... loading ...
کار شاہراہ فیصل پرآہستہ آہستہ منزل کی جانب رواں دواں تھی ۔کارمیں سوارتینوں دوستوں کی عمروں میں بے شک فرق تھابلکہ تینوں کے کام کرنے کے اسٹائل بھی فرق تھامگرپھربھی ایک عرصے سے تینوں کامعمول تھاکہ وہ ہردوسری رات جمع ہوتے ۔بلاول ہاؤس کے سامنے واقع چائے کی دُکان سے چائے پیتے اورپھرگاڑی کو40کی اسپیڈپرڈال کراس کارخ دودریاجانے والی سڑک کی طرف موڑدیتے، اکثرایساہوتاکہ تینوں دوست آپس میں کوئی بات نہ کرتے اورہزاروں باتیں کرلیتے ۔گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھے عابدبھائی کاویسے بھی معلوم تھاکہ وہ کم ہی بولتے تھے ۔ یہ عابدبھائی کاعرصے سے معمول تھاکہ وہ ڈاکٹرپرویزصاحب کے ساتھ رہتے ،وہ ہرروز ثواب سمجھ کراپنی کارمیں عباسی اسپتال کے پیچھے واقع مکان نمبر 3C-12 /19پہنچتے۔ وہاں سے ڈاکٹر پرویز محمود کولیتے پھرتیسرے دوست کوشاہراہ فیصل سے بٹھاتے اوریوں مسافروں کی گنتی پوری ہوجاتی ۔ڈاکٹرصاحب اکثرکہاکرتے کہ آدمی دوستوں کی خاموشی کوبھی انجوائے کرتاہے۔ کارحسب معمول سفرطے کررہی تھی گاڑی کی ٹیپ سے مدہم سروں میں کوئی خوبصورت کلام چل رہاتھا،پچھلی سیٹ پربیٹھے نوجوان نے ڈاکٹرصاحب کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خیریت ہے بھائی ؟آج کچھ اداس لگ رہے ہیں ؟ڈاکٹرصاحب نے ٹیپ کی آوازبند کی اورکہنے لگے۔آپ نے اشفاق احمدکاڈرامہ،فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی ،دیکھاہے ؟نوجوان نے کہاجی بھائی بہت پہلے دیکھاتھاکچھ کچھ یادہے ۔انہوں نے گولڈلیف کاسگریٹ آدھاتوڑکرپھینکااورباقی کوجلانے کے بعدایک لمباکش لیا،گاڑی سے باہرکی دنیاقریب قریب سوچکی تھی۔ البتہ سی ویوپرچندجوڑے سرجوڑے بیٹھے دکھائی دے رہے تھے ۔اکادکاگاڑیاں برابرسے گزرتی تھیں سڑک سنسان تھی مگرپھربھی کارکی رفتار40سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ڈاکٹرصاحب نے پیچھے بیٹھے نوجوان کومخاطب کرتے ہوئے بات شروع کی۔ وہ کہنے لگے آج میں گھرمیں بیٹھاکوئی کتاب پڑھ رہاتھاکہ نیچے کسی نے گھنٹی بجائی ،میں نے اٹھ کردیکھاتوکوئی کوریئروالاتھا۔میں نے اس سے اپنے نام آنے والاکورئیرکاپیکٹ لیاجب وہ پیکٹ کھولاتو اندرانتہائی خوبصورت قیمتی تین شادی کے دعوتی کارڈتھے۔ یہ کارڈمیرے ایک دوست جوکہ اب امریکا میں شفٹ ہوچکے ہیں ،ان کی بیٹی کی شادی کے تھے ،ایک خوبصورت کارڈلڑکی کی سہیلیوں کی طرف سے تھا جس میں رسم حناکے پروگرامات کی تفصیل تھی کہ کتنے بجے مہمانوں نے آناہے پھرکتنے بجے رسم حنا ہوگی پھرکب سنگیت کی محفل شروع ہوگی اوربھی بہت سے پروگرامات کی تفصیل درج تھی۔ اسی طرح ایک انتہائی مہنگے اورقیمتی کارڈکی شکل میں شادی کی دعوت دی گئی تھی۔ میں ہاتھوں میں وہ قیمتی کارڈلیے دیرتک یوں ہی صوفے پر بیٹھا ،ان کارڈزکودیکھتارہا کہ اگرکارڈاتنے قیمتی اور خوبصورت ہیں توشادی پر کتنا روپیہ خرچ کیاجائے گا َ؟ مجھے اپنے اس دوست کے وہ شب وروزیاد آنے لگے جب ان کے گھرمہینے کی آخری تاریخوں میں کھانے کوراشن نہیں رہتا تھا۔وہ اسکول پھٹے جوتوں کے ساتھ آتاتھااورہرسال اس کایونیفارم چھوٹے بھائی کوملتا تھا۔خوداس کویونیفارم اکثرہم دیتے تھے ۔غربت ان کے گھردھرنادے کربیٹھ گئی تھی ۔جب اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئی توچندمہمان ان کے گھرآئے تھے ۔اوراس کے والدین نے بیٹی کی رخصتی کردی تھی ۔ساری بارات کے لیے سالن ایک بڑے دیگچے میں پکاتھاجوان کی والدہ نے پڑوسن سے لیاتھا۔پھریوں ہواکہ میرادوست سندھ میڈیکل کالج پہنچ گیااور وہاں سے امتحان پاس کرکے امریکاچلاگیا۔آج وہ کروڑپتی ہے ۔اب وہ اپنی بیٹی کی شادی میں جی بھرکراپنے ارمان پورے کرناچاہتاہے ۔ ڈاکٹرصاحب نے دوسراسگریٹ جلایااورکہنے لگے، میں سوچتا ہوں کہ جب لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی میں اپنی دولت کے بل بوتے پراپنے ارمان پورے کررہے ہوتے ہیں ، تب وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس رات شادی سے لوٹنے والے بیٹیوں کے والدین رات کیسے سوتے ہونگے؟ جب کوئی بیٹی اپنی ماں سے کہتی ہوگی ’’ اماں میری شادی پربھی تم مجھے ایساہی جوڑالیکردوگی نا جیسا آج دلہن نے پہناتھا ؟‘‘ اورماں ہاں کہہ کرمنہ دوسری طرف کرلیتی ہوگی پھراس کے آنسو وہ تکیہ پی لیتاہوگا جواکثر آنسو چھپانے میں اس عورت کی مددکرتاہے ۔ پچھلی سیٹ پربیٹھے نوجوان نے ڈاکٹرصاحب سے پوچھابھائی آپ نے اشفاق احمدکے ڈرامے کااس لیے پوچھاتھاکہ اس میں بھی ایسی ہی شادی کی منظرکشی کی گئی ہے ؟ڈاکٹر صاحب کہنے لگے میں اس وقت غالباً میڈیکل کے پہلے سال میں تھاجب میں نے یہ ڈرامہ دیکھااس ڈرامے میں فہمیدہ ایک خوبصورت بی اے کی طالبہ ہے اوراس کی ماں استانی راحت اس کی شادی کی فکرمیں پریشان رہتی ہے ۔ایک روزان کومالک مکان گھرخالی کرنے کوکہتاہے، استانی راحت کسی واقف کارکے توسط سے ایک بنگلے کاسرونٹ کوارٹرلیتی ہے ۔بنگلے والے بڑے اچھے امیرلوگ ہوتے ہیں ۔جن دنوں استانی راحت اپنی بیٹی فہمیدہ کی شادی کے لیے جہیزجمع کررہی ہوتی ہے ۔انہی دنوں بنگلے والے صاحب کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے وہ لڑکی اکثر اپنے ساتھ شاپنگ کے لیے فہمیدہ کوبھی لے جاتی ہے ۔فہمیدہ دیکھتی ہے کہ لڑکی کپڑوں کی دُکان پرجاتی ہے تواسے جتنے کپڑے پسندآتے ہیں ،وہ خریدلیتی ہے پھروہ جیولری کی شاپ پرجاتی ہے تو وہاں سے کئی سونے کے سیٹ خریدتی ہے ۔یہ تمام منظرفہمیدہ دیکھتی رہتی ہے ۔اسی دوران بنگلے والے صاحب کی بوڑھی ماں ایک روزاپنے بیٹے کوبلاتی ہے اوراسے سمجھاتی ہے کہ بیٹایہ جو سب تو، اپنی بیٹی کی شادی کے نام پرکررہاہے، یہ اسراف ہے حرام ہے۔ مت کروایساخداناراض ہوگا۔اس سے لوگوں کے دل دکھتے ہیں ۔وہ اپنی ماں کوسمجھاتاہے کہ ماں میری مجبوری ہے اگرمیں نے ایسانہ کیاتوسوسائٹی کے لوگ مجھے کہیں گے کہ اس نے بیٹی کی شادی پرکنجوسی کی ہے اورپھرمیں اللہ کی راہ میں بھی توخرچ کرتاہوں ۔غریبوں کی مددکرتاہوں وغیرہ وغیرہ ۔
اگلے منظرمیں دکھاتے ہیں کہ اسی دوران استانی راحت کی کمیٹی نکلتی ہے اوروہ اپنی بیٹی فہمیدہ کے لیے دوسونے کے جھمکے خریدتی ہے۔ وہ ان جھمکوں کو فخرسے فہمیدہ کودکھاتی ہے ۔اوران کوایک بڑے صندوق میں رکھ دیتی ہے ۔اسی رات کواستانی راحت دوتین مرتبہ اٹھ کرفہمیدہ سے صندوق کے متعلق پوچھتی ہے کہ تونے صندوق احتیاط سے بندکیاہے نا؟آج کل چوربہت ہوگئے ہیں ۔استانی راحت کی باربار تاکید پرفہمیدہ غصے اوردکھ سے کہتی ہے ’’ اماں تیرے یہ چار کپڑوں کے جوڑے ،برتن اوران دوجھمکوں کواگراٹھاکرسڑک پربھی رکھ دوں ناتومیونسپلٹی والے بھی اسے نہیں اٹھائیں گے‘‘ پھرفہمیدہ غمگین ہوکرکہتی اماں توپاگل ہے ۔اس واقعے کے چند روز بعد بنگلے والے صاحب کی بیٹی کی شادی بڑے دھوم دھام سے ہوتی ہے ۔اس شادی کی تقریب میں فہمیدہ شرکت کرتی ہے ۔اوراپنی آنکھوں سے دولت کی نمائش کے مختلف مناظر دیکھتی ہے ۔
اگلے منظرمیں پھر استانی راحت ایک وکیل کے پاس بیٹھی ہے اور قتل کامقدمہ درج کروانے کی ضدکرتی ہے ۔وکیل پوچھتاہے کہ کس نے قتل کیاہے ؟قاتل کون ہے ؟استانی راحت کہتی ہے میری بیٹی کوکئی سولوگوں نے مل کرماراہے۔ اس بارات میں شامل سبھی لوگ جورنگ برنگے کپڑے پہن کرآئے تھے اوروہ تمام امیرجواپنی امارت کی دھاک بٹھانے آئے تھے وہ سب میری معصوم بیٹی کے قاتل ہیں ،انہوں نے دنیاکی چمک دکھاکرمیری بیٹی کوقتل کیاہے۔ اس کے دماغ کی نس ان امیروں کی وجہ سے پھٹی ہے ۔ پرویز بھائی بتانے لگے کہ جس روزمیں نے یہ ڈرامہ دیکھااس رات میں دیرتک اپنے گھرکی گرل سے لگ کربیٹھارہا ۔میری والدہ رات کے کسی پہراٹھیں اورانہوں نے مجھے جاگتے دیکھاتو میرے پاس آگئیں اوربولیں ’’ پترکی ہویا اے ؟توپریشان ایں ؟ ‘‘ میں نے کہانہیں اماں بس ایسے ہی نیندنہیں آرہی تھی ۔
ڈاکٹرصاحب کہنے لگے میں نے اس روزعہد کیاکہ اپنی شادی سادگی سے کروں گا۔نوجوان نے پوچھاپھرآپ کی شادی کیسے ہوئی؟ ڈاکٹرصاحب کہنے لگے کہ شادی سے ایک روزپہلے قاضی حسین احمدصاحب کی طرف سے بطورتحفہ شادی کاسوٹ شلوارقمیض مل گئے تھے۔ وہ بیرون ملک تھے اس لیے خودنہیں آئے تھے ۔عصرکے وقت محلے کی مسجدمیں نکاح پڑھایاگیااورمغرب کی اذان ہوگئی۔ اس وقت تک میں مسجدمیں مہمانوں سے مل رہاتھامہمانوں کی تواضع کھجوروں سے کی گئی تھی ۔عشاء کے بعدگھرکی خواتین جاکردلہن لے آئیں ۔اگلے روزاپنے گھرکی چھت پرچند دوستوں کوبلاکرولیمہ کرلیا۔گاڑی اب تک واپس شاہراہ فیصل پرآچکی تھی ۔اوریہاں ان تینوں دوستوں میں سے ایک اترجایاکرتاتھا۔اس قدرحساس اورنرم طبیعت کے مالک ڈاکٹر پرویزمحمودکو17ستمبرکوکے ڈی اے چورنگی پر قتل کردیا گیاتھا۔یہ قتل شہر کراچی کے دعوے دار کی سالگرہ پرایک تحفہ تھا،مگرعجیب معاملہ ہواس قتل کے بعداللہ پاک نے ظالموں کی الٹی گنتی شروع کروادی ۔اس کے بعدحالات جیسے بدلے وہ سب کے سامنے ہیں ۔کراچی کے امن کے لیے جن لوگوں نے اپنی جان کی بازی لگادی ان میں شہیدڈاکٹرپرویزمحمودایک مینارہ نورہیں ۔کراچی سے اوریہاں کے لوگوں سے محبت ڈاکٹرصاحب کو یہاں سے کہیں جانے نہیں دیتی تھی۔ شہرکے امن کے لیے ڈاکٹرصاحب نے اس زمانے میں کرداراداکیاجب ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے تھے ۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب لوگوں کے فیصلے تھانے اورعدالتوں میں نہیں بلکہ سیکٹراوریونٹ آفس میں ہوتے تھے ۔ اس زمانے میں کراچی کے’’ وارثوں ‘‘ سے سوال کرنے والے دن کی روشنی میں عباسی ہسپتال جانے سے گریزکرتے تھے تب ڈاکٹرصاحب کی مستقل رہائش زندگی کی آخری شام تک دوستوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود عباسی ہسپتال کی پچھلی گلی میں تھی ۔کراچی میں سرکاری سرپرستی میں جاری بدمعاشی ختم کرنے میں جس دلیری سے ڈاکٹرصاحب لڑے اس کو ان کے دوست مانتے تھے۔ وہیں ڈاکٹرصاحب کی بہادری اوردلیری کے قائل ان کے سخت مخالفین بھی تھے ۔جس محسن کراچی ڈاکٹرپرویزمحمودسے کراچی والے ملے ہیں یقین کریں وہ شخص اندرسے انتہائی حساس ،نرم دل ،ہمدرداوردلیرتھااوریہ بات صرف ان کے قریبی دوست جانتے ہیں مگران کے قریبی دوستوں میں اکثر اب ہم میں نہیں رہے ۔
ڈاکٹرصاحب آج سخی حسن قبرستان میں میٹھی نیند سورہے ہیں مگروہ کراچی میں دہشت گردوں سے نفرت کرنے والوں کے دلوں میں محبت کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ اللہ پاک ڈاکٹر صاحب کی قبرکواپنے نورسے بھردے اورکراچی کوڈاکٹرصاحب اوردیگرشہداء کی قربانیوں کے صدقے امن کاگہوارہ بنادے ۔امین