... loading ...
امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق سے ہفتہ 19اگست کو کوئٹہ پریس کلب میں ملاقات ہوئی اور تفصیلی گفتگو بھی ہوئی۔ وہ کوئٹہ پریس کلب کے پروگرام حال احوال میں مہمان تھے۔ چنانچہ فراغت کے بعد کلب کے صدر رضا الرحمان کے دفتر میں بیٹھک ہوئی۔ کوئٹہ کے سینئر صحافی عبدالخالق رند ، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی اور سیکریٹری اطلاعات عبدالولی خان بھی موجود تھے ۔ بہت ساری باتیں کھلے عام ہوئیں تاہم میں نے موقع پاکر چند باتیں افغانستان کے موجودہ حالات، امارت اسلامیہ کی مزاحمت اور حزب اسلامی کے سیاسی و قومی دھارے میں شامل ہونے سے متعلق پوچھیں ۔ گویا جاننا چاہا کہ ان دنوں جماعت اسلامی کا مؤقف افغانستان کے بارے میں کیا ہے؟ جماعت اسلامی کی پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے ۔جو کچھ میں سراج الحق کی باتوں سے اخذ کرسکا، وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی افغانستان میں کسی جماعت یا فریق کی مطلق حامی نہیں ۔ وہ چاہتی ہے کہ افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کا انخلاء ہو اور افغان سیاسی شخصیات و جماعتیں مل بیٹھ کر قومی حکومت تشکیل دیں اور جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ امارت اسلامیہ (افغان طالبان) اور حزب اسلامی کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور یہ دونوں جماعتیں افغانستان کی بہتری اور سیاست میں مشترکات کے ساتھ آگے بڑھیں ۔ اور ہمسایہ ممالک خواہ وہ کوئی بھی ملک ہوکسی دھڑے کی حمایت نہ کریں ۔
یقینا افغانستان کے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے21اگست کے اعلان کے بعد جس میں نئی افغان پالیسی کا اعلان کیاگیا اور مزید افواج بھیجنے کا فیصلہ ہوا، سے افغانستان میں امن ا ور استحکام کو ایک اور بڑادھچکا لگا ہے ۔ یہ امر عیاں ہے کہ مزید امریکی افواج مزیدمسائل کا سبب بنیں گے۔ بقول حزب اسلامی کے امیر انجینئر گلبدین حکمت یار کہ ’’امریکی جنر لوں کی جانب سے اپنے صدر کو مزید جنگ پر آمادہ کر نا حیران کن ہے اور کیوں افغانستان میں افواج بھیجنے پر قائل کیا ہے‘‘۔ دیکھا جائے تو ٹرمپ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران افغانستان سے افواج کی واپسی کا کہتے رہے ہیں گویا افغانستان میں قیام کو بے کار مشق کہہ چکے ہیں ۔ حالیہ دنوں امریکاکی سیاسی و عسکری قیادت افغان صورتحال پر مضطرب تھی ۔ خود ٹرمپ افغانستان میں امریکی افواج کے اعلیٰ کمانڈر جان جنرل نکلسن کی سبکدوشی کا عندیہ دے چکے تھے۔ امید تھی کہ امریکی افواج کے انخلاء کی حکمت عملی طے کی جاتی اور اس کے لیے وقت دیا جائے گا ۔مگر اس کے برعکس افواج میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا اور ساتھ اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا ۔ دیکھا جائے تو افغانستان کے حالات 1978کے فساد کا تسلسل ہیں ۔ نہ تب معروضی حالات و حقائق کا ادراک کیا گیا اور نہ اب اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت گوارا کی جارہی ہے۔
نائن الیون کے بعد یعنی اکتوبر2001 میں افغانستان پر امریکی حملہ پاکستان کے تعاون کے بغیر ناممکن تھا۔ بلاشبہ پرویز مشرف نے یہ تعاون کرکے خیانت اور قوم کا سودا کرلیا تھا ۔تاہم پھر کیا وجہ تھی کہ امریکانے اپنی تمام محبتوں اور نوازشات کا مستحق بھارت کو سمجھا۔ گویا امریکا نے سرے سے پاکستان کے مفادات کو اہمیت ہی نہیں دی۔ امریکا کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی اور نیٹو کی ایک لاکھ سے زائد افواج سے مقاصد حاصل نہیں کرسکا ہے اور اب چند ہزار مزید فوجیں افغانستان بھیجنا بھی وقت ، پیسہ اور وسائل کا ضیاع ثابت ہوگا ۔بلکہ امن کی بجائے تباہی کو بڑھاوا ملے گا ۔افغان عوام کے قتل عام میں اضافہ ہو گا ۔ پاکستان کے بغیر وسیع ترمقاصد کا حصول ممکن نہیں ۔ چنانچہ پاکستان کی حقیقی مشکلات و خدشات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ افغانستان میں امن اور دہشت گردوں کے خلاف کامیابی کا راز فی الواقع وسیع قومی حکومت کے قیام میں مضمر ہے ،جو امارت اسلامیہ کے بغیر تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ لہٰذا ہونا یہ چاہیے امریکا اپنی نگرانی میں افغان سیاسی فریقین اور جماعتوں کو آزادانہ ماحول میں حکومت بنانے دیں ۔ یقینی طور پر اس صورت میں القاعدہ یا داعش جیسے گروہوں کے لیے افغانستان میں ٹھکانا نہیں رہے گا اور مستقبل کی یہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف اپنے عوام کی قوت سے موثر کارروائی کر نے پر قادر ہوگی۔ اور اسے اس مقصد کے لیے ہمسایہ ممالک اور عالمی دنیا بشمول امریکا کا تعاون بھی حاصل ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کی واہ واہ کٹھ پتلی اشرف غنی ، جنبش ملی کے رشید دوستم اور ربانی کی جمعیت اسلامی جیسی تنظیمیں یاپاکستان کے اندر قوم دوستی کے علمبردار تو کرسکتے ہیں مگراس غیر ملکی قبضے اور قابض ملک کی پالیسیوں اور اعلانات کی حمایت حریت پسند عوام اور اکابرین کا شیوانہیں ہو سکتا ۔ اس ذیل میں سابق افغان صدر حامد کرزئی بسا اوقات افغان عوام کے جذبات پر نظر رکھتے ہوئے بات کرتے ہیں ، چنانچہ اُنہوں نے رات کی تاریکی میں چھاپوں ، شہریوں پر بمباریِ ،بموں کی ماں نامی بم کا دھماکا اور اب مزید امریکی افواج بھیجنے پر کڑی تنقید کی ہے۔ حزب اسلامی کا بھی امریکی قبضے کے خلاف مؤقف مبہم نہیں ہے ۔ امارت اسلامیہ کے طریقہ کار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر فی الحقیقت یہ تحریک خالصتاً افغان عوام کی تحریک ہے اور اپنے ملک سے سامراجی افواج کا انخلاء چاہتی ہے ۔ اگر امارت اسلامیہ یہ کہے کہ اختیار و اقتدار کا حق فقط ان کو حاصل ہے تو یقینا اس رائے اور سوچ کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ افغانستان کے مسائل کا حل وسیع قومی حکومت ہے اور یہ حکومت عوام کو اپنی رائے سے منتخب کرنی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ19اگست کو افغانستان میں آزادی کا 98واں جشن منایا گیا ۔ پاکستان میں بھی اس کا اہتمام ہوا ۔ افغان سفارت خانے اور قونصل خانوں میں پاکستان کے پشتون و دوسر ے رہنما بھی شریک ہوئے۔ گویا غلام یوم استقلال منارہے تھے۔ حیرت ہے کہ ملک کا استقلال امریکا نے سولہ سالوں سے روند ڈالا ہے۔ جدید ترین طیاروں اور ہتھیاروں سے افغان عوام کا قتل عام کیا اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔بموں کی ماں جیسے بم کا تجربہ اسی سرزمین پر کیا ۔ اور ہم اسے آزادی سمجھتے ہیں ۔ افغان حکمرانوں کی اس بے ضمیری اور امریکیوں کی غلامی پر غازی امان اللہ خان تو کیا میر وائس خان اور احمد شاہ ابدالی کی روح بھی کانپ اُٹھی ہوگی۔ امریکا افغانستان کے معدنی وسائل ہڑپ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اس مقصد کے لیے قبضہ مزید طویل کرے گا۔ ضروری ہے کہ افغانستان کے اندر عوامی اور سیاسی تحریک کو دوام دیا جائے ۔ ایسا حزب اسلامی کرسکتی ہے ۔ حامد کرزئی جیسی دیگر شخصیات کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ امارت اسلامیہ عوامی احتجاج کی راہ میں بھی اپنی حکمت عملی طے کرے ۔ خیبر پشتونخوا اور بلوچستان امریکا اور بھارت کا مزید ہدف بن سکتے ہیں ۔ضروری ہے کہ پاکستان کی بڑی قومی سیاسی و دینی جماعتیں افغانستان کے حالات پر ایک مؤقف اپنائیں ۔ وہ یہ کہ امریکا اپنا بوریا بستر گول کرکے افغانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ سراج الحق صاحب اگر امارت اسلامیہ اور حزب اسلامی کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔