وجود

... loading ...

وجود

محسن کراچی ڈاکٹر پرویز محمود شہید

اتوار 17 ستمبر 2017 محسن کراچی ڈاکٹر پرویز محمود شہید

کار شاہراہ فیصل پرآہستہ آہستہ منزل کی جانب رواں دواں تھی ۔کارمیں سوارتینوں دوستوں کی عمروں میں بے شک فرق تھابلکہ تینوں کے کام کرنے کے اسٹائل بھی فرق تھامگرپھربھی ایک عرصے سے تینوں کامعمول تھاکہ وہ ہردوسری رات جمع ہوتے ۔بلاول ہاؤس کے سامنے واقع چائے کی دُکان سے چائے پیتے اورپھرگاڑی کو40کی اسپیڈپرڈال کراس کارخ دودریاجانے والی سڑک کی طرف موڑدیتے، اکثرایساہوتاکہ تینوں دوست آپس میں کوئی بات نہ کرتے اورہزاروں باتیں کرلیتے ۔گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھے عابدبھائی کاویسے بھی معلوم تھاکہ وہ کم ہی بولتے تھے ۔ یہ عابدبھائی کاعرصے سے معمول تھاکہ وہ ڈاکٹرپرویزصاحب کے ساتھ رہتے ،وہ ہرروز ثواب سمجھ کراپنی کارمیں عباسی اسپتال کے پیچھے واقع مکان نمبر 3C-12 /19پہنچتے۔ وہاں سے ڈاکٹر پرویز محمود کولیتے پھرتیسرے دوست کوشاہراہ فیصل سے بٹھاتے اوریوں مسافروں کی گنتی پوری ہوجاتی ۔ڈاکٹرصاحب اکثرکہاکرتے کہ آدمی دوستوں کی خاموشی کوبھی انجوائے کرتاہے۔ کارحسب معمول سفرطے کررہی تھی گاڑی کی ٹیپ سے مدہم سروں میں کوئی خوبصورت کلام چل رہاتھا،پچھلی سیٹ پربیٹھے نوجوان نے ڈاکٹرصاحب کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خیریت ہے بھائی ؟آج کچھ اداس لگ رہے ہیں ؟ڈاکٹرصاحب نے ٹیپ کی آوازبند کی اورکہنے لگے۔آپ نے اشفاق احمدکاڈرامہ،فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی ،دیکھاہے ؟نوجوان نے کہاجی بھائی بہت پہلے دیکھاتھاکچھ کچھ یادہے ۔انہوں نے گولڈلیف کاسگریٹ آدھاتوڑکرپھینکااورباقی کوجلانے کے بعدایک لمباکش لیا،گاڑی سے باہرکی دنیاقریب قریب سوچکی تھی۔ البتہ سی ویوپرچندجوڑے سرجوڑے بیٹھے دکھائی دے رہے تھے ۔اکادکاگاڑیاں برابرسے گزرتی تھیں سڑک سنسان تھی مگرپھربھی کارکی رفتار40سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ڈاکٹرصاحب نے پیچھے بیٹھے نوجوان کومخاطب کرتے ہوئے بات شروع کی۔ وہ کہنے لگے آج میں گھرمیں بیٹھاکوئی کتاب پڑھ رہاتھاکہ نیچے کسی نے گھنٹی بجائی ،میں نے اٹھ کردیکھاتوکوئی کوریئروالاتھا۔میں نے اس سے اپنے نام آنے والاکورئیرکاپیکٹ لیاجب وہ پیکٹ کھولاتو اندرانتہائی خوبصورت قیمتی تین شادی کے دعوتی کارڈتھے۔ یہ کارڈمیرے ایک دوست جوکہ اب امریکا میں شفٹ ہوچکے ہیں ،ان کی بیٹی کی شادی کے تھے ،ایک خوبصورت کارڈلڑکی کی سہیلیوں کی طرف سے تھا جس میں رسم حناکے پروگرامات کی تفصیل تھی کہ کتنے بجے مہمانوں نے آناہے پھرکتنے بجے رسم حنا ہوگی پھرکب سنگیت کی محفل شروع ہوگی اوربھی بہت سے پروگرامات کی تفصیل درج تھی۔ اسی طرح ایک انتہائی مہنگے اورقیمتی کارڈکی شکل میں شادی کی دعوت دی گئی تھی۔ میں ہاتھوں میں وہ قیمتی کارڈلیے دیرتک یوں ہی صوفے پر بیٹھا ،ان کارڈزکودیکھتارہا کہ اگرکارڈاتنے قیمتی اور خوبصورت ہیں توشادی پر کتنا روپیہ خرچ کیاجائے گا َ؟ مجھے اپنے اس دوست کے وہ شب وروزیاد آنے لگے جب ان کے گھرمہینے کی آخری تاریخوں میں کھانے کوراشن نہیں رہتا تھا۔وہ اسکول پھٹے جوتوں کے ساتھ آتاتھااورہرسال اس کایونیفارم چھوٹے بھائی کوملتا تھا۔خوداس کویونیفارم اکثرہم دیتے تھے ۔غربت ان کے گھردھرنادے کربیٹھ گئی تھی ۔جب اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئی توچندمہمان ان کے گھرآئے تھے ۔اوراس کے والدین نے بیٹی کی رخصتی کردی تھی ۔ساری بارات کے لیے سالن ایک بڑے دیگچے میں پکاتھاجوان کی والدہ نے پڑوسن سے لیاتھا۔پھریوں ہواکہ میرادوست سندھ میڈیکل کالج پہنچ گیااور وہاں سے امتحان پاس کرکے امریکاچلاگیا۔آج وہ کروڑپتی ہے ۔اب وہ اپنی بیٹی کی شادی میں جی بھرکراپنے ارمان پورے کرناچاہتاہے ۔ ڈاکٹرصاحب نے دوسراسگریٹ جلایااورکہنے لگے، میں سوچتا ہوں کہ جب لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی میں اپنی دولت کے بل بوتے پراپنے ارمان پورے کررہے ہوتے ہیں ، تب وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس رات شادی سے لوٹنے والے بیٹیوں کے والدین رات کیسے سوتے ہونگے؟ جب کوئی بیٹی اپنی ماں سے کہتی ہوگی ’’ اماں میری شادی پربھی تم مجھے ایساہی جوڑالیکردوگی نا جیسا آج دلہن نے پہناتھا ؟‘‘ اورماں ہاں کہہ کرمنہ دوسری طرف کرلیتی ہوگی پھراس کے آنسو وہ تکیہ پی لیتاہوگا جواکثر آنسو چھپانے میں اس عورت کی مددکرتاہے ۔ پچھلی سیٹ پربیٹھے نوجوان نے ڈاکٹرصاحب سے پوچھابھائی آپ نے اشفاق احمدکے ڈرامے کااس لیے پوچھاتھاکہ اس میں بھی ایسی ہی شادی کی منظرکشی کی گئی ہے ؟ڈاکٹر صاحب کہنے لگے میں اس وقت غالباً میڈیکل کے پہلے سال میں تھاجب میں نے یہ ڈرامہ دیکھااس ڈرامے میں فہمیدہ ایک خوبصورت بی اے کی طالبہ ہے اوراس کی ماں استانی راحت اس کی شادی کی فکرمیں پریشان رہتی ہے ۔ایک روزان کومالک مکان گھرخالی کرنے کوکہتاہے، استانی راحت کسی واقف کارکے توسط سے ایک بنگلے کاسرونٹ کوارٹرلیتی ہے ۔بنگلے والے بڑے اچھے امیرلوگ ہوتے ہیں ۔جن دنوں استانی راحت اپنی بیٹی فہمیدہ کی شادی کے لیے جہیزجمع کررہی ہوتی ہے ۔انہی دنوں بنگلے والے صاحب کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے وہ لڑکی اکثر اپنے ساتھ شاپنگ کے لیے فہمیدہ کوبھی لے جاتی ہے ۔فہمیدہ دیکھتی ہے کہ لڑکی کپڑوں کی دُکان پرجاتی ہے تواسے جتنے کپڑے پسندآتے ہیں ،وہ خریدلیتی ہے پھروہ جیولری کی شاپ پرجاتی ہے تو وہاں سے کئی سونے کے سیٹ خریدتی ہے ۔یہ تمام منظرفہمیدہ دیکھتی رہتی ہے ۔اسی دوران بنگلے والے صاحب کی بوڑھی ماں ایک روزاپنے بیٹے کوبلاتی ہے اوراسے سمجھاتی ہے کہ بیٹایہ جو سب تو، اپنی بیٹی کی شادی کے نام پرکررہاہے، یہ اسراف ہے حرام ہے۔ مت کروایساخداناراض ہوگا۔اس سے لوگوں کے دل دکھتے ہیں ۔وہ اپنی ماں کوسمجھاتاہے کہ ماں میری مجبوری ہے اگرمیں نے ایسانہ کیاتوسوسائٹی کے لوگ مجھے کہیں گے کہ اس نے بیٹی کی شادی پرکنجوسی کی ہے اورپھرمیں اللہ کی راہ میں بھی توخرچ کرتاہوں ۔غریبوں کی مددکرتاہوں وغیرہ وغیرہ ۔
اگلے منظرمیں دکھاتے ہیں کہ اسی دوران استانی راحت کی کمیٹی نکلتی ہے اوروہ اپنی بیٹی فہمیدہ کے لیے دوسونے کے جھمکے خریدتی ہے۔ وہ ان جھمکوں کو فخرسے فہمیدہ کودکھاتی ہے ۔اوران کوایک بڑے صندوق میں رکھ دیتی ہے ۔اسی رات کواستانی راحت دوتین مرتبہ اٹھ کرفہمیدہ سے صندوق کے متعلق پوچھتی ہے کہ تونے صندوق احتیاط سے بندکیاہے نا؟آج کل چوربہت ہوگئے ہیں ۔استانی راحت کی باربار تاکید پرفہمیدہ غصے اوردکھ سے کہتی ہے ’’ اماں تیرے یہ چار کپڑوں کے جوڑے ،برتن اوران دوجھمکوں کواگراٹھاکرسڑک پربھی رکھ دوں ناتومیونسپلٹی والے بھی اسے نہیں اٹھائیں گے‘‘ پھرفہمیدہ غمگین ہوکرکہتی اماں توپاگل ہے ۔اس واقعے کے چند روز بعد بنگلے والے صاحب کی بیٹی کی شادی بڑے دھوم دھام سے ہوتی ہے ۔اس شادی کی تقریب میں فہمیدہ شرکت کرتی ہے ۔اوراپنی آنکھوں سے دولت کی نمائش کے مختلف مناظر دیکھتی ہے ۔
اگلے منظرمیں پھر استانی راحت ایک وکیل کے پاس بیٹھی ہے اور قتل کامقدمہ درج کروانے کی ضدکرتی ہے ۔وکیل پوچھتاہے کہ کس نے قتل کیاہے ؟قاتل کون ہے ؟استانی راحت کہتی ہے میری بیٹی کوکئی سولوگوں نے مل کرماراہے۔ اس بارات میں شامل سبھی لوگ جورنگ برنگے کپڑے پہن کرآئے تھے اوروہ تمام امیرجواپنی امارت کی دھاک بٹھانے آئے تھے وہ سب میری معصوم بیٹی کے قاتل ہیں ،انہوں نے دنیاکی چمک دکھاکرمیری بیٹی کوقتل کیاہے۔ اس کے دماغ کی نس ان امیروں کی وجہ سے پھٹی ہے ۔ پرویز بھائی بتانے لگے کہ جس روزمیں نے یہ ڈرامہ دیکھااس رات میں دیرتک اپنے گھرکی گرل سے لگ کربیٹھارہا ۔میری والدہ رات کے کسی پہراٹھیں اورانہوں نے مجھے جاگتے دیکھاتو میرے پاس آگئیں اوربولیں ’’ پترکی ہویا اے ؟توپریشان ایں ؟ ‘‘ میں نے کہانہیں اماں بس ایسے ہی نیندنہیں آرہی تھی ۔
ڈاکٹرصاحب کہنے لگے میں نے اس روزعہد کیاکہ اپنی شادی سادگی سے کروں گا۔نوجوان نے پوچھاپھرآپ کی شادی کیسے ہوئی؟ ڈاکٹرصاحب کہنے لگے کہ شادی سے ایک روزپہلے قاضی حسین احمدصاحب کی طرف سے بطورتحفہ شادی کاسوٹ شلوارقمیض مل گئے تھے۔ وہ بیرون ملک تھے اس لیے خودنہیں آئے تھے ۔عصرکے وقت محلے کی مسجدمیں نکاح پڑھایاگیااورمغرب کی اذان ہوگئی۔ اس وقت تک میں مسجدمیں مہمانوں سے مل رہاتھامہمانوں کی تواضع کھجوروں سے کی گئی تھی ۔عشاء کے بعدگھرکی خواتین جاکردلہن لے آئیں ۔اگلے روزاپنے گھرکی چھت پرچند دوستوں کوبلاکرولیمہ کرلیا۔گاڑی اب تک واپس شاہراہ فیصل پرآچکی تھی ۔اوریہاں ان تینوں دوستوں میں سے ایک اترجایاکرتاتھا۔اس قدرحساس اورنرم طبیعت کے مالک ڈاکٹر پرویزمحمودکو17ستمبرکوکے ڈی اے چورنگی پر قتل کردیا گیاتھا۔یہ قتل شہر کراچی کے دعوے دار کی سالگرہ پرایک تحفہ تھا،مگرعجیب معاملہ ہواس قتل کے بعداللہ پاک نے ظالموں کی الٹی گنتی شروع کروادی ۔اس کے بعدحالات جیسے بدلے وہ سب کے سامنے ہیں ۔کراچی کے امن کے لیے جن لوگوں نے اپنی جان کی بازی لگادی ان میں شہیدڈاکٹرپرویزمحمودایک مینارہ نورہیں ۔کراچی سے اوریہاں کے لوگوں سے محبت ڈاکٹرصاحب کو یہاں سے کہیں جانے نہیں دیتی تھی۔ شہرکے امن کے لیے ڈاکٹرصاحب نے اس زمانے میں کرداراداکیاجب ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے تھے ۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب لوگوں کے فیصلے تھانے اورعدالتوں میں نہیں بلکہ سیکٹراوریونٹ آفس میں ہوتے تھے ۔ اس زمانے میں کراچی کے’’ وارثوں ‘‘ سے سوال کرنے والے دن کی روشنی میں عباسی ہسپتال جانے سے گریزکرتے تھے تب ڈاکٹرصاحب کی مستقل رہائش زندگی کی آخری شام تک دوستوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود عباسی ہسپتال کی پچھلی گلی میں تھی ۔کراچی میں سرکاری سرپرستی میں جاری بدمعاشی ختم کرنے میں جس دلیری سے ڈاکٹرصاحب لڑے اس کو ان کے دوست مانتے تھے۔ وہیں ڈاکٹرصاحب کی بہادری اوردلیری کے قائل ان کے سخت مخالفین بھی تھے ۔جس محسن کراچی ڈاکٹرپرویزمحمودسے کراچی والے ملے ہیں یقین کریں وہ شخص اندرسے انتہائی حساس ،نرم دل ،ہمدرداوردلیرتھااوریہ بات صرف ان کے قریبی دوست جانتے ہیں مگران کے قریبی دوستوں میں اکثر اب ہم میں نہیں رہے ۔
ڈاکٹرصاحب آج سخی حسن قبرستان میں میٹھی نیند سورہے ہیں مگروہ کراچی میں دہشت گردوں سے نفرت کرنے والوں کے دلوں میں محبت کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ اللہ پاک ڈاکٹر صاحب کی قبرکواپنے نورسے بھردے اورکراچی کوڈاکٹرصاحب اوردیگرشہداء کی قربانیوں کے صدقے امن کاگہوارہ بنادے ۔امین


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر