وجود

... loading ...

وجود

مرحب ثانی

اتوار 10 ستمبر 2017 مرحب ثانی

مرحب تاریخ کا ایک قصہ ہے لیکن جس طرح سے آج کوئی مسلمان ابوجہل ،ابولہب سے نسبت جوڑنا پسند نہیں کرتا اور پسند نہ کرنے کے اس عمل میں مسلمانوں کے جذبات سے زیادہ احکامات ربانی کا دخل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں نبی کریم ﷺ کے دشمنوں کو بے نسل اور بے اصل قرار دیا ہے یہ سورۃ ان دنوں نازل ہوئی جب نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے کا وصال ہوا تو دنیاوی معاملات میں گھرے ہوئے اہل قریش نے کہنا شروع کیا کہ اب تو محمد ﷺ کا نام لینے والا بھی باقی نہیں بچا کہ دنیاوی ریت ہے کہ انسان کا نسب اولاد نرینہ سے چلتا ہے اور جس کی اولاد نرینہ نہ ہو اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا نام بھی مٹ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ کوثر نازل کی جو قرآن کریم کی مختصر ترین سورۃ ہے لیکن جامعیت میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ)بے شک ہم نے تمہیں (ﷺ) کوثر عطا کی۔ پس اپنے رب کے سامنے قربانی پیش کر۔بے شک آپ ﷺ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے ۔
آج مسلمانوں کی تعداد دنیا میں کم وبیش پونے دو ارب ہے اور ان میں سے 80 فیصد ناموں کے جز میں محمد یا احمدشامل ہے لیکن مسلمان تو رہے ایک طرف غیرمسلموں جن کی تعداد کم وبیش پونے چار ارب ہے کسی ایک نام میں بھی ابوجہل یا ابولہب شامل نہیں ۔یہاں تک کہ مکہ کے وہ غیرمسلم جو اپنا تعلق تو ان سے جوڑتے ہیں لیکن ان کے ناموں کو اپنانے کو تیار نہیں ہیں ۔
نواز شریف کو جب نااہل قرار دیا گیا تو اُن کے متعلقین نے تاریخ سے لاعلمی یا یہودیوں سے تعلق کا اظہار یوں کیا کہ نوازشریف کو مرحب ثانی قرار دیدیا ۔یہ درست ہے کہ مرحب اپنے دور کا نامور پہلوان اورشہسوار تھا جس کا ثانی تلاش کرنا مشکل تھا ۔غزوہ خیبر کے موقع پر مرحب بڑے طمطراق سے قلعہ سے نکلا اور مبارزت کی۔ مرحب سے مقابلہ کوئی آسان کام نہ تھا لیکن مسلمانوں کے لشکر میں بھی ایک سے ایک جری موجود تھا ۔داماد رسول ﷺ شیر خدا علی المرتضیؓ نے اس مبارزت کو قبول کیا اور مقابلے کے لیے میدان میں گئے۔ پہلا وار مرحب نے کیا جو خالی گیا۔ اب حضرت علی ؓ نے وار کیا تو پہلے ہی وار میں مرحب واصل جہنم ہوا ۔آپ ؓ کی تلوار مرحب کے سر پر موجود خد کو چیرتی ہوئی دانتوں تک جا پہنچی اور یوں مرحب کی ساری بہادری ایک ہی وار کی نذر ہو گئی ۔
میاں محمد نواز شریف جب 1990میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے۔ اس وقت سے ہی ان کے دماغ میں امیرالمومنین بننے کاسودا سمایا ہوا تھا جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح اپنے دوسرے دورحکومت میں جب تین چوتھائی اکثریت حاصل ہوئی تو یہ جنون مزید بڑھ گیا لیکن وقت نے سبق سکھانا چاہا نوازشریف اس درس میں بھی ناکام رہے ۔ورنہ “غریب الوطنی ” انسان کے سارے کس بل نکال دیتی ہے لیکن جب یہ غریب الوطنی اس طرح ہو کہ لاتعداد بکس ہمراہ ہوں تو کیسی غریب الوطنی اس غریب الوطنی میں بھی شہنشاہی اندازتو برقرار رہا بلکہ سعودی شیخوں کے ساتھ رہ کر اس میں مزید اضافہ ہو گیا جب یہ طے شدہ جلاوطنی ختم ہوئی اور میاں صاحب دوبارہ پاکستان پہنچے تو اس وقت سے ان کے انداز میں مزید رعونت آگئی ہے۔ 2008 کے انتخابات سے قبل جون2007میں ایک میثاق جمہوریت ہوا تھا جس میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے سوا تمام جماعتیں فریق تھیں ۔ اس میثاق میں طے ہوا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کی زیرنگرانی ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جائے گا اور اتحاد میں شامل کوئی بھی جماعت ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرے گی لیکن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نوازنے اس میثاق کو صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جو شق انہیں ناپسندیدہ تھیں انہیں طاق نسیاں پر رکھا۔ مشرف کے ہوتے ہوئے انتخابات میں بھی حصہ لیا اور پیپلزپارٹی نے وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت میں ضرورت نہ ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کو شریک اقتدار کیا۔یوں جب ضرورت ہوئی اس میثاق کو نکال لیا اور جب ضرورت پوری ہو گئی تو دوبار ہ بند کر کے رکھ دیا ۔
2008 میں پیپلزپارٹی نے بے نظیر کے قتل کو کیش کرایا اور پنجاب میں چھوٹے بھائی کی حکومت قائم ہو گئی۔ شہباز شریف کو پہلے مرحلے پر انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا تھا لیکن عدالت عالیہ سے حکم امتناعی لے کر الیکشن میں شریک ہوئے اور تاحال یہ فیصلہ نہیں ہو سکا ہے کہ 2008 میں مشرف سے کیا گیا معاہدہ کس حالت میں موجود تھا یا نہیں ۔جنرل پرویز مشرف کا دعویٰ ہے کہ نوازشریف نے اپنے اہلخانہ سمیت 2001 کے اواخر میں 10 سال تک سیاست میں حصہ نہ لینے اور سعودی عرب میں جلاوطنی کے عوض جاں بخشی چاہی تھی۔ ابتدائی مراحل میں تو نواز شریف اس معاہدے سے انکاری رہے لیکن بعد میں کبھی 5 تو کبھی 7 سال کی مدت کا اعتراف بھی کرتے رہے ۔یوں پرویز مشرف کی موجودگی میں وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے اور عملاً ہوا بھی ایسا ہی، شہباز شریف نے بھی اس وقت الیکشن میں حصہ لیا جب آصف علی زرداری صدر مملکت کے منصب پر فائز ہو چکے تھے ۔
2013 کے انتخابات میں نوازشریف کی مسلم لیگ واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ یوں مرکز میں بڑے اور پنجاب میں چھوٹے میاں صاحب کی حکومتیں قائم ہو گئیں ۔چھوٹے میاں صاحب کی حکومت کا یہ دوسرا ٹرم ہے لیکن اس ٹرم میں چھوٹے میاں صاحب نے وہ گل کھلائے ہیں کہ بڑے میاں صاحب بھی دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہیں ۔ ابھی تو صرف ملتان کے میٹرو کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ابھی تو پنڈی کی میٹرو اور لاہور کی اورینج لائن کے معاملات بھی کھلنے ہیں ۔ ملتان کی میٹرو تو ان منصوبوں میں ایک چھوٹا منصوبہ ہے۔ ورنہ تو ہر منصوبے میں ہی کرپشن کی غضب کہانیاں موجود ہیں اور یہ کہانیاں کیوں موجود نہ ہوں جب مشرف کے رفیق خاص حنیف عباسی “ایفی ڈرین عباسی “پنڈی میٹرو کے نگراں ہوں جو شخص پیسے کی حرص میں منشیات فروشی میں ملوث ہو سکتا ہے (ایفی ڈرین ایک نشہ آور جز ہے جو ادویات میں استعمال ہوتا ہے لیکن حنیف عباسی کی ادویہ ساز فیکٹری نے جس مقدار میں ایفی ڈرین خریدی اس تناسب سے ادویات تیار نہیں کی گئیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایفی ڈرین منشیات کی تیاری میں بھی استعمال کی گئی)۔
نوازشریف کو یہودیوں کے ہیرو مرحب سے کسی اور نے نہیں ان کے اپنے بھانجے نے تشبیہ دی ہے ۔بھانجا یقینا جانتا ہے کہ اس کا ماما کن لوگوں سے تعلق رکھتا ہے پھر جے آئی ٹی نے بھی تحقیق کی تھی۔ اس میں ثابت ہوا تھا کہ نوازشریف اور ان کے صاحبزادوں کے کاروبار میں یہودی شراکت دار اور ان کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں ۔۔۔ عابد شیر علی نے نوازشریف کو مرحب ثانی قرار دیدیا۔ شاید عابد شیر علی کا علم بہت محدود ہے اور وہ نہیں جانتا کہ مرحب صرف بہادر پہلوان ہی نہیں یہودی بھی تھا جو داماد رسولﷺ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا تھا۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر