... loading ...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حسب سابق پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں حالات کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔یہ مطالبہ نہ تو نیا ہے نہ ہی اس میں اچنبھے کی کوئی بات ہے ۔2001میں ہونے والے 9/11کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر یلغار کی اس دن سے یہ مطالبہ مسلسل دہرایا جارہا ہے ۔ بش جونیئر کے دورمیں شروع ہونے والی جنگ میں اگرچہ اوباماکے دور میں کچھ کمی آئی تھی لیکن ڈونلڈٹرمپ نے اس میں مزید شدت کا عندیہ دیا ہے اور پاکستان کو دھمکی آمیز پیغام دیا ہے کہ وہ افغانستان میں حالات کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرے۔ پاکستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کی جائیں ورنہ امریکی امداد روک لی جائے گی اور پاکستان کو پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
اب امریکی صدر کو یہ کون سمجھائے کہ وہ جنگ جو بش جونیئر نے شروع کی تھی اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی امریکی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ افغانستان ایک آزاداور خودمختار ملک ہے جس کی اپنی حکومت ہے جو امریکی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے۔ اشرف غنی ہوں یا عبداللہ عبداللہ سب ہی امریکی کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈوریں پینٹاگون اور واشنگٹن سے ہلائی جاتی ہیں ۔ افغانستان میں امریکی فوج موجود ہے اور پاکستان نے اپنی بساط سے زیادہ اس جنگ میں مدد کی ہے جس کا نتیجہ کھربوں ڈالر کے نقصان کی صورت میں دیکھنا پڑا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی جو لہر ہے وہ بھی اسی جنگ کا نتیجہ ہے۔
افغانستان کی موجودہ حالت صدیوں سے جاری ہے، کابل میں حکومت تو ہوتی ہے حکومتی رٹ نہیں ہوتی ۔افغانستان فطری طور پر تین حصوں میں بٹا ہواہے۔ شمالی علاقہ ازبک اور تاجک ،جنوبی علاقہ فارسی ،وسطی اور مشرقی پشتون بولنے والوں کی اکثریت کا حامل ہے اور ان تمام میں اختلافات نئے نہیں ہیں ۔ پور ا افغانستان قبائلی نظام کے زیراثر ہے، کابل میں کسی کی بھی حکومت ہوہرقبائلی علاقہ اپنے سردار کے زیراثر ہے۔ حکم وہی چلتا ہے جو سردار دیتا ہے۔ افغانستان کا اسلامی تشخص بھی نیا نہیں ہے اور یہاں قبضہ کرنے اور حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والوں کا انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔
روس کی جانب سے افغانستان میں داخلے اور اس پر قبضے کی کوشش سے قبل ،تاج برطانیا بھی یہاں قبضہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے اور عبرتناک انجام سے دوچار ہواہے ۔یہ وہی تاج برطانیا ہے جس کا سکہ صرف برطانیا میں ہی نہیں آسڑیلیا،نیوزی لینڈ سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں چلا جاتا تھا اور تاریخ میں پڑھا ہے کہ برطانیا وہ مملکت تھی کہ جس کے پرچم پر ہر وقت سورج موجود رہتا تھا لیکن جب اس نے افغانستان میں داخل ہونے کی حماقت کی تو اس کا جو زوال شروع ہوا وہ اس حد تک پہنچا کہ اب برطانیا کے باشندے اپنے پرچم پر سورج کی کرنیں دیکھنے کے لیے ترستے رہتے ہیں ۔
روس کے افغانستان میں داخلے سے قبل بھی وارلارڈز موجود تو تھے لیکن اس وقت تک اتنے قوی نہیں ہوئے تھے اور ان کی اکثریت کے پاس خودساختہ اسلحہ تھا لیکن روس کی افغانستان میں مداخلت کے ساتھ ہی جدید اسلحہ کی فراوانی ہو گئی۔ اس جدید اسلحہ میں روسی ساختہ کے ساتھ ساتھ امریکی ساختہ اسلحہ بھی شامل ہے جب 9/11 کے بعد امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وار لارڈز بھی ناصرف پوری طرح مسلح تھے بلکہ جدید امریکی اسلحہ کا استعمال اور مخالف کی جانب سے استعمال کی صورت میں بچاؤ کے طریقہ سے بھی آگاہ تھے ۔یوں روس کی طرح افغانستان پر قبضہ کا امریکی خواب بھی پارہ پارہ ہو گیا۔ 16 سال گزرنے اوراتحادی ممالک کے بڑے جانی نقصان کے باوجود قبضہ کا خواب پورا نہیں ہو سکا ہے اور امریکا میں اندرونی طور پر اس جنگ کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ امریکیوں کے خیال میں افغانستان امریکا کے لیے دوسرا ویت نام ثابت ہو رہا ہے اور یہاں سے جس قدر جلدی نکلا جا سکتا ہے اتناہی اس کے لیے بہتر ہے اور اوبا ما نے یہی پالیسی اختیار کی تھی لیکن جب سے ڈونلڈٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے ان کے ذہن میں ایک خناس سمایا ہوا ہے کہ افغانستان پر قبضہ ہر قیمت پر ضروری ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہیں ۔ بش اور اوباما بھی علاقہ میں بھارت کی بالادستی چاہتے تھے لیکن اس طرح سے کھل کر اظہار کبھی نہیں کیا تھا جو انداز ٹرمپ نے اپنایا ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکی دھمکی کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ امریکی سفیر کو طلب کرتی اور اس دھمکی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی لیکن دفتر خارجہ میں کوئی بھی ایسانہیں جو امریکی سفیر کو طلب کرنے اور احتجاج ریکارڈ کرانے کی ہمت کر سکے۔ جب سفارتی میدان میں وزارت خارجہ ناکام نظرآئی تو یہ میدان بھی آرمی چیف نے سنبھالا اور امریکی سفیر کو آڑے ہاتھوں لیا دوسری جانب پہلے چین پھر روس اور بعدازاں ایران نے امریکا کو کرارا جواب دیا ہے جس نے ٹرمپ انتظامیہ کے طوطے اُڑا دیے ہیں ۔ امریکا کو امید نہیں تھی کہ وہ روس بھی جس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں پاکستان کا بنیادی کردار ہے پاکستان کی حمایت میں اس طرح سے اُٹھ کھڑا ہو گا۔ چین کا معاملہ تو مختلف ہے چین تو 1948 سے ہی پاکستان کا حامی ومددگار ہے اور ہر بُرے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیتا آیا ہے ۔ اس لیے اس امریکی دھمکی پر چین کا خاموش رہنا ممکن نہ تھا ،پاکستان نے روسی دعوت مسترد کر کے امریکی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کیا لیکن امریکا نے اس کا کیا صلہ دیا ہے؟ ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔ 65کی جنگ ہو یا 71 کا معاملہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان کا اتحادی ہونے کے باوجود بھارت کی مدد کی ہے اور اب تو وہ کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ وہ بھارت کو اس خطہ میں اہم کردار دینا چاہتا ہے۔ گویاوہ ایک سپرپاور نہ ہوا فلم کا ڈائریکٹر وپروڈیوسر ہو گیا کہ کس کو کیاکردار دینا ہے؟ امریکا جس بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے وہ بھارت تو اس شوق میں اندھا ہے اور نہیں دیکھ رہا کہ اس شوق کی اسے کیاقیمت چکانا پڑ سکتی ہے؟ بھارتی نیتاؤں کو غور کرنا چاہیے کہ اس کی 37میں سے 31 ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جن میں چین اور پاکستان کی سرحدوں سے ملحقہ ریاستیں بھی شامل ہیں ۔ ریاست کا یہ تصور بھی ایشیا میں بالکل مختلف ہے، ایشیائی ممالک میں فیڈریشن کی اکائیوں کو صوبہ کے نام سے یادکیا جاتا ہے۔ ریاست کا تصور امریکی ہے اور امریکا ریاست ہائے متحدہ ہے جس میں 51 ریاستیں شامل ہیں ۔ یہ ریاستیں خودمختار بھی ہیں اور بہت سے معاملات میں واشنگٹن اور پینٹاگون کی پالیسیوں کے خلاف بھی عملدرآمد کرتی رہتی ہیں ۔ بھارت کی ریاستوں جھاڑکھنڈ ،آسام،اترانچل پردیش ،ہریانہ،تامل ناڈو، میزورام،ناگالینڈ اور مشرقی پنجاب سمیت اکثر ریاستیں اب بھارتی اکائی میں رہنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔
امریکا نے پاکستان کو جو دھمکی دی ہے اور پاکستان کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ غیرمتوقع نہیں ہے جب اللہ کے بجائے امریکا سے ڈرنے والے اور امریکا کو اقتدار و اختیار دینے کا مرکز جانتے ہوں وہ کس طرح کسی سخت ردعمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں ۔ پاکستان میں موجود حکمران جو خود کو مسلمان کہتے ہیں کیوبا کے فیڈرل کاسترو سے بھی کمزور ہے ۔پاکستان امریکا سے کم وبیش 9 ہزار میل کے فاصلہ پر ہے اور زمینی طور پر پاکستان پر حملہ ممکن نہیں ہے جبکہ کیوبا اور امریکا کے درمیان صرف 70 میل کی سمندری پٹی ہے جس کے ایک ساحل سے دوسرے ساحل پر گولہ باری ناممکن نہیں ہے۔ اسی طرح شمالی کوریا بھی امریکی اڈے جو جنوبی کوریا میں موجود ہیں کی موجودگی کے باوجود ڈٹ کر کھڑا ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے کہ ہمت ہے تو حملہ کر کے دیکھو پھر کس کا کیا انجام ہوتا ہے وہ دیکھنے کے لیے تیار رہو۔ اسی طرح ایران نے بھی امریکا کے معاملہ میں جو انداز اپنایا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ نہ کیوبا ،نہ شمالی کوریا اور نہ ہی ایران ایٹمی قوت ہیں لیکن حمیت کے جذبے سے سرشار ہیں اور یہ وہ جذبہ ہے جو بھاری بھرکم اور جدید اسلحہ پر بھی بھاری پڑ جاتا ہے۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ روس جہاں بھی داخل ہوا وہاں اسے جنگ کا سامنا کرنا نہیں پڑا ۔یہاں تک کہ افغانستان میں داخلے سے قبل روس نے آخری فوج کشی جو کی تھی وہ اسلحہ برآمد کرنے والے ملک پولینڈ پر تھی۔ یہ واقعہ افغانستان پر روسی فوج کشی سے 9 سال قبل کا ہے لیکن اسلحہ برآمد کرنے والے پولینڈ میں روسی سپاہیوں کو کسی مزاحمت کا سامنا تو کیا کرنا پڑتا، سرحد پر موجود پولینڈ کے سپاہیوں نے پولینڈ کی سرحدوں کی حرمت کو پامال کرتے روسی سپاہیوں کا گلاب کی پتیوں سے استقبال کیا تھا لیکن افغانستان میں تو قبائلی سرداروں کے پاس خودساختہ اسلحہ کے سوا کیا تھا ؟لیکن اپنے وطن کی مٹی کی حرمت کا احساس اور اس کے تحفظ کا جذبہ اتنا بلند تھا کہ روس کو عبرتناک شکست کا سامنا کرناپڑا ۔آج دنیا کے نقشہ پر یوایس ایس آر نامی کسی ملک کا وجود نہیں ۔ بس ایک جذبہ چاہیے وہ زندہ ہو تو بڑی سے بڑی طاقت کو دھول چٹائی جاسکتی ہے ورنہ داستان بھی نہیں رہتی داستانوں میں ۔اب اربابِ اختیار کونسا راستا اختیار کرتے ہیں یہ فیصلہ بھی وہی کرینگے آرمی چیف نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ۔
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم