وجود

... loading ...

وجود

برماقتل عام۔۔۔۔۔۔۔عالم اسلام کی روایتی بے حسی

جمعرات 14 ستمبر 2017 برماقتل عام۔۔۔۔۔۔۔عالم اسلام کی روایتی بے حسی

(گزشتہ سے پیوستہ)
2012ء سے ہو رہے حملوں میں کبھی کمی آتی ہے اور کبھی ان میں شدت آجاتی ہے ۔مگر ہر بار برمی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک کی طرف سے کوئی مؤثر آواز ان کے حق میں سنائی نہیںدیتی ہے ۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق برما میں مسلمانوں کو اذیت ناک تشدد، ظلم، قتل عام اور جبری ہجرت جیسے ظالمانہ ہتھکنڈوں کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کے گھر بار محفوظ ہیں اور نہ ہی مساجد اور ان کی عزت وآبرو ۔ بوذی قبائل کے دہشت گرد سر عام مسلمانوں کو قتل کرتے اور ان کی خواتین سے اجتماعی زیادتیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔خیال رہے کہ برما اور بنگلہ دیش کے سرحد کے قریب واقع شہر اراکان میں برما کے بوذی قبائل کی جانب سے وہاں کی مسلمان آبادی کو گزشتہ کئی برسوں سے سنگین نوعیت کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ بوذی قبائل کے دہشت گرد مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں جبکہ وہاں کی حکومت بھی مظلوم مسلمانوں کاساتھ دینے کے بجائے انہیں اپنا شہری تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔پھر المیہ یہ کہ برما کے سابق صدر”تھین سین” نے کئی سال پہلے کہاتھاکہ مسلمان ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں۔ اس لیے ان کے بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عام شہروں سے نکل کر مہاجر بستیوں میں چلے جائیں یا ملک چھوڑ دیں۔
برمی صدر نے اقوام متحدہ کے مندوب برائے پناہ گزین”انٹونیو گیٹریز” سے ملاقات کے دوران کہا کہ روہنگیا شہر میں موجود مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ان کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ اگر انہیں حملوں کا سامنا ہے تو وہ ملک چھوڑ دیں۔ ہم انہیں اپنا شہری نہیں مانتے ہیں۔برمی صدر کا کہنا تھا کہ بوذی قبائل کے حملوں کا شکار مسلمانوں کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے قائم کردہ مہاجر کیمپوں میں رہیں۔ اگر وہ مہاجر بستیوں میں بھی نہیں رہ سکتے تو ہم انہیں شہروں میں نہیں رہنے دیں گے اور انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔خیال رہے کہ برما کے شہر روہنگیا میں مسلمان پہلی بڑی اقلیت ہیں جن کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام اداروں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ برما کے مسلمانوں کو وہاں کے مقامی دہشت گردوں کی جانب سے سنگین مظالم کا سامنا ہے۔
اس المناک تفصیل کا علاج مرثیہ اور سینہ کوبی کے برعکس عالم اسلام کی جانب سے عسکری اقدام ہے مگر کیا عالم اسلام ایسا کبھی کرے گا ؟جس عالم اسلام نے بغداد کی تباہی دیکھی ہے ۔چنگیزی کارندوں کا قتل عام دیکھا ہے۔اندلس ہاتھوں سے نکلتے دیکھا ہے ۔سقوط فلسطین سے مشرقی پاکستان اور کشمیر تک بے شمار بربادیوں کا مشاہدہ کیا ہے ۔افغانستان میں سرخ کے بعدسفیدسامراج کا وحشیانہ چہرہ بہت قریب سے دیکھا ہے مگر برمی مسلمانوںپر ڈھائے جانے والے مظالم اپنی نوعیت کے پہلے وہ مظالم ہیں جن کی ایک ایک لمحہ کی ویڈیو زبدھ مت کے دہشت گردوں نے فلمانے کے بعد پوری دنیا تک خود ہی پہنچا دی ہیں ۔ ساری دنیا کے مسلمان مظلومیت کی اپنی مثال آپ ہیں مگر برما کے مسلمانوں کے حالات ایسے کربناک ہیں کہ شاید ہی کسی اور جگہ ایسی وحشت و بربریت کی مثال موجود ہو ۔ایک طرف ملک کی اکثریت انتہائی مفلوک الحال اور غریب مسلمانوںکو نیست و نابودکرنے پر مجتمع ہے تو دوسری جانب برما کی بودھ حکومت ایک دہشت گرد تنظیم کی طرح اس میں برابرکی شریک ہے ۔ایسے میں مسلمانوں کی فریاد سننے والا ایک اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے ۔رہی اُمت مسلمہ ؟وہ بلاشبہ کبھی تھی !مگر آج کی تاریخ میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔برمی مسلمانوں کی نگاہیں یقیناََ عالم اسلام کی طرف اُٹھ رہی ہوں گی مگروہ 52ممالک پر مشتمل وجود میں آیا ایک ’’لاشہ‘‘موجود تو ہے مگر یہ بے حمیت ہے اور انتہائی بے غیرت ہے ۔اس کو بڑی سے بڑی تباہی اور بڑی سے بڑی بے رحمی بھی بیدار کرنے میں ناکام رہتی ہے اور یہ سوالیہ خود اس کے وجود پر کئی سو سال سے چمٹا ہوا ہے اس لیے کہ اس کے پاس اس عملی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے ۔
امت مسلمہ پر سوار بے غیرت اور بے حمیت حکمرانوں نے سارے عالم میں مسلمانوں کی عزت و احترام اور جان و مال کا تماشہ بنا ڈالا ہے ۔برما کے مسلمانوں کے بچوں اور بوڑھوں پر تشدد اور محکومیت دیکھ کر ان بے غیرت اور بد بخت حکمرانوں کے لیے ’’لعنت‘‘کا لفظ بہت چھوٹا اور ہلکا معلوم ہوتا ہے ۔اس ٹولے نے مسلمان ممالک پر قبضہ کر رکھا ہے اوریہ چور اور ڈاکودودو ہاتھوں ان کے وسائل کو لوٹ کر اپنے اہل و عیال کی عیاشی کا سامان پیدا کرتے ہیں ۔جس ملک کی طرف نظر دوڑاؤاس پر ایک مخصوص خاندان یا ٹولے نے دہائیوں سے مکر و فریب کا مظاہرا کرتے ہو ئے قبضہ کر رکھا ہے ۔جب تک امت مسلمہ کھڑی ہو کر اس قبضہ گروپ سے اپنے ممالک کو چھڑا نہیں لیتی تب تک نہ صرف یہ کہ فلسطین پر عیسائیوں کے بعد یہودیوں کا قبضہ ہوتا رہے گا بلکہ افغانستان ،شام ،عراق اور یمن میں بھی مسلمان انہی کے ہاتھوں مرتا رہے گا ۔یہ امانتدار مسلمانوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے مختلف جھوٹ پھیلا کر اور پروپیگنڈا کر کے ان کا خون بہاتے رہیں گے ۔ان کے لیے کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ نہ پہلے مسئلہ تھا نا ہی مستقبل میں ہوگا ۔ان کے لیے قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں رہنا کوئی مسئلہ ہوتا تو یہ ظالم گذشتہ ستر برس میں اسی کے لیے کچھ کرتے ۔
عالم اسلام پر قابض اس ٹولے کے سامنے گذشتہ ستر برس سے فلسطین کے بچوں کو بالکل روہنگیائی بچوں کی طرح ہی تشدد اور قتل و غارت گری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔یہ فلسطینی بچے ان حکمرانوں کے لیے کئی حوالوں سے دوسرے خطوں کے مقابلے میں قریب تر ہیں ۔مذہبی حوالے سے سرزمین فلسطین حرمین شریفین کے بعد سب سے مقدس اور محترم سرزمین ہے ۔یہ انبیائِ کرام کا مسکن رہا ہے اور ہزاروں انبیاء اس میں دفن ہو ں گے اور لاکھوں شہداء کا مقدس لہو اس سر زمین میں اس کے تحفظ کے لیے اب تک جذب ہو چکا ہے ۔یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے بلکہ صیہونی خود ان تمام تر مظالم کی ویڈیوز اور تصاویر بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے دنیا تک پہنچا دیتے ہیں لہذا میری بات روہنگیا سے متعلق قابل تحقیق نہیں ہے جہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے ۔رہے برمی مسلمان یہ اس قدر خستہ حال لوگ ہیں کہ ان کے پاس کھانے کی اشیاء نہیں ہیں چہ جائیکہ اپنے مظالم کو دنیا تک پہنچانے کے وسائل اور اسباب ۔میں عرض کر رہا تھا کہ اگر بے حس عالم اسلام کے مردہ حکمران فلسطین کے لیے کوئی مؤثر سیاسی اقدام نہیں کرتے ہیں تو یہ کیوں اور کیسے ایک غریب مفلوک الحال عجمی ملت کے لیے کچھ کرنے کی جستجو کریں گے اور یقیناََ یہ بے حس طبقہ اور عالم اسلام پر قابض گروپ تماشائیوں کے سوا اگر کبھی کچھ کرے گا بھی تو ایک عدد بیان یا
پارلیمنٹ سے ایک بے وزن ’’سفارتی‘‘قرارداد ۔جو برما جیسے ظالم حکمران طبقے کے مظالم کو روک نہیں سکتا ہے اور تو اور ان مظالم کو کوئی انفرادی جہاد روکنے کے بجائے بھڑکا سکتا ہے۔
لہذا ہر صورت میں اس کا علاج ایک باہمت درددل رکھنے والی حکومت کر سکتی ہے ،جو فی الوقت عالم اسلام میں کہیں نہیں ہے لہذا امت مسلمہ اگر ان وحشیانہ کاروائیوں پر روک کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو انھیں اٹھ کر اپنے ممالک کے بے شرم،بے غیرت ،بد دیانت اور دین بیزار حکمرانوں کواولین فرصت میںہٹا کر ان کی جگہ با غیرت اور دیانت دار افراد کو لانا چاہیے وہی اپنے ممالک کو بھی درست راستے پر ڈال سکتے ہیں اور برما جیسے دہشت گرد ملک کی بھی نکیل کس سکتے ہیں ۔نہیں تو یہ رونے دھونے کا سلسلہ اسی طرح دراز تر ہوتا چلا جا ئے گا جیسے اس نحوست نے کئی صدیوں سے اسے اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر