اور مغربی درّوں کی راہ سے پنجاب میں وارد ہوئی تھی اور چونکہ پنجاب کا پہلا پڑاؤ درئہ جہلم ہے اس لیے اکثر مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آریہ قوم کی پہلی جولان گاہ وادی جہلم تھی۔
یہ قوم فطری مظاہر چاند ،سورج اور ستاروں کو دیوتا مانتی اور ان کی پرستش کیا کرتی تھی ان کے مذہبی رہنماؤں نے سورج دیوتا کی پوجا کے لیے ٹلہ کو ایک موزوں مقام سمجھ کر منتخب کیا تھا۔ٹلہ جوگیاں ،جہلم سے جنوب مغرب کی جانب براستہ دینہ 20 میل (35 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ہے یہ جہلم کا ایک پرفضا مقام ہے ٹلہ جوگیاں ، جوگیوں کا ایک مشہور استھان تھا۔ایک دور میں یہاں بدھوں کا زور رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹلہ جوگیاں قبل مسیح ہی سے ایک خاص شہرت کا حامل رہا ہے۔ اسے ’’کوہ بالناتھ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔کئی حکمرانوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں ٹلہ جوگیاں پر خاص توجہ دی اور اسے جوگیوں کی سہولت کے لیے وقف رکھا۔ انہوں نے جوگیوں کو خصوصی مراعات بھی دیں ۔
اکبر اعظم نے علاقہ نوگراں کوٹلہ کی جاگیر بنا رکھا تھا جس کے محاصل سے ٹلہ کی تزئین و آرائش کا کام لیا جاتا تھا۔ یوں تو ٹلہ کو بہت پرانے زمانے سے ہندوؤں کی عبادت گاہ کی حیثیت حاصل تھی لیکن اس کی اصل شہرت کا آغاز گوروگورکھ ناتھ کی آمد پر ہوا۔بعدازاں 1452ء میں بہلول لودھی کے دور حکومت میں جوگی بالناتھ آیا اور مشہور عاشق زار رانجھا جٹ اس کا چیلہ بنا تو اس علاقے کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ٹلہ کے ناتھ جوگیوں کا سلسلہ بڑا وسیع ہے اور ان جوگیوں نے یہاں کے تمدن پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔سکندراعظم سوا تین صدیاں قبل مسیح پنجاب کے اس علاقے میں آیا تو گرجا کو شہر سے جو موجودہ جلال پور شریف ضلع جہلم کے نزدیک واقع تھا، ٹلہ کو بلندی سے دیکھا اسے اہل گرجا گھر نے بتایا کہ ٹلہ میان درویشوں اور جوگیوں کا سب سے بڑا استھان ہے جہاں پورا پنجاب حاضری دیتا ہے وہاں سینکڑوں جوگی ’’الکھ‘‘ جگانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ہزاروں گائیوں کے پوتر دودھ سے وہ خوراک حاصل کرتے ہیں وہ نہ صرف جڑی بوٹیوں کے خصائص سے واقف ہیں بلکہ ان سے لوگوں کا علاج معالجہ بھی کرتے اور ایک ’’چٹکی سے روگ‘‘ کا خاتمہ کر دیتے ہیں ۔
یہی عجیب و غریب داستانیں سن کر سکندراعظم نے ٹلہ پر حاضری دینے کا فیصلہ کیا اور ایک ہاتھی پر سوار ہو کر جوگیوں کے بتائے ہوئے راستہ پر ہاتھی کو چلاتے ہوئے ٹلہ کی چڑھائی چڑھنے کی ٹھانی گوٹلہ کوئی بہت زیادہ چڑھائی پر واقع نہیں ہے لیکن ہاتھی نہ چڑھ سکا اور راستہ میں ہلاک ہو گیا۔ لہٰذا سکندر کو پیدل اور گھوڑے کی سواری کے ذریعے چڑھائی عبور کرنی پڑی۔ بالناتھ جوگی بڑے صاحب کمال سمجھے جاتے تھے ان کے زمانے میں ٹلہ کا نام کوہ بالناتھ پڑ گیا تھا ان کی روحانی قوت کا اس زمانے میں کافی شہرہ تھا۔ ان سے دعائیں لینے، جوگ حاصل کرنے، آسن جمانے اور گیان دھیان کے طریقے سیکھنے کے لیے دوردراز سے عوام اور راجے مہاراجے آیا کرتے تھے۔ ایک بار خود بہلول لودھی بالناتھ سے ملنے آیا تھا۔ ٹلہ کے لوگ کہتے ہیں کہ آخری دور میں گورونانک صاحب بھی بالناتھ سے ملاقات کرنے ٹلہ پر آئے تھے۔
یہی وہ ٹلہ ہے جہاں راجہ پورس نے سکندراعظم سے پنجہ آزمائی سے پہلے اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا۔ یونانی مورخ پلوٹارک نے اس پہاڑی کو ہاتھیوں کا ٹیلہ کا نام دیا ہے بعض یونانی مورخین نے اس جگہ کو ’’فل ناتھ‘‘ اور بعض نے ’’پل ناتھ‘‘ کا نام دیا۔ٹلہ پنجابی میں بلند چوٹی کو کہتے ہیں یورپ میں جاکر یہ لفظ ’’ٹیلہ‘‘ بن گیا۔مغلوں کے دور حکومت میں اکبراعظم یہاں آیا کرتا تھا اس کے بعد جہانگیر بادشاہ موسم گرما میں کشمیر سے واپسی پر اسی راستے سے گزرتا ہوا یہاں شکار وغیرہ کھیلا کرتا تھا۔ آثارقدیمہ کا صرف ایک آدمی کنگھم جو 1818ء سے پہلے اس مقام پر پہنچا انگریز افسران دورے پر ضرور وہاں پہنچا کرتے تھے۔ اپنی پختگی کی وجہ سے بغیر دیکھ بھال کے ہزاروں سال سے تعمیر شدہ یہ عمارتیں بدستور کھڑی ہیں ۔ بیشتر سامان اور ہزاروں قلمی کتابوں کا ذخیرہ ناتھ جوگی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔دینہ سے بس ٹلہ کے دامن میں واقع گاؤں ’’بھیٹ‘‘ تک جاتی ہے وہاں سے چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر