وجود

... loading ...

وجود

برمی سفارت خانے تک احتجاجی ریلی

اتوار 10 ستمبر 2017 برمی سفارت خانے تک احتجاجی ریلی

۸ ؍ستمبر کو جماعت اسلامی اسلام آباد نے مسجد شہدا آبپارہ سے برمی سفارت خانے تک جانے کے لیے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں ایک احتجاجی ریلی نکالی۔ شہر اسلام آباد میں اس ریلی کی تشہیر کے لیے خوبصورت بینر لگائے گئے ۔ ریلی میں شریک ہونے کے لیے اسلام آباد کی گلی گلی میں ہینڈ بل تقسیم کیے گئے۔ شہر کی مساجد کے خطیبوں سے جماعت اسلامی کے ذمہ داروں نے ملاقاتیں کیں ۔ان سے درخواست کی کہ جمعہ کے خطبے میں روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ بدھ مذہب کے پیرو کاروں کے مظالم کو نمازیوں کے سامنے بیان کیا جائے۔ ان کے حق میں نکالی جانے والی ریلی میں شرکت کی اپیل کی جائے۔ بیشتر مساجد میں خطیبوں نے برما کے صوبے روہنگیا کے مسلمانوں پر بدھ مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ ان کی فوج نے مل کر جو مظالم کیے ہیں ان پر روشنی ڈالی۔ اس اپیل پر شہر کی مساجد سے لوگ جلوس کی شکل میں اس احتجاجی ریلی میں شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم صاحب نے تمام مکتبہ فکر کے علماسے ملاقاتیں کر کے اس ریلی میں شرکت کی درخواست کی۔اس سلسلے میں ریلی سے ایک دن پہلے پریس کانفرنس بھی کی گئی۔ جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا ونگ نے اس کی خوب تشہیر کی۔ اخبارات میں ایک دن پہلے اس ریلی کے متعلق خبریں شائع ہوئی۔ نتیجتاً اس ریلی میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگ اپنے اپنے جھنڈے لیے شریک ہوئے جس میں اہل سنت و الجماعت کے علما اور عوام کے ساتھ ساتھ ان کے جنگ سے پنجاب صوبائی اسمبلی کے ممبر شریک ہوئے۔بریلوی حضرات کے علماء اپنے لوگوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان صاحب کے لوگ اس ریلی میں شریک ہوئے۔مسلم اسٹوڈنٹس فیڈر یشن کے لوگ شریک ہوئے۔ اسلام آباد شہر کی کاروباری حضرات کی تنظیموں کے عہدیددار اس احتجاجی ریلی میں شریک ہوئے۔ شہر کی ٹرانسپورٹ یونین، مزدور یونین کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ اسلام آباد بار کے عہدیددار اور وکیل حضرات بھی شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیم جے آئی یوتھ کے کارکن بھاری تعداد میں شریک ہوئے۔جہاں تک میانمار میں مسلمانوں پر مظالم کا معاملہ ہے تو کافی عرصہ سے یہ مظالم جاری ہیں ۔
کچھ عرصہ پہلے مسلم دشمن میانمار کی حکومت نے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کرتے ہوئے بدنام زمانہ ایک کالا قانون پاس کیا تھا کہ ۱۸۲۳ء کے بعد میانمار میں داخل ہونے والے شہریوں کی شہریت منسوخ کر دی گی۔ جبکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ عرب مسلمان تاجر آٹھویں صدی عیسوی سے میانمار میں آباد ہو گئے تھے۔ کالے قانون کے خلاف میانمار کے مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ ۱۹۲۰ء سے مسلمانوں پر بدھ مذہب کے بھکشو اپنی سیکورٹی فورسز سے مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں ۔ اب ایک سو میل تک کے مسلمان بستی کا صفایا کر دیا گیا۔ لوگوں کے گلے کاٹ کر ان کی لاشوں کو آگ میں جلا دیا گیا۔اقوام متحدہ اور ہیومین رائٹس کی بین الاقوامی تنظیموں نے اس پر میانمار کی حکومت سے صرف رسمی احتجاج کیا۔ ہزاروں لوگ سمندر اور جنگلوں میں دربدر جان بچانے کے لیے بھاگ گئے۔ ہزاروں لوگ بنگلہ دیش میں پناہ کے لیے داخل ہو گئے۔ ترکی کے مرد مجاہد کے علاوہ کسی مسلمان ملک نے ان مظلوموں کی مدد نہیں کی بلکہ ان کے حق میں آواز تک نہیں اُٹھائی۔ ترکی کے اردگان ہزاروں ٹن امدادی سامان کے ساتھ بنگلہ دیش پہنچ گئے۔
ان دہشت گردوں کے ساتھ مسلمان نام نہیں ہے اس لیے اس کے خلاف مغرب، مغربی فنڈڈ این جی،ہیومن رائٹس کی تنظیمیں اور اقوام متحد ہ خاموش ہے۔ ترکی نے بنگلہ دیش حکومت سے کہا ہے کہ میانمار کے سارے مہاجرین کے اخراجات وہ ادا کرے گا۔ان حالات میں سینیٹر اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پورے پاکستان میں دنیا کے مسلمانوں کی آواز میں آواز ملانے کی جماعت اسلامی کی مستقل پالیسی کے تحت پورے ملک میں میانمار کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلیوں کی کال دی۔ جس پرشہر شہر اور گلی گلی روہنگیا کے مسلمانوں کی حمایت میں پاکستانی عوام نے احتجاج کیا۔ اسی کال کے تحت اسلام آباد کی ریلی کا انتظام کیاگیا ہے جس میں سراج الحق شریک ہوئے۔ ریلی کا باقاعدہ آغاز نماز جمعہ کے بعد آبپارہ چوک پر ہوا۔اسٹیج سیکر ٹیری کے فرائض جماعت اسلامی اسلام آباد کے نائب امیر اور کاروباری تنظیم کے صدر جناب کاشف عباسی اور اسلام آباد جماعت اسلامی کے سیکر یٹری جناب قاری امیر عثمان نے مشترکہ طور پر اداکیے۔ اسلام آباد کی مختلف مساجد سے نمازی جلوس کی شکل میں جوق در جوق اس پروگرام میں شریک ہوتے گئے اور پھر جلوس کی شکل بنتی گئی جو آہستہ آہستہ برما کے سفارت خانے کے طرف بڑھتا گیا۔ جگہ جگہ جلوس رُکتا رہا اور مقررین تقریریں کرتے رہے ۔ پرجوش شریکِ جلوس ان کی تقریروں کے درمیان نعرے لگاتے رہے ۔ پروگرام شروع ہونے سے پہلے اور پروگرام اور تقریر کے دوران ساؤنڈ سسٹم سے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دُکھیاگیت بھی سنائے جاتے رہے۔ انتظامیہ نے پہلے سے شہر میں چھ ہزار پولیس لگا دی تھی۔ جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے عوام کو اس ریلی میں شامل ہونے سے روکا جا رہا تھا۔ ارد گرد کی سڑکوں اور آبپارہ کی سڑک کو دونوں طرف سے بند کر دیا گیا تھا۔ کسی قسم کی گاڑی کو مسجد شہدا کے گیٹ تک نہیں جانے دیا جارہا تھا۔ نمازیوں کو مسجد شہدا میں جانے کے لیے دشواری ہو رہی تھی۔ راقم ایک آزاد مشن صحافی ہونے کے ناطے اس ریلی کی رپورٹنگ کے لیے اس میں شریک ہوا۔ میں کئی سالوں سے معذور ہوں ۔ خود میری گاڑی جسے میرا بیٹا چلا رہا تھا کو آبپا رہ چوک پر پولیس نے روک لیا۔ میں ایک فرلانگ بھی پیدل نہیں چل سکتا۔ میرے بیٹے نے پولیس والوں کہا کہ میں مسجد کے گیٹ پر والد کو اُتار کر واپس آ جاتا ہوں ۔مگر پولیس والوں نے ایک نہ مانی اور مجھے بھی چوک سے مسجد تک سہارالے کر جانا پڑا۔ جب ریلی شروع ہوئی تو نہتے شرکا ہاتھوں میں اپنی اپنی پارٹیوں کے جھنڈے اور برما کی حکمران سوچی کی تصویر والے پلے کارڈ اور احتجاجی بینرز لیے برما کے سفارت خانے کی طرف بڑھتے گئے۔پولیس والے جنگی لباس پہنے جلوس کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔آگے سرینا چوک اور ریڈ زون کے قریب کنٹینرز اور غار دار تاریں لگا کر ریلی کا راستہ روک دیا گیا۔ کنٹینرز پر لیوی کے نوجوان بیٹھا دیے گئے۔ کنٹینرز کے سامنے سراج الحق سینیٹر اورامیر جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا کے مسلمان یک جان ہیں ۔مسلمانوں کے خلاف جہاں بھی ظلم ہو گا ہم آواز اُٹھائیں گے۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ میانمار سے سفارتی تعلقات ختم کر کے اس کے سفیر کو پاکستان بدر کر کے اپنے سفیر کو واپس بلایا جائے۔ میانمار اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر پر دستخط کیے ہوئے ہیں کہ اپنی اپنی اقلیتوں کا تحفظ کریں گے۔ میانمار نے اس کی خلاف ورزی کی ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں نے بدھ مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ ویسے تو پاکستان میں اقلیتوں کے کچھ شر پسند افرادہمارے رسول ؐکی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو ان کے خلاف ملک کے قانون کے مطابق کارر وائی کی جاتی ہے تو مغرب کی فنڈڈ این جی اوز ہنگامہ کھڑی کر دیتی ہیں ۔ اب کہا ں ہیں یہ این جی اوز کہ آٹھویں صدی سے آباد روہنگیا کے مسلمانوں کی شہریت ختم کر دی گی اور یہ آواز نہیں اُٹھا رہیں ۔ سراج الحق صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ میانمار کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف مقدمہ قائم کیا جائے۔ انہوں نے اسلامی دنیا کے حکمرانوں سے کہاکہ میانمار کے مسلمانوں کے حق میں آواز اُٹھائیں ان کی مدد کریں ۔ انہوں نے کہا حکومت ہمارے برما کے سفارے خانے پر احتجاج کرنے سے ڈرتی ہے۔ اصل میں اس کو امریکا کا ڈر ہے۔ اگر مطالبات منظور نہ کیے گئے تو میں جماعت اسلامی کے کارکنوں اور عوام کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا کہوں گا۔ پھر حکمرانوں کی حکمرانی بچے گی نہ ان کی امریکی غلامی ۔ہمارا کام اپنے ملک کی املاک کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ میانمار کے مسلمانوں کے خلاف آواز بلند کر کے دنیا کے ضمیرکو جھنجھوڑنا ہے۔ اس ریلی سے پنجاب اسمبلی کے ممبر،اسلام آباد بار کے عہدہ داروں سول سوسائٹی اور دوسری جماعتیں کے لیڈروں نے بھی خطاب کیا۔ مغرب سے چند منٹ پہلے یہ پرامن ریلی اس دعا پر ختم ہوئی کی روہنگیا کے مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ مدد کرے آمین۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر