... loading ...
1947 میں تقسیم برصغیر کے بعد بہت سے گاؤں اور شہر تھے جن کے رہنے والوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ پاکستان کے بجائے بھارت کے شہری بن جائیں گے۔ اسی طرح بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنھیں یقین تھا کہ ان کا گاؤں یا شہر بھارت کا حصہ رہے گا لیکن آزادی کو سورج طلوع ہوتے ہی ان کو یہ معلوم ہوا کہ وہ بھارتی نہیں بلکہ پاکستانی شہری بن چکے ہیں ،لیکن کارگل میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جو پہلے پاکستان کا حصہ تھا لیکن اب وہ بھارت کا شہر ہے اور اس شہر سے اپنے دوسرے گھروں کوجانے والے ان کے عزیز رشتہ دار پاکستانی ہیں اس طرح یہ خاندان تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں اور اب وہ ایک دوسرے کو یاد ہی کر سکتے ہیں لیکن ان سے ملاقات کی خواہش پوری ہونا بہت ہی مشکل ہے اور یہ خواہش برسوں پوری نہیں ہوپاتی ۔
پاکستانی گاؤں کے بھارتی بن جانے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ 1971 میں گرمیوں کاموسم تھا اس موسم میں ہر برس کی طرح دو بھائی پوئین سے ہندرمن بروق گئے۔ مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں کے اوپر جہاں ان کا ایک اور گھر تھا۔ لیکن پھر وہ برسوں تک کارگل کے اپنے گاؤں میں واپس نہیں آسکے۔ہندرمن پاکستان کا حصہ اور پائن بھارت کا حصہ بن گیا۔ان کا چھوٹا ہوا گھر، جائیداد اور ہر چیز اس ملک میں رہ گئی جو رات بھر میں ‘دوسرا ملک’ بن گیا تھا۔لائن آف کنٹرول پر بسا 20 گھروں پر مشتمل وہ لداخ کا گاؤں پھر سے بھارت کے ساتھ ہے!لیکن بھارت میں شمولیت کے لیے اس گاؤں کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔محمد کاظم کا کہنا ہے کہ ہندر من ‘پہلے پاکستان میں تھا۔ 47 سے پہلے۔ نہیں یہ بھارت میں سب سے پہلے تھا، پھر پاکستان میں تھا۔ اس کے بعد وہ اب پھر بھارت میں آیا۔کاظم گاؤں جانے والے راستے پر درخت کے نیچے بیٹھ کر ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہیں : ‘یہاں ، پاکستان تھا اور یہاں بھارت بیٹھ گیا تھا۔وہ اپنی عمر کچھ 80 سے 85 کے درمیان بتاتے ہیں ۔ ان کی چھوٹی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔جہاں ہم موجود تھے وہاں پہاڑی پر وہ سڑک بھی نظر آتی ہے جس سے لوگ پاکستان جایا کرتے تھے۔
1971 میں بھارتی فوج نے گلگت بلتستان کے بعض حصوں پر قبضہ کرلیا تھا۔1971 کی جنگ محض 7 دن تک جاری رہی۔ پھر بھارت نے اس گاؤں پر قبضہ کر لیا اور پاکستانی اسے چھوڑ کر چلے گئے۔علی محمد کہتے ہیں : ‘آٹھویں دن بھارتی فوج نے پورے گاؤں کو گھیر لیا۔ خواتین، مردوں اور گاؤں کے بچوں کو کھیتوں میں کھڑا کیا گیا تھا، جس کے بعد ایک ایک گھر کی تلاشی لی گئی تھی، یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں کوئی دشمن تو نہیں چھپا تھا، یا پھر ہتھیار وغیرہ۔ لیکن فوج کو کچھ نہیں مل سکا۔علی محمد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور بس چند گھنٹوں میں ہی وہ بھارتی بن گئے تھے!دو سال بعد،بھارتی فوج نے وہاں اسکول قائم کیا جس میں علی محمد نے داخلہ لے لیا۔دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بعد علی محمد پاکستانی کے بجائے اب بھارتی ہوچکے تھے۔ لیکن حسین خان بالیرام میں پھنس گئے تھے جو پاکستان میں رہ گیا تھا۔
1985 میں ان کا ایک خط اپنی بہن تک پہنچ گیا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ان کے آخری خط کا جواب نہیں مل سکا اور اگر ان سے غلطی ہوئی ہو تو وہ معافی کے طلب گار ہیں ۔دو پہاڑیوں کے درمیان آباد انڈرمن گاؤں نے گذشتہ 70 سال میں 4 جنگیں اور اکثر و بیشتر زبردست گولہ باری دیکھی ہے۔الیاس کی عمر 32 سال کی ہے اور کارگل کی جنگ کو انھوں نے اچھی طرح سے دیکھا تھا۔1965 میں ، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ اس علاقے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی تھی، انڈرمن 4 ماہ کے لیے کسی بھی ملک کا حصہ نہیں تھا۔کارگل جنگ کے وقت گاؤں میں کوئی ہائی اسکول نہیں تھا۔ بچوں کو اعلی تعلیم کے لیے کارگل جانا پڑتاتھا، اور فائرنگ کی وجہ سے، لڑکوں اور لڑکیوں کو کبھی کبھی پورا دن کہیں بھی چھپے رہنا پڑتا تھا۔
کارگل کی جنگ کے دوران تمام مشکلات کے باوجود گاؤں کے مرد و خواتین نے فوج کی مدد کی۔علی محمد بتاتے ہیں : ‘صبح ہم مال لے کر جاتے تھے، رات کو گولہ بارود بھی ڈھونا پڑتا تھا۔فوجیوں کو سامان فراہم کرنا یہاں کے لوگوں کا جدی پشتی کام ہے۔ چاہے وہ 85 برس کے کاظم ہوں ، یا اب ان کے بیٹے یا پھر 27 سال کے محمد الیاس۔10 سال کی عمر سے پورٹر کے کام میں لگے محمد الیاس کہتے ہیں کہ یہ کام بڑا خطرناک ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ‘ایک گدھے پر قریب 30-35 کلو کا وزن لاد کر 7سے8 کلومیٹر اونچے پہاڑوں پر چڑھ کر فوج کی چوکیوں تک پہنچنا ہوتا ہے۔ لیکن تنگ پتھریلے راستوں پر اگر کوئی گدھا بدک جاتا ہے تو باقی گدھوں کی اور آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔’محمد کو فوج کے لیے ایک گدھے پر اشیا ڈھونے کے 300 روپے ملتے ہیں ، لیکن وہ ہنستے ہوئے شکایتی لہجے میں کہتے ہیں کہ پیسہ صرف گدھے کا ملتا ہے آدمی کی مزدوری نہیں ملتی ہے!وہ کہتے ہیں : ہماری پشتیں فوج کی مدد کرتی رہی ہیں ۔ کارگل کی جنگ میں اس گاؤں نے بہت مدد کی تھی لیکن ہمارے بچوں کو ملازمت نہیں دی جاتی ہے، فوج میں بھی کبھی نہیں ۔