وجود

... loading ...

وجود

عید قربان پھر آگئی!

هفته 02 ستمبر 2017 عید قربان پھر آگئی!

عید قربان مسلمانوں کا وہ تہوار ہے جو کہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرف سے خواب میں خدا تعالیٰ کی جانب سے اپنی سب سے پیاری اور قیمتی چیز کو قربان کرڈالنے کے بموجب ان کی طرف سے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو باہر دور دراز علاقہ میں لے جا کر اسکے گلے پرچھری پھیرنے کے واقعہ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو بھی آزمائش کے مرحلوں سے گزاراہے ۔حضرت ابراہیم ؑ نے فوراً حکم خدا وندی کی تعمیل کی ،اسی لمحہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ یہ چھری حضرت اسماعیل ؑکے گلے پر کند ہو جائے مگر حضرت اسماعیل ؑکی جگہ ایک مینڈھا وہاں پہنچا دواور وہ چھری اس کی گردن پر چل کر اسے ذبح کر گئی۔ تمام صاحب استطاعت لوگوں پر ہر سال قربانی کرنا ضروری قرار پایا مگر جدید مادی دور کے آغاز سے ہی ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے اور کسی دوسرے کے دکھ درد میں حصہ ڈالنا اب مفقود ہی ہوتا چلا جارہا ہے ۔
ہر صورت چھینا جھپٹی کے ذریعے مال کمانا ہی ہر کوئی ضروری سمجھتا ہے اس طرح قربانی کا گوشت بھی زیادہ تر خود ہی رکھ لیا جاتا ہے یا پھر عزیز و اقارب اور قریبی دوستوں میں بانٹ دیا جاتا ہے اور غریب وپسے ہوئے طبقات کے لوگ گوشت سے ہر سال کی طرح محروم ہی رہ جاتے ہیں ۔ کوئی چھیچڑے ہڈیاں یا ایک آدھ بوٹی حاصل ہو بھی گئی تو وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہے اورغریبوں کو بدستور دال سبزی سے ہی عید کا دن گزارنا پڑتا ہے۔ حالانکہ اس طرح سے جانوروں کے ذبح کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ خدا کے گھر میں یہ قربانی بھی قابل قبول نہ ہو مگر بڑے بڑے نو دولتیے سود خور سرمایہ دار ظالم و جابر وڈیرے اور بدقماش جاگیردار صرف اپنی ظا ہری جھوٹی شان و شوکت اور نچلے طبقات پر اپنا رعب داب قائم رکھنے کے لیے ہی جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں ۔ ان میں سے غرباء کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رکھتے کہ انہوں نے تو ہر دوست اور رشتہ دار کے گھروں میں سالم ران بھجوا کر اپنا طرہ بلند رکھنا ہوتا ہے۔
رانوں اور دستیوں کی ابھی سے لسٹیں تیار کرلی گئی ہیں ، اسی طرح جن کو یہ بھجوائیں گے انہوں نے بھی واپسی ان کو اعلیٰ گوشت ہی بجھوانا ہے۔ اس طرح قربانی کا گوشت اوپر ہی اوپر بڑے لوگوں اور سرمایہ داروں کے گھروں میں ہی گھومتا اور اس کا لین دین ہوتا رہتا ہے۔ حالانکہ گوشت ذبح کرکے سارا ملا کر ہی اس میں سے اپنا حصہ ،اپنے عزیز و اقارب اور غرباء کابھی نکالا جانا چاہیے ۔ اس لیے ایسی قربانیاں صرف گوشت کھانے کی حد تک محدود ہو جاتی ہیں ۔اور عظیم قربانی کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا۔
پھر ان دنوں پولیس بالخصوص ٹریفک والے جب کسی موٹر سائیکل ویگن ٹریکٹر وغیرہ کو روکتے ہیں توعام دنوں کی نسبت کئی گنا زیادہ رشوت کی رقم طلب کرتے ہیں ۔کوئی اللہ کا بندہ ان سے پوچھ ہی لے کہ بھائی چند روز قبل تو آپ 100,150روپے لے کرہماری جان خلاصی کردیتے تھے تو اب یہ پانچ سو روپے کا نوٹ کیوں طلب کیا جارہا ہے۔ پولیس والے بڑی معصومیت اور ڈھٹائی سے فرماتے ہیں کہ عید آگئی ہے اسیں بکرانہیں لینا ۔”ہم نے بھی تو قربانی کرنی ہے اس لیے نکالو پانچ سو روپے ‘‘ اب ذرا کرپٹ افراد کی قربانی کا تصور دیکھیں کہ جہاں سے بھی جیسے بھی حرام مال دستیاب ہو، اس سے بکرا وغیرہ خرید کر قربانی کردینا ہی ضروری خیال کرتے ہیں ۔
اسی طرح لوگوں نے لاکھوں روپے قرض لے رکھے ہوتے ہیں حالانکہ قریبی دوست احباب اور ہمسایوں کا بھی قرضہ دینا ہوتا ہے مگر پھر بھی قربانی کا جانور ذبح کرنے پر تلے ہوتے ہیں ۔حالانکہ قرض دارجب تک اپنا حساب بیباق نہ کرے وہ کیسے قربانی کرسکتا ہے؟ یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے کیا جارہا ہوتا ہے ۔حلال کمائی اور حلال روپوں کی صورت میں جمع پونجی سے ہی اللہ کی راہ میں قربانی کرنے ہی میں عظمت ہے ۔ظاہری شان و شوکت کے لیے اور اُدھار وغیرہ لیکرقربانی کے جانور خریدنا اور انھیں ذبح کرکے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی روایت پورا ہونا ناممکن ہے۔ خدائے عز وجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حلال کمائی کرنے اور دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام سود سے چھٹکارا پانے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمیں اسلا م کی عظیم روایات پر عمل کی توفیق دے تاکہ ہم دنیا و آخرت میں سر خرو ہوسکیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر