وجود

... loading ...

وجود

افغانستان ،سیاسی تحریک کی ضرورت

هفته 02 ستمبر 2017 افغانستان ،سیاسی تحریک کی ضرورت

امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق سے ہفتہ 19اگست کو کوئٹہ پریس کلب میں ملاقات ہوئی اور تفصیلی گفتگو بھی ہوئی۔ وہ کوئٹہ پریس کلب کے پروگرام حال احوال میں مہمان تھے۔ چنانچہ فراغت کے بعد کلب کے صدر رضا الرحمان کے دفتر میں بیٹھک ہوئی۔ کوئٹہ کے سینئر صحافی عبدالخالق رند ، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی اور سیکریٹری اطلاعات عبدالولی خان بھی موجود تھے ۔ بہت ساری باتیں کھلے عام ہوئیں تاہم میں نے موقع پاکر چند باتیں افغانستان کے موجودہ حالات، امارت اسلامیہ کی مزاحمت اور حزب اسلامی کے سیاسی و قومی دھارے میں شامل ہونے سے متعلق پوچھیں ۔ گویا جاننا چاہا کہ ان دنوں جماعت اسلامی کا مؤقف افغانستان کے بارے میں کیا ہے؟ جماعت اسلامی کی پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے ۔جو کچھ میں سراج الحق کی باتوں سے اخذ کرسکا، وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی افغانستان میں کسی جماعت یا فریق کی مطلق حامی نہیں ۔ وہ چاہتی ہے کہ افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کا انخلاء ہو اور افغان سیاسی شخصیات و جماعتیں مل بیٹھ کر قومی حکومت تشکیل دیں اور جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ امارت اسلامیہ (افغان طالبان) اور حزب اسلامی کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور یہ دونوں جماعتیں افغانستان کی بہتری اور سیاست میں مشترکات کے ساتھ آگے بڑھیں ۔ اور ہمسایہ ممالک خواہ وہ کوئی بھی ملک ہوکسی دھڑے کی حمایت نہ کریں ۔
یقینا افغانستان کے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے21اگست کے اعلان کے بعد جس میں نئی افغان پالیسی کا اعلان کیاگیا اور مزید افواج بھیجنے کا فیصلہ ہوا، سے افغانستان میں امن ا ور استحکام کو ایک اور بڑادھچکا لگا ہے ۔ یہ امر عیاں ہے کہ مزید امریکی افواج مزیدمسائل کا سبب بنیں گے۔ بقول حزب اسلامی کے امیر انجینئر گلبدین حکمت یار کہ ’’امریکی جنر لوں کی جانب سے اپنے صدر کو مزید جنگ پر آمادہ کر نا حیران کن ہے اور کیوں افغانستان میں افواج بھیجنے پر قائل کیا ہے‘‘۔ دیکھا جائے تو ٹرمپ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران افغانستان سے افواج کی واپسی کا کہتے رہے ہیں گویا افغانستان میں قیام کو بے کار مشق کہہ چکے ہیں ۔ حالیہ دنوں امریکاکی سیاسی و عسکری قیادت افغان صورتحال پر مضطرب تھی ۔ خود ٹرمپ افغانستان میں امریکی افواج کے اعلیٰ کمانڈر جان جنرل نکلسن کی سبکدوشی کا عندیہ دے چکے تھے۔ امید تھی کہ امریکی افواج کے انخلاء کی حکمت عملی طے کی جاتی اور اس کے لیے وقت دیا جائے گا ۔مگر اس کے برعکس افواج میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا اور ساتھ اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا ۔ دیکھا جائے تو افغانستان کے حالات 1978کے فساد کا تسلسل ہیں ۔ نہ تب معروضی حالات و حقائق کا ادراک کیا گیا اور نہ اب اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت گوارا کی جارہی ہے۔
نائن الیون کے بعد یعنی اکتوبر2001 میں افغانستان پر امریکی حملہ پاکستان کے تعاون کے بغیر ناممکن تھا۔ بلاشبہ پرویز مشرف نے یہ تعاون کرکے خیانت اور قوم کا سودا کرلیا تھا ۔تاہم پھر کیا وجہ تھی کہ امریکانے اپنی تمام محبتوں اور نوازشات کا مستحق بھارت کو سمجھا۔ گویا امریکا نے سرے سے پاکستان کے مفادات کو اہمیت ہی نہیں دی۔ امریکا کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی اور نیٹو کی ایک لاکھ سے زائد افواج سے مقاصد حاصل نہیں کرسکا ہے اور اب چند ہزار مزید فوجیں افغانستان بھیجنا بھی وقت ، پیسہ اور وسائل کا ضیاع ثابت ہوگا ۔بلکہ امن کی بجائے تباہی کو بڑھاوا ملے گا ۔افغان عوام کے قتل عام میں اضافہ ہو گا ۔ پاکستان کے بغیر وسیع ترمقاصد کا حصول ممکن نہیں ۔ چنانچہ پاکستان کی حقیقی مشکلات و خدشات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ افغانستان میں امن اور دہشت گردوں کے خلاف کامیابی کا راز فی الواقع وسیع قومی حکومت کے قیام میں مضمر ہے ،جو امارت اسلامیہ کے بغیر تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ لہٰذا ہونا یہ چاہیے امریکا اپنی نگرانی میں افغان سیاسی فریقین اور جماعتوں کو آزادانہ ماحول میں حکومت بنانے دیں ۔ یقینی طور پر اس صورت میں القاعدہ یا داعش جیسے گروہوں کے لیے افغانستان میں ٹھکانا نہیں رہے گا اور مستقبل کی یہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف اپنے عوام کی قوت سے موثر کارروائی کر نے پر قادر ہوگی۔ اور اسے اس مقصد کے لیے ہمسایہ ممالک اور عالمی دنیا بشمول امریکا کا تعاون بھی حاصل ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کی واہ واہ کٹھ پتلی اشرف غنی ، جنبش ملی کے رشید دوستم اور ربانی کی جمعیت اسلامی جیسی تنظیمیں یاپاکستان کے اندر قوم دوستی کے علمبردار تو کرسکتے ہیں مگراس غیر ملکی قبضے اور قابض ملک کی پالیسیوں اور اعلانات کی حمایت حریت پسند عوام اور اکابرین کا شیوانہیں ہو سکتا ۔ اس ذیل میں سابق افغان صدر حامد کرزئی بسا اوقات افغان عوام کے جذبات پر نظر رکھتے ہوئے بات کرتے ہیں ، چنانچہ اُنہوں نے رات کی تاریکی میں چھاپوں ، شہریوں پر بمباریِ ،بموں کی ماں نامی بم کا دھماکا اور اب مزید امریکی افواج بھیجنے پر کڑی تنقید کی ہے۔ حزب اسلامی کا بھی امریکی قبضے کے خلاف مؤقف مبہم نہیں ہے ۔ امارت اسلامیہ کے طریقہ کار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر فی الحقیقت یہ تحریک خالصتاً افغان عوام کی تحریک ہے اور اپنے ملک سے سامراجی افواج کا انخلاء چاہتی ہے ۔ اگر امارت اسلامیہ یہ کہے کہ اختیار و اقتدار کا حق فقط ان کو حاصل ہے تو یقینا اس رائے اور سوچ کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ افغانستان کے مسائل کا حل وسیع قومی حکومت ہے اور یہ حکومت عوام کو اپنی رائے سے منتخب کرنی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ19اگست کو افغانستان میں آزادی کا 98واں جشن منایا گیا ۔ پاکستان میں بھی اس کا اہتمام ہوا ۔ افغان سفارت خانے اور قونصل خانوں میں پاکستان کے پشتون و دوسر ے رہنما بھی شریک ہوئے۔ گویا غلام یوم استقلال منارہے تھے۔ حیرت ہے کہ ملک کا استقلال امریکا نے سولہ سالوں سے روند ڈالا ہے۔ جدید ترین طیاروں اور ہتھیاروں سے افغان عوام کا قتل عام کیا اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔بموں کی ماں جیسے بم کا تجربہ اسی سرزمین پر کیا ۔ اور ہم اسے آزادی سمجھتے ہیں ۔ افغان حکمرانوں کی اس بے ضمیری اور امریکیوں کی غلامی پر غازی امان اللہ خان تو کیا میر وائس خان اور احمد شاہ ابدالی کی روح بھی کانپ اُٹھی ہوگی۔ امریکا افغانستان کے معدنی وسائل ہڑپ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اس مقصد کے لیے قبضہ مزید طویل کرے گا۔ ضروری ہے کہ افغانستان کے اندر عوامی اور سیاسی تحریک کو دوام دیا جائے ۔ ایسا حزب اسلامی کرسکتی ہے ۔ حامد کرزئی جیسی دیگر شخصیات کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ امارت اسلامیہ عوامی احتجاج کی راہ میں بھی اپنی حکمت عملی طے کرے ۔ خیبر پشتونخوا اور بلوچستان امریکا اور بھارت کا مزید ہدف بن سکتے ہیں ۔ضروری ہے کہ پاکستان کی بڑی قومی سیاسی و دینی جماعتیں افغانستان کے حالات پر ایک مؤقف اپنائیں ۔ وہ یہ کہ امریکا اپنا بوریا بستر گول کرکے افغانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ سراج الحق صاحب اگر امارت اسلامیہ اور حزب اسلامی کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر