وجود

... loading ...

وجود

روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام

جمعه 08 ستمبر 2017 روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام

چار سو سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ہزاروں گھروں کے جلاڈالنے پر مغربی دنیا اس طرح خاموش رہی جیسے اسے زہریلاکالاسانپ سونگھ گیا ہو ۔پاکستانی سیاستدان خورشید شاہ نے سکھر میں تقریب کے دوران ان کے بہیمانہ قتل پرضروربیان ریکارڈ کرایا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے لوئر دیر میں عید ملن پارٹی سے خطاب کے دوران میں عالم اسلام کی متحدہ فوج فوراً برما بھجوانے اور برمی سفیر کو پاکستان سے واپس بھجوانے کا بجا مطالبہ کیا ہے تاکہ مسلمانوں کی نسل کشی کو ختم کیا جا سکے۔ہمیشہ کی طرح شریفین نے اس پر کوئی بیان نہیں دیادیگر حکمران بدستور خاموش تما شائی کا کردار اداکررہے ہیں ۔
بلاول بھٹو نے برما کے مسلمانوں کے قتل عام پر بہت زبردست احتجاجی بیان جاری کیا ہے اور تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں قرارداد جمع کروادی ہے۔صرف وزیر خارجہ نے مذمت کی روایت نبھائی ہے کاش کوئی قابل وزیر خارجہ متعین ہوجاتا تو وہ فوراً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رابطہ کرکے میانمار میں قتل عام کو رکواتا مگر امریکا، برطانیا، جاپان اور جنوبی کوریا کوــ “تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبھیرتو” کے بمصداق اپنی حفاظت کی پڑی ہوئی ہے ۔ کیونکہ شمالی کوریا نے پھر ہائیڈروجن بم کا دھماکا کردیا ہے اور وہ ان سبھی کے لیے خطرہ کا نشان بنا ہوا ہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس شمالی کوریا پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کررہا ہے کیونکہ کفر ملت واحدکی طرح اپنے اپنے مفادات کے لیے اکٹھا ہے مگر کشمیر میں ایک لاکھ شہیدوں کے بعد بھی 67سالہ پرانی سلامتی کونسل کی قراداد پر عمل درآمد کیوں رکا ہوا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کا ہی بہیمانہ قتل ہورہا ہے اور مخالف فریق ہندو ہیں ۔کاش عالم اسلام بھی متحد ہو کر مشترکہ فوج مشترکہ کرنسی مشترکہ کاروبار مشترکہ بینکنگ کا اسلامی طریقہ کار اختیار کرلے تو مسلمانوں پر ہر جگہ سامراجیوں کے مظالم ختم ہوسکتے ہیں مگر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔
جب ہم کئی اسلامی ممالک کوبڑے غنڈہ سامراج کی باجگزار ریاستوں کا روپ دھارے ہوئے دیکھتے ہیں ۔اور جہاں جہاں اسلامی ملک کی فوج مضبوط ہے ان کو دبانے اور فرقہ واریت کے عفریت کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں یہی حال روہنگیا مسلمانوں کا ہے کہ وہ در بدر پھر رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش چونکہ بھارتیوں کے زیر اثر ہے اس لیے وہ بھی ان مسلمانوں کو تحفظ دینے سے گریزاں ہے۔ اس کے بارڈر پر ساٹھ ہزار مظلوم موجود ہیں مگر وہ ملک کے اندر آئے ہوئے لوگوں کو بھی واپس دھکیل رہا ہے۔80کی دہائی میں پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی مگر کیا ایسا آج بھی ہوسکتا ہے؟چونکہ برسر اقتدار افراد اپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اس لیے ان کا دھیان ادھر جاتاہی نہیں ۔ اپنا اقتداری سنگھاسن ڈول رہا ہو تو مقتدر افراد کم ہی دوسروں کی تکالیف کی طرف دھیان دیتے ہیں ۔
برما کی افواج کی طرف سے اقلیتی مسلمانوں کے قتل عام پر پاکستان کی قومی اسمبلی و سینیٹ کوفوری طور پر اس معاملہ کو اٹھانا چاہیے۔ او آئی سی نے اب تک کوئی کردار ادا نہیں کیا، وہ بدستور خواب خرگوش میں مدہوش ہے۔ عالم اسلام بھی تقریباً سو رہا ہے۔ صرف ترک صدرطیب اردگان نے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی سرحدیں مظلوم مسلمانوں کے لیے کھول دیں ، سارا خرچہ ترکی دے گا۔ہنگامی مشترکہ پریس کانفرنس میں ایرانی صدر حسن روہانی اور طیب اردگان نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سلامتی کونسل نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور انہیں جلا کر مار ڈالنے کا نوٹس نہ لیا تو وہ ساری سرحدیں عبور کرکے برمی مسلمانوں کی امداد کو پہنچیں گے۔
عالمی برادری و انسانی حقوق کی تنظیمیں اور موم بتی مافیا بھی اب تک کوئی رول ادا نہیں کر سکیں ۔برمی افواج بھی فلاحی تنظیموں کو جائے وقوعہ پر پہنچنے سے روک رہی ہیں ۔چائناکے ساتھ بھی میانمار کا 1270کلومیٹر کا بارڈر ملحقہ ہے، وہ بھی اس میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا تو 400افراد کے قتل کا ہی دعویٰ کر رہا ہے مگر وہاں 1400سے زائد شہید افراد میں سے زیادہ تعداد زندہ جلائے جا نے والوں کی ہے۔ ساٹھ سے زائد بچوں کے چھریوں سے سر کاٹے گئے ہیں اور انھیں عملاً ذبح کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیا نے ہزاروں گھروں کو 17مقامات پر نذر آتش کیا ہوا دیکھا ہے۔
آنگ سان سوچی جو کہ وہاں کی واحد نسل پرست حکمران ہیں ۔ان کی ایسے بہیمانہ ہلاکتوں پر غیر جانبدارانہ پالیسی کی پوری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے اور ان کو دیا گیا امن کا نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ ان کابلوائیوں اور اپنی افواج کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام سے نہ روکناخود بہت بڑا جرم ہے۔پاکستان جو کہ واحد ایٹمی
اسلامی ملک ہے اس میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے اور اسے عالم اسلام کے سربراہوں کی کانفرنس اپنے ہاں بلواکردنیائے اسلا م کے ا س مسئلہ کو فوری حل کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر