وجود

... loading ...

وجود

۔کارگل کاوہ پاکستانی گاؤں جو اب بھارت کا حصہ ہے!

اتوار 10 ستمبر 2017 ۔کارگل کاوہ پاکستانی گاؤں جو اب بھارت کا حصہ ہے!

1947 میں تقسیم برصغیر کے بعد بہت سے گاؤں اور شہر تھے جن کے رہنے والوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ پاکستان کے بجائے بھارت کے شہری بن جائیں گے۔ اسی طرح بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنھیں یقین تھا کہ ان کا گاؤں یا شہر بھارت کا حصہ رہے گا لیکن آزادی کو سورج طلوع ہوتے ہی ان کو یہ معلوم ہوا کہ وہ بھارتی نہیں بلکہ پاکستانی شہری بن چکے ہیں ،لیکن کارگل میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جو پہلے پاکستان کا حصہ تھا لیکن اب وہ بھارت کا شہر ہے اور اس شہر سے اپنے دوسرے گھروں کوجانے والے ان کے عزیز رشتہ دار پاکستانی ہیں اس طرح یہ خاندان تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں اور اب وہ ایک دوسرے کو یاد ہی کر سکتے ہیں لیکن ان سے ملاقات کی خواہش پوری ہونا بہت ہی مشکل ہے اور یہ خواہش برسوں پوری نہیں ہوپاتی ۔
پاکستانی گاؤں کے بھارتی بن جانے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ 1971 میں گرمیوں کاموسم تھا اس موسم میں ہر برس کی طرح دو بھائی پوئین سے ہندرمن بروق گئے۔ مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں کے اوپر جہاں ان کا ایک اور گھر تھا۔ لیکن پھر وہ برسوں تک کارگل کے اپنے گاؤں میں واپس نہیں آسکے۔ہندرمن پاکستان کا حصہ اور پائن بھارت کا حصہ بن گیا۔ان کا چھوٹا ہوا گھر، جائیداد اور ہر چیز اس ملک میں رہ گئی جو رات بھر میں ‘دوسرا ملک’ بن گیا تھا۔لائن آف کنٹرول پر بسا 20 گھروں پر مشتمل وہ لداخ کا گاؤں پھر سے بھارت کے ساتھ ہے!لیکن بھارت میں شمولیت کے لیے اس گاؤں کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔محمد کاظم کا کہنا ہے کہ ہندر من ‘پہلے پاکستان میں تھا۔ 47 سے پہلے۔ نہیں یہ بھارت میں سب سے پہلے تھا، پھر پاکستان میں تھا۔ اس کے بعد وہ اب پھر بھارت میں آیا۔کاظم گاؤں جانے والے راستے پر درخت کے نیچے بیٹھ کر ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہیں : ‘یہاں ، پاکستان تھا اور یہاں بھارت بیٹھ گیا تھا۔وہ اپنی عمر کچھ 80 سے 85 کے درمیان بتاتے ہیں ۔ ان کی چھوٹی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔جہاں ہم موجود تھے وہاں پہاڑی پر وہ سڑک بھی نظر آتی ہے جس سے لوگ پاکستان جایا کرتے تھے۔
1971 میں بھارتی فوج نے گلگت بلتستان کے بعض حصوں پر قبضہ کرلیا تھا۔1971 کی جنگ محض 7 دن تک جاری رہی۔ پھر بھارت نے اس گاؤں پر قبضہ کر لیا اور پاکستانی اسے چھوڑ کر چلے گئے۔علی محمد کہتے ہیں : ‘آٹھویں دن بھارتی فوج نے پورے گاؤں کو گھیر لیا۔ خواتین، مردوں اور گاؤں کے بچوں کو کھیتوں میں کھڑا کیا گیا تھا، جس کے بعد ایک ایک گھر کی تلاشی لی گئی تھی، یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں کوئی دشمن تو نہیں چھپا تھا، یا پھر ہتھیار وغیرہ۔ لیکن فوج کو کچھ نہیں مل سکا۔علی محمد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور بس چند گھنٹوں میں ہی وہ بھارتی بن گئے تھے!دو سال بعد،بھارتی فوج نے وہاں اسکول قائم کیا جس میں علی محمد نے داخلہ لے لیا۔دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بعد علی محمد پاکستانی کے بجائے اب بھارتی ہوچکے تھے۔ لیکن حسین خان بالیرام میں پھنس گئے تھے جو پاکستان میں رہ گیا تھا۔
1985 میں ان کا ایک خط اپنی بہن تک پہنچ گیا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ان کے آخری خط کا جواب نہیں مل سکا اور اگر ان سے غلطی ہوئی ہو تو وہ معافی کے طلب گار ہیں ۔دو پہاڑیوں کے درمیان آباد انڈرمن گاؤں نے گذشتہ 70 سال میں 4 جنگیں اور اکثر و بیشتر زبردست گولہ باری دیکھی ہے۔الیاس کی عمر 32 سال کی ہے اور کارگل کی جنگ کو انھوں نے اچھی طرح سے دیکھا تھا۔1965 میں ، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ اس علاقے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی تھی، انڈرمن 4 ماہ کے لیے کسی بھی ملک کا حصہ نہیں تھا۔کارگل جنگ کے وقت گاؤں میں کوئی ہائی اسکول نہیں تھا۔ بچوں کو اعلی تعلیم کے لیے کارگل جانا پڑتاتھا، اور فائرنگ کی وجہ سے، لڑکوں اور لڑکیوں کو کبھی کبھی پورا دن کہیں بھی چھپے رہنا پڑتا تھا۔
کارگل کی جنگ کے دوران تمام مشکلات کے باوجود گاؤں کے مرد و خواتین نے فوج کی مدد کی۔علی محمد بتاتے ہیں : ‘صبح ہم مال لے کر جاتے تھے، رات کو گولہ بارود بھی ڈھونا پڑتا تھا۔فوجیوں کو سامان فراہم کرنا یہاں کے لوگوں کا جدی پشتی کام ہے۔ چاہے وہ 85 برس کے کاظم ہوں ، یا اب ان کے بیٹے یا پھر 27 سال کے محمد الیاس۔10 سال کی عمر سے پورٹر کے کام میں لگے محمد الیاس کہتے ہیں کہ یہ کام بڑا خطرناک ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ‘ایک گدھے پر قریب 30-35 کلو کا وزن لاد کر 7سے8 کلومیٹر اونچے پہاڑوں پر چڑھ کر فوج کی چوکیوں تک پہنچنا ہوتا ہے۔ لیکن تنگ پتھریلے راستوں پر اگر کوئی گدھا بدک جاتا ہے تو باقی گدھوں کی اور آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔’محمد کو فوج کے لیے ایک گدھے پر اشیا ڈھونے کے 300 روپے ملتے ہیں ، لیکن وہ ہنستے ہوئے شکایتی لہجے میں کہتے ہیں کہ پیسہ صرف گدھے کا ملتا ہے آدمی کی مزدوری نہیں ملتی ہے!وہ کہتے ہیں : ہماری پشتیں فوج کی مدد کرتی رہی ہیں ۔ کارگل کی جنگ میں اس گاؤں نے بہت مدد کی تھی لیکن ہمارے بچوں کو ملازمت نہیں دی جاتی ہے، فوج میں بھی کبھی نہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر