... loading ...
اس سے قبل تو امریکی بار بار ڈو مور کا کہا کرتے تھے اور ہمارے ملک کے پٹھو حکمران اس پر عمل بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی بڑھی۔ مگر اب کے صدر امریکا نے ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کر پاکستان کو دھمکی دی ہے۔ پہلے ایک فون کال پر ہمارے کمانڈو نے امریکا کے نو کے نو مطالبات مان کر موجودہ دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور افغان طالبان کی جائز اسلامی حکومت کو ختم کیا گیا جو پاکستان کی دوست اور بھارت کی مخالف تھی جس سے پشتونستان کا مسئلہ د ب گیا تھا اور ہماری مغربی سرحد تاریخ میں پہلی مرتبہ محفوظ ہو گئی تھی۔ مگر اب کے بہادر سپہ سالار نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ ہمیں امریکا کی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہم امریکا کی افغانستان کی جنگ کو پاکستان میں کسی صورت بھی نہیں لا سکتے۔ ہم نے دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے ہمارے70 ہزار شہری اور فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے ملک کا 150 ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ آپ پھر بھی ڈو مور کی رٹ لگا کر دھمکی دے رہے ہیں۔ بلکہ ہم آپ سے اور دنیا سے مطالبہ ہم کرتے ہیں کہ ہماری قربانیوں کا اعتراف کریں۔اس بار ملک کے وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ نے امریکا کا دورہ بھی منسوخ کیا اور امریکی نائب وزیر کو پاکستان کا دورہ کرنے سے روک دیاگیا جو کہ بلاشبہ پاکستان کے عوام کی ترجمانی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے خلاف عوام نے مظاہرے شروع کردیے جو اب بھی جاری ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان نے پورے ملک میں 6ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر لاکھوں نوجوانوں کے احتجاج کے ساتھ ٹرمپ کی دھمکی کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ مغربی دنیا ایک اسلامی ایٹمی ملک پاکستان کوبرداشت کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔ ویسے بھی امریکا صلیبی ورلڈ پاور ہے ۔ وہ کب ایک مسلمان ملک کو پھولتا پھلتا دیکھ سکتا ہے۔ اسی لیے اندرون خانہ دوستی کے بہانے پاکستان کو توڑنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے۔اس نے گریٹ گیم کے تحت پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو کمزور کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے کی اسکیم میں بھارت سے دفاعی معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ جس میں پشتونستان ، جناح پوراور گریٹر بلوچستان وغیرہ بنانا شامل ہیں۔ بھارت کوایٹمی سپلائر گروپ کا ممبر بھی بنانے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ امریکاکے پینٹاگون اور امریکی تھنک ٹینک نے بہت پہلے پاکستان کی تقسیم کے نقشے بھی جاری بھی کیے تھے۔ جس کا ہمارے مقتدر حلقوں کو ہم سے زیادہ علم ہے۔ اس لیے وہ سوچ سمجھ کر قدم اُٹھائیں گے۔ گو کہ چین نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے مگر اس وقت پاکستان کو ورلڈ آڈر والے امریکاکے صدر نے کھلم کھلا دھمکی دی ہے۔ اس لیے حفظ ِماتقدم کے طورپر سب سے پہلے پاکستان کوچین اور روس سے دفاعی معاہدے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوست ملکوں جس میں عرب ملک، ترکی اور ایران شامل ہے سے تعلقات کو مستحکم کرنا چاہیے۔افغانستان کو بھارت نے پاکستان بننے سے بہت پہلے سے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے ۔
اس کی تاریخی وجہ ہندوستان پر افغانستا ن سے بادشاہوں کے حملے تھے۔ ہندوستان نے یہ ڈاکٹرائن بنایا ۔اوّل کہ ایک تو افغانیوں کو قومیت کے زہر سے مسلح کیا جائے کہ وہ مسلمان ہونے کے بجائے اپنی قومیت پر فخر کریں۔ دوم کہ اس سے قبل کے وہاں سے ہندوستان پر حملے ہوں ان کی ترقیاتی کاموں کے نام سے مدد جاری رکھ کر دل جیتے جائیں تاکہ وہ وہیں رُکے رہیں اور ہندوستان پر یلغار نہ کریں۔اسی لیے جب پاکستان بنا تھا تو افغانستان نے سرحدی گاندھی عبدالغفار خان صاحب (جسے افغان پٹھان بابائے پشتونستان کہتے تھے )کی شہہ پرپاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پشتونستان کا مسئلہ کا کھڑا کیے رکھا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی کے بھارت نوازولی خان صاحب کی شہہ پر پشتون زلمے کو افغان حکومت نے فوجی ٹریننگ دی اور پاکستان توڑنے کی کوشش کی۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اسی نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری اجمل خٹک نے افغانستان میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران کہا تھا کہ وہ سرخ ڈولی میں بیٹھ کر پاکستان آئے گا۔ اسی لیے بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا جسے بھٹو دشمنی میں ڈکٹیٹر ضیا الحق نے ختم کیا تھا۔ حوالہ نیشنل عوامی پارٹی کے منحرف کارکن جمعہ خان صوفی کی کتاب’’ فریب ِناتمام‘‘ )پاکستان بننے کے بعد افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہونے تک ہمارے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان نے پاکستان توڑنے کی بھارتی کوششوں میں شامل رہا۔
جب خیبر پختونخواہ میں اسفند یار ولی خان صاحب کی نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تھی تو ولی خان کے بیٹے نے اپنی خاندانی پاکستان دشمنی نبھاتے ہوئے امریکا کادورہ کیا تھا اور لگتا ہے کہ کوئی خفیہ معاہدہ کیا تھا۔ اس پر اخبارات میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس کے مندرجات میڈیا کو بتائے جائیں مگر ایسا نہیں ہوا۔ البتہ بیگم نسیم ولی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں اسفند یار ولی پر الزام لگایا تھا کہ اس نے پشتون قوم کو ڈالروں کے عوض فروخت کیا ہے۔ آزادذرائع کے مطابق لگتا تھا کہ شاید امریکا اس معاہدے میں اس بات پر رضا مند ہوا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انگریزوں کی قائم کردہ سرحدڈیو ررنڈ لائن ختم کر کے افغانستان کی پشتون آبادی کو خیبر پختونخواہ کے ساتھ ملا دیاجائے ۔ اس طرح مردہ گھوڑے میں جان ڈالتے ہوئے سرحدی گاندھی بابائے پشتونستان عبدالغفار خان کے خواب کو پورا کر کے پشتونستان بنا دیاجائے ۔ اس بنا پر اسفند یار ولی خان نے امریکا کی افغانستان میں طالبان کی قائم شدہ اسلامی حکومت کو ختم کرانے کی امریکا کو مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔اپنے لوگوں کو فاٹا میں ٹریننگ دلائی۔ جب امریکا اور بھارت مل کر فاٹا میں اسفندیار ولی کے لوگوں کو ٹریننگ دے رہے تھے تواس وقت پرویز مشرف کومیجر جنرل شاہد عزیز صاحب نے خبردار بھی کیا تھا۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کب تک‘‘ میں کیا ہے۔ (جاری ہے)