... loading ...
مرحب تاریخ کا ایک قصہ ہے لیکن جس طرح سے آج کوئی مسلمان ابوجہل ،ابولہب سے نسبت جوڑنا پسند نہیں کرتا اور پسند نہ کرنے کے اس عمل میں مسلمانوں کے جذبات سے زیادہ احکامات ربانی کا دخل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں نبی کریم ﷺ کے دشمنوں کو بے نسل اور بے اصل قرار دیا ہے یہ سورۃ ان دنوں نازل ہوئی جب نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے کا وصال ہوا تو دنیاوی معاملات میں گھرے ہوئے اہل قریش نے کہنا شروع کیا کہ اب تو محمد ﷺ کا نام لینے والا بھی باقی نہیں بچا کہ دنیاوی ریت ہے کہ انسان کا نسب اولاد نرینہ سے چلتا ہے اور جس کی اولاد نرینہ نہ ہو اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا نام بھی مٹ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ کوثر نازل کی جو قرآن کریم کی مختصر ترین سورۃ ہے لیکن جامعیت میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ)بے شک ہم نے تمہیں (ﷺ) کوثر عطا کی۔ پس اپنے رب کے سامنے قربانی پیش کر۔بے شک آپ ﷺ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے ۔
آج مسلمانوں کی تعداد دنیا میں کم وبیش پونے دو ارب ہے اور ان میں سے 80 فیصد ناموں کے جز میں محمد یا احمدشامل ہے لیکن مسلمان تو رہے ایک طرف غیرمسلموں جن کی تعداد کم وبیش پونے چار ارب ہے کسی ایک نام میں بھی ابوجہل یا ابولہب شامل نہیں ۔یہاں تک کہ مکہ کے وہ غیرمسلم جو اپنا تعلق تو ان سے جوڑتے ہیں لیکن ان کے ناموں کو اپنانے کو تیار نہیں ہیں ۔
نواز شریف کو جب نااہل قرار دیا گیا تو اُن کے متعلقین نے تاریخ سے لاعلمی یا یہودیوں سے تعلق کا اظہار یوں کیا کہ نوازشریف کو مرحب ثانی قرار دیدیا ۔یہ درست ہے کہ مرحب اپنے دور کا نامور پہلوان اورشہسوار تھا جس کا ثانی تلاش کرنا مشکل تھا ۔غزوہ خیبر کے موقع پر مرحب بڑے طمطراق سے قلعہ سے نکلا اور مبارزت کی۔ مرحب سے مقابلہ کوئی آسان کام نہ تھا لیکن مسلمانوں کے لشکر میں بھی ایک سے ایک جری موجود تھا ۔داماد رسول ﷺ شیر خدا علی المرتضیؓ نے اس مبارزت کو قبول کیا اور مقابلے کے لیے میدان میں گئے۔ پہلا وار مرحب نے کیا جو خالی گیا۔ اب حضرت علی ؓ نے وار کیا تو پہلے ہی وار میں مرحب واصل جہنم ہوا ۔آپ ؓ کی تلوار مرحب کے سر پر موجود خد کو چیرتی ہوئی دانتوں تک جا پہنچی اور یوں مرحب کی ساری بہادری ایک ہی وار کی نذر ہو گئی ۔
میاں محمد نواز شریف جب 1990میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے۔ اس وقت سے ہی ان کے دماغ میں امیرالمومنین بننے کاسودا سمایا ہوا تھا جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح اپنے دوسرے دورحکومت میں جب تین چوتھائی اکثریت حاصل ہوئی تو یہ جنون مزید بڑھ گیا لیکن وقت نے سبق سکھانا چاہا نوازشریف اس درس میں بھی ناکام رہے ۔ورنہ “غریب الوطنی ” انسان کے سارے کس بل نکال دیتی ہے لیکن جب یہ غریب الوطنی اس طرح ہو کہ لاتعداد بکس ہمراہ ہوں تو کیسی غریب الوطنی اس غریب الوطنی میں بھی شہنشاہی اندازتو برقرار رہا بلکہ سعودی شیخوں کے ساتھ رہ کر اس میں مزید اضافہ ہو گیا جب یہ طے شدہ جلاوطنی ختم ہوئی اور میاں صاحب دوبارہ پاکستان پہنچے تو اس وقت سے ان کے انداز میں مزید رعونت آگئی ہے۔ 2008 کے انتخابات سے قبل جون2007میں ایک میثاق جمہوریت ہوا تھا جس میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے سوا تمام جماعتیں فریق تھیں ۔ اس میثاق میں طے ہوا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کی زیرنگرانی ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جائے گا اور اتحاد میں شامل کوئی بھی جماعت ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرے گی لیکن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نوازنے اس میثاق کو صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جو شق انہیں ناپسندیدہ تھیں انہیں طاق نسیاں پر رکھا۔ مشرف کے ہوتے ہوئے انتخابات میں بھی حصہ لیا اور پیپلزپارٹی نے وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت میں ضرورت نہ ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کو شریک اقتدار کیا۔یوں جب ضرورت ہوئی اس میثاق کو نکال لیا اور جب ضرورت پوری ہو گئی تو دوبار ہ بند کر کے رکھ دیا ۔
2008 میں پیپلزپارٹی نے بے نظیر کے قتل کو کیش کرایا اور پنجاب میں چھوٹے بھائی کی حکومت قائم ہو گئی۔ شہباز شریف کو پہلے مرحلے پر انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا تھا لیکن عدالت عالیہ سے حکم امتناعی لے کر الیکشن میں شریک ہوئے اور تاحال یہ فیصلہ نہیں ہو سکا ہے کہ 2008 میں مشرف سے کیا گیا معاہدہ کس حالت میں موجود تھا یا نہیں ۔جنرل پرویز مشرف کا دعویٰ ہے کہ نوازشریف نے اپنے اہلخانہ سمیت 2001 کے اواخر میں 10 سال تک سیاست میں حصہ نہ لینے اور سعودی عرب میں جلاوطنی کے عوض جاں بخشی چاہی تھی۔ ابتدائی مراحل میں تو نواز شریف اس معاہدے سے انکاری رہے لیکن بعد میں کبھی 5 تو کبھی 7 سال کی مدت کا اعتراف بھی کرتے رہے ۔یوں پرویز مشرف کی موجودگی میں وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے اور عملاً ہوا بھی ایسا ہی، شہباز شریف نے بھی اس وقت الیکشن میں حصہ لیا جب آصف علی زرداری صدر مملکت کے منصب پر فائز ہو چکے تھے ۔
2013 کے انتخابات میں نوازشریف کی مسلم لیگ واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ یوں مرکز میں بڑے اور پنجاب میں چھوٹے میاں صاحب کی حکومتیں قائم ہو گئیں ۔چھوٹے میاں صاحب کی حکومت کا یہ دوسرا ٹرم ہے لیکن اس ٹرم میں چھوٹے میاں صاحب نے وہ گل کھلائے ہیں کہ بڑے میاں صاحب بھی دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہیں ۔ ابھی تو صرف ملتان کے میٹرو کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ابھی تو پنڈی کی میٹرو اور لاہور کی اورینج لائن کے معاملات بھی کھلنے ہیں ۔ ملتان کی میٹرو تو ان منصوبوں میں ایک چھوٹا منصوبہ ہے۔ ورنہ تو ہر منصوبے میں ہی کرپشن کی غضب کہانیاں موجود ہیں اور یہ کہانیاں کیوں موجود نہ ہوں جب مشرف کے رفیق خاص حنیف عباسی “ایفی ڈرین عباسی “پنڈی میٹرو کے نگراں ہوں جو شخص پیسے کی حرص میں منشیات فروشی میں ملوث ہو سکتا ہے (ایفی ڈرین ایک نشہ آور جز ہے جو ادویات میں استعمال ہوتا ہے لیکن حنیف عباسی کی ادویہ ساز فیکٹری نے جس مقدار میں ایفی ڈرین خریدی اس تناسب سے ادویات تیار نہیں کی گئیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایفی ڈرین منشیات کی تیاری میں بھی استعمال کی گئی)۔
نوازشریف کو یہودیوں کے ہیرو مرحب سے کسی اور نے نہیں ان کے اپنے بھانجے نے تشبیہ دی ہے ۔بھانجا یقینا جانتا ہے کہ اس کا ماما کن لوگوں سے تعلق رکھتا ہے پھر جے آئی ٹی نے بھی تحقیق کی تھی۔ اس میں ثابت ہوا تھا کہ نوازشریف اور ان کے صاحبزادوں کے کاروبار میں یہودی شراکت دار اور ان کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں ۔۔۔ عابد شیر علی نے نوازشریف کو مرحب ثانی قرار دیدیا۔ شاید عابد شیر علی کا علم بہت محدود ہے اور وہ نہیں جانتا کہ مرحب صرف بہادر پہلوان ہی نہیں یہودی بھی تھا جو داماد رسولﷺ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا تھا۔
٭٭…٭٭