... loading ...
میں ڈاکٹررتھ فاؤکی موت پرجان بوجھ کردیرسے لکھ رہاہوں ۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارامیڈیابڑابدمعاش ہے۔ یہ کسی واقعہ کے ہونے پرایک ایساپروپیگنڈا کرتاہے جس سے اچھے اچھے لوگ اپنادماغ اس میڈیا کے پاس جمع کروادیتے ہیں اوران کی رائے وہی ہوتی ہے جوٹی وی پرنظرآتی ہے ۔وہ وہی الفاظ،خیالات اورجذبات کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں جوان کے ذاتی نہیں ہوتے بلکہ لوگ یہ جذبات اورخیالات میڈیا سے ادھارلیتے ہیں ۔
میڈیاکسی معمولی سے واقعہ کوایساہولناک بنادیتاہے کہ اس کے سامنے اسی روزکوئی بہت بڑاسانحہ بھی معمولی لگتاہے ۔اس کی مثال ہم مشال خان قتل کیس سے لے سکتے ہیں ۔جس روزیہ لڑکاقتل ہوااسی روزدنیامیں دوبڑے واقعات پیش آئے اوران دوواقعات کے اثرات تاریخ سازاہمیت رکھتے تھے مگرمیڈیانے ان دوواقعات کے مقابلے میں مشال خان کے واقعے کوایسے پیش کیاکہ آج لوگوں کومشال خان کے قتل والے روزکوئی دوسرااہم واقعہ یادتک نہیں ہوگا۔اُن دو واقعات میں سے ایک تو یہ تھا کہ اسی روزامریکانے افغانستان میں مدربم گرایاجس سے کئی فٹ گہراگڑھاپڑگیااورسینکڑوں لوگ موقع پرمارے گئے جبکہ اس بم کے اثرات سے پھیلنے والی تباہی کاریکارڈجمع کرنے میں سالوں لگیں گے ۔یہ دنیاکاسب سے وزنی غیرایٹمی بم تھامگرکیاکسی کویادہے کہ یہ بم اسی روزگرایاگیاجس روزمشال خان قتل ہوا؟نہیں یادکیوں کہ میڈیانے اس خبرکوقتل کردیا۔اس خبرکازہرنکال دیاکیونکہ یہ بم آزادی کے ’’عقیدے ‘‘کے دفاع کے لیے گرایاگیاتھا۔دوسراواقعہ امریکی عدالت میں ایک خاتون جج کاقتل تھا۔تصورکریں کہ اگر یہ قتل پاکستان میں کسی خاتون جج کاہوتاتومیڈیااوراین جی اوز بال کھول کر بین کرنے والی مائی کی طرح چیختے چلاتے سڑکوں پرنکل آتے مگرکیونکہ یہ قتل امریکا میں ہواتھااس لیے تمام بدمعاش خاموش رہے اوراس خبر کومعمولی خبربناکرپیش کیاگیاجبکہ اس کے مقابلے میں مشال خان کے قتل کوقومی سانحہ کے طورپرپیش کیاگیا۔
اس تفصیل میں جانے کامقصد یہ تھاکہ رتھ فاؤصاحبہ کی موت کے وقت اگرمضمون لکھاجاتاتولوگ شاید جذباتی کیفیت کی وجہ سے سنجیدگی سے نہ لیتے اورکہہ دیتے کہ یہ توبس تنقید کرتے ہیں ان کاکام ہی تنقید کرناہے وغیرہ وغیرہ ۔خیراصل موضوع کی طرف آتے ہیں سوال یہ ہے کہ ڈاکٹررتھ فاؤکومرنے کے بعدجوپروٹوکول ملا،جوعزت ملی، اس کاتعلق ایک اسلامی ریاست کے ساتھ کیسے ہوسکتاہے ؟کیاایک اسلامی مملکت کسی غیرمسلم کے مرنے پراتنی جذباتی ہوسکتی ہے ؟ڈاکٹررتھ فاؤکوان کی زندگی میں نشانِ قائد اعظم ،ہلالِ پاکستان، ہلالِ امتیازکے علاوہ کئی سول اعزازات سے نوازاجاچکاتھا۔پھران کی آخری رسومات اس شاندارطریقے سے مسلمانوں نے کیوں منائی ؟پاکستان میں جس عقیدت اوراحترام کے ساتھ دوشخصیات کی آخری رسومات اداکی گئی ہیں وہ اعزازان سے پہلے کسی کونصیب نہیں ہوا۔ایک مرحوم ایدھی صاحب اوردوسری محترمہ رتھ فاؤہیں ۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ آیااسلام میں کسی غیرمسلم کی آخری رسومات میں شرکت کرنااس کی میت کے ساتھ ساتھ چلنااس کے جنازے کے پاس غم کی تصویربن کرکھڑے رہنااس کی تعظیم میں سرجھکانااس کے ساتھ اظہاریکجہتی کرنے کے لیے اس کی عبادت گاہ چلے جانااس کاآخری دیدارکرنے کی کوشش کرنے جیسے معاملات کااسلام سے کیاتعلق ہے ؟ان تمام سوالات کے جوابات مانگناعلمائے کرام کاکام تھا،یاعلمائے کرام اس معاملے پراپنی رائے کااظہارکرتے ۔وہ علمائے کرام جوبکری کے مرنے پراپنی رائے کااظہارکرنے سے بازنہیں رہتے وہ اس معاملے پرایسے گم ہیں جیسے دن کی روشنی میں تارے ۔یہ جوکچھ ہورہاہے اوراس پرجس طرح کی غفلت لاپرواہی اورمجرمانہ خاموشی کامظاہرہ علمائے کرام کررہے ہیں تاریخ ان کوکبھی معاف نہیں کرے گی۔ امام مالکؒکا ماننا تھاکہ ہر سوال کا جواب دینا ایک عالم کے لیے فرض نہیں ہوتا مگر آج کے زمانے کے بعض علماء کو یہ قول قبول نہیں ۔ جوعلماء ویناملک کی شوہرسے صلح کرواتے ہیں ، وہ مولوی صاحبان جونرگس کوحج پرلے جاتے ہیں اوروہ علماء جوہرمسئلے پراسلام کودرمیان میں لے آتے ہیں ،وہ یہاں بھی اظہارخیال کرتے نا؟یہاں پرجلتے ہیں ؟
ہم محترمہ رتھ فاؤپربات مذہب کوبنیادبناکر نہیں کریں گے ۔یہ فریضہ علمائے کرام کاہے اورانہیں ضروراداکرناچاہیے تھا۔ہم بات کرینگے کہ اس ریاستی عقیدت اوراحترام کی جو ایک مرتبہ پھر سامنے آیا اور ہم بات کریں گے اس کے پیچھے جوسوچ اورفکریا جونظریہ اورعقیدہ چھپاہواہے وہ کیاہے ؟ڈاکٹررتھ فاؤاورعبدالستارایدھی صاحب دونوں اچھے لوگ تھے۔ نرم دل رکھتے تھے اوردکھی انسانوں کی مددکرتے تھے ۔مگران دونوں کومعلوم نہیں تھاوہ اس جدیددنیاکے پیغمبرہیں ۔جدیدریاست میں جوشخص ریاست کے پیداکردہ مسائل کے حل میں اپناکرداراداکرتاہے ۔اورریاست کے فرائض کواپنے ذمہ لیتاہے ریاست اس کے مرنے پراس کااسی طرح شکریہ اداکرتی ہے ۔کسی بھی معاشرے میں دوطرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک جولوگوں کی ظاہری، مادی زندگی کے لطف کوبحال رکھنے اوردوبالاکرنے میں اپناکرداراداکرتے ہیں ۔یہ لوگ ڈاکٹر،انجینئریاسائنسداں بھی ہوسکتے ہیں ۔دوسراطبقہ ہوتاہے ان لوگوں کاجومعاشرے کے لوگوں کی روحانی باطنی بیماریوں کاعلاج کرتے ہیں ۔ان کے عقیدے کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہ حضرات لوگوں کی آخرت کوسنوارتے ہیں ۔ان کودنیاعلماء ،مشائخ ،صوفی ،ولی کے القابات سے جانتی ہے ۔دونوں طرح کے لوگوں کے عمل کامیدان انسان کی زندگی ہوتاہے مگردونوں طرح کے لوگوں کے نظریے میں زمین اورآسمان کافرق ہوتاہے ۔جولوگ کسی انسان کی باطنی دنیاکوسنوارنے اورسنبھالنے کی ذمہ داری لیتے ہیں ۔جدیدریاست کے لیے ایسے لوگوں غیراہم ہوتے ہیں ۔ریاست ایسے لوگوں سے کوئی کلام نہیں کرتی ۔جبکہ اس کے مقابلے میں جوحضرات لوگوں کی ظاہری دنیاکوچارچاندلگانے اورسنوارنے کاکام کرتے ہیں ،ریاست ان کوجیتے جی بھی قبول کرتی ہے اورمرنے کے بعدبھی عزت سے نوازتی ہے ۔کیونکہ یہی لوگ درحقیقت ریاست کی بقاء اورسلامتی میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔
جدیدریاست کے تین عقیدے ہیں ۔آزادی ،مساوات اورترقی ۔آزادی کے لیے ضروری ہے کہ کوئی شخص مکمل صحت مند ہو۔تاکہ وہ دنیا کو زیادہ اچھے طریقے سے انجوائے کرسکے۔ جدیدریاست جب اپنے تیسرے عقیدے ترقی کوحاصل کرنے کے لیے صنعتیں لگاتی ہے تواس کے نتیجے میں بیماریوں کاایک ایساسونامی آتاہے جوسنبھالنااکیلی ریاست کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔اورالمیہ یہ ہوتاہے کہ صنعتی ترقی سے پیداہونے والی بیماریوں کے بارے میں ریاست کوپیشگی علم بھی نہیں ہوتا۔جب بیماریاں یلغارکرتی ہیں اس وقت عبدالستارایدھی اورڈاکٹررتھ فاؤجیسے لوگ آگے بڑھتے ہیں اورریاست کاکام اپنے ذمہ لیتے ہیں ۔لہذاریاست ایسے لوگوں کاماتھا جیتے جی بھی چومتی ہے اورمرنے کے بعدبھی۔ ترقی کے نتیجے میں شوکت خانم لاہوربنتاہے پھرکراچی اورپھرشوکت خانم پشاوربنتا ہے۔شوکت خانم کھلنے کامطلب یہ نہیں ہوتاکہ کینسرکاعلاج ہوجائے گابلکہ اس کامطلب ہوتاہے کہ اب کینسرلاعلاج ہوجائے گا۔ترقی سے پیداہونے والی بیماریوں کوکنٹرول کرنے کے لیے انڈس اسپتال اورSIUT اسپتالپیداہوتے ہیں ۔اوربے شمارخیراتی ادارے جنم لیتے ہیں ۔ایدھی صاحب نے ساری زندگی محنت کی مگراس محنت سے بھکاری کم نہیں ہوئے بلکہ اب ،چھیپا،سیلانی ،عالمگیر،الخدمت اوربے شمار چھوٹے چھوٹے ایدھی پیداہوچکے ہیں ۔اوریہ تمام مخیرحضرات اس جدیدریاست کے لیے پیغمبرکا درجہ رکھتے ہیں ۔ ان کا مذہب، رنگ ونسل، ملک وملت اور قومیت ریاست کے لیے غیر اہم ہوتے ہیں ،کسی بھی ترقی یافتہ ریاست یاترقی کی خواہش رکھنے والی ریاست کی پارلیمنٹ کاصرف ایک کام ہوتاہے کہ عوام کی مادی خوشی میں اضافہ کرنا۔دراصل پارلیمنٹ صرف یہ ایک کام کرتی ہیں جبکہ اس جدیدریاست کے مقابلے میں قدیم سوسائٹی میں اول تو اتنی بیماریاں ہوتی ہی نہیں تھیں اوراگربیماریاں ہوتی تھیں تووہ عالمگیرنہیں ہوتی تھیں ۔آج کاانسان جب موہنجوداڑوکے کھنڈرات دیکھتاہے توبے اختیاریہ سوال کرتاہے کہ یہاں کی گلیاں اتنی تنگ کیوں ہیں وہ یہ سوچنے اورسمجھنے سے قاصر ہے کہ موہنجوداڑوکے لوگ صحت مندتھے۔ لہذا وہاں کسی گلی میں کبھی ایمبولینس کے آنے کی نوبت پیش نہیں آئی جس کے لیے چوڑی گلی کی ضرورت ہوتی۔ دوسرا اگر کوئی اس تہذیب میں بیمار ہوتا تھا تو طبیب خود چل کر اس کے گھر آتا تھا اور اس عمل کو اپنا فریضہ سمجھ کر انجام دیتا۔ اس زمانے میں میڈیکل انڈسٹری کا ظہور نہیں ہوا تھا لہٰذا طبیب انسان تھے سرمایہ دار نہیں ۔
جدید بیماریوں کا سبب ماڈرن ازم اور ماڈرن طرز زندگی ہے، سویلائزیشن ہے۔ اور جدید ریاست ان تمام بیماریوں سے اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ان کی مدد کرنے کے لیے مادیت کے پیغمبر سامنے آتے ہیں ۔ جدید ریاست اس سوال کا جواب نہیں دیتی کہ مسئلہ پیدا کس نے کیا ہے ۔وہ صرف اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ مسئلہ حل کیسے کیا جائے۔SIUT میں گردے صاف کیے جاتے ہیں مگر گردے گندے کس کی وجہ سے ہوئے اس کا جواب تلاش نہیں کیا جاتا۔کیونکہ جہاں بھی انڈسٹری لگے گی وہاں پانی گندا ہوگا اور لوگ مریں گے ۔ لہذاجوکوئی لوگوں کواس نظام پران کے ایمان کومتزلزل کیے بغیرزندہ رکھنے کی کوشش میں ریاست کاساتھ دے گاریاست اس کورتھ فاؤاورایدھی جیساپروقاراختتام دے گی۔ان کے مقابلے میں ہزاروں لاکھوں شاگردرکھنے والاعالم،ولی اورصوفی جدیدریاست کے لیے غیراہم ہے کیونکہ ریاست کاعقیدہ ہے آزادی ،مساوات اورترقی ،ان ہی عقائد کے نتیجے میں ایک ماڈرن ، پڑھا لکھا، سمجھدار اور جدید عملیت کے مطابق عقل مندانسان پیداہوتاہے ۔وہ مذہبی لوگ جو لوگوں کی باطنی اور روحانی تربیت کرتے ہیں یا لوگوں کی روحانی بیماریوں کا علاج کرکے ان کی آخرت بچاتے ہیں جدید ریاست کے لیے ایسے لوگ کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ جدید ریاست کا آخرت پر ایمان ہی نہیں ہے۔ اس کے نزدیک آخرت ایک غیر اہم بحث ہے علمائے کرام اور ولیوں موجودگی سے جدید ترقی یافتہ ریاست کے پھلنے پھولنے کے امکانات محدود ہوتے ہیں ۔یہ حضرات سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔البتہ اگر چند علماء سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کے حامی ہوں تو ریاست ان کو بھی گلے لگاسکتی ہے۔ایدھی اورڈاکٹررتھ فاؤجدیدریاست بچاؤمہم قافلے کے آخری شہیدنہیں ہیں بلکہ اس قافلے کے بدری ہیں ۔مسلمان اورصاحب ایمان حضرات ریاست کی طرف سے ایساپروٹوکول دیکھ کردل چھوٹانہ کیاکریں ۔نہ ہی وہ یہ سوچیں کہ ریاست جذباتی ہوگئی تھی۔ ریاست جذباتی نہیں ہوتی ۔بلکہ وہ ہرکام اپنے عقیدے کی روشنی میں کرتی ہے۔ اب اگر وہ عقیدہ ہمیں معلوم نہ ہوتو اس میں جدید ریاست کا کیا قصور ہے ؟،لبرل، ڈیموکریٹک اورماڈرن، ویلفیئر اسٹیٹ اپنے پیغمبروں کوایسے ہی رخصت کرتی ہے ۔اوررتھ فاؤبھی اسی علمیت اورعقیدے کی پیغمبرتھیں ۔