وجود

... loading ...

وجود

بھارت کو پاکستان اور چین کے خلاف استعمال کیا جائے گا!

بدھ 30 اگست 2017 بھارت کو پاکستان اور چین کے خلاف استعمال کیا جائے گا!

(گزشتہ سے پیوستہ)
امریکا اور اس کے یورپین اتحادیوں نے اسی ایک مقصد کے لیے اپنے پرانے خادم حسنی مبارک کے تیس سالہ دور اقتدار کو قربان کیا تھا اور اخوانیوں کو مصر کی حکومت میں صرف اس لیے قبول کیا تھا تاکہ باقی عرب ملکوں کی حکومتوں کو اسلامی تحریکوں سے خوفزدہ کیا جاسکے اور فی الواقع ایسا ہی ہوا ۔اس کے ساتھ ساتھ عالم عرب میں ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے حکومتوں کا تختہ الٹنے کی جو تحریکیں شروع ہوئیں۔ اُنہوں نے عرب حکمرانوں کو مزید خوفزدہ کردیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب اسرائیل کے حقیقی دشمنوں کے خلاف اسرائیل کو معمولی سی زحمت بھی نہ کرنا پڑی تھی بلکہ یہ کام وہ عرب حکومتیں اپنے تحفظ کے نام پر کرنے پر تل گئیں جو کبھی ان اسلامی تحریکوں کی اسرائیل کے خلاف پشتیبان ہوا کرتی تھیں۔یہ وہ بدقسمت لمحہ تھا جب عرب اتحاد صحرا ربع الخالی کی ریت کی مانند ان کے ہاتھوں سے پھسلنے لگا ۔اس سے پہلے عراق میں بُری طرح مار کھانے کے بعد امریکا اور اس کے دجالی اتحادیوں نے خطے میں مسلک کی بنیاد پر فتنہ پیدا کرنے کے لیے عراق کوطشتری میں رکھ کر ایران کو پیش کردیاجس نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔
ایک طرف ایران نواز شامی حکومت کے خلاف بغاوت کرائی گئی تو دوسری جانب ایران کو شامی حکومت کی مدد کے لیے پیٹھ ٹھونک دی کہ اگر دمشق پرسنی انقلابی قابض ہوگئے تو ایران خطے میں ایک بڑے حلیف سے محروم ہوجائے گا ۔آج وہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اسی طرح یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت سے عدن کے خلاف بغاوت پر اُکسایا گیا تو دوسری جانب ان کے خلاف عرب اتحاد کو عسکری کارروائیوں کے لیے میدان مہیا کردیا گیا ۔یوں تمام مشرق وسطی مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ ایرانی اس د ھوکے میں مبتلا ہیں کہ بغداد، دمشق، عدن اور بیروت کی شکل میں چار عرب دارالحکومت اس کی جیب میں آچکے ہیںجس کے تناظر میں اس نے قدیم فارسی سلطنت کے خواب دیکھنے شروع کردیے تو دوسری جانب طیب اردگان کے اقتدار پر گرفت مضبوط ہوجانے کے بعد سنی مسلمانوں کو خلافت عثمانیہ کا اعادہ ہوتا نظر آنے لگاجس میں عربوں کاایران پر غلبہ بھی شامل ہے لیکن فی الواقع یہ صرف خواب ہی ہیں جنہیں صہیونی مغرب کی دانش گاہوں میں تراش کر مسلمانوں کی آنکھوں میں سجا دیا گیا ہے۔ حقیقت کے پردے میں چھپی ہوئی تعبیر اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے ۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں ایسا ہونے جارہا ہے جو نہ ایران کو قابل قبول ہوگا اور نہ ہی عراق وشام اور ترکی کو اس سلسلے میں ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ان چاروں ملکوں کے درمیان منقسم کردستان کے علاقے کو عالمی صہیونی دجالیت کردستان کی آزاد ریاست بنانے جارہی ہے تاکہ یہاں پر مغرب نواز حکومت مسلط کرواکرنیٹو اور اسرائیل محفوظ عسکری اڈے بنائے جائیں اور میزائل شیلڈ پروگرام کے تحت یہاں بلاسٹ میزائلوں کو انٹر سیپٹ کرنے والا میزائل سسٹم نصب کیا جاسکے تاکہ جس وقت مشرق وسطی پر اسرائیلی سیادت کا اعلان کیا جائے اور چین اور روس جیسی عسکری اور معاشی قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے تیل کی سپلائی روکی جائے تو روسی ردعمل کے نتیجے میں اسرائیل کی جانب روسی میزائلوں کو راستے میں تباہ کرنے کے لیے میزائل شیلڈ نظام پہلے سے نصب ہو۔
پاکستان کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ بھارت ہمارے خطے میں اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور ان دونوں اسلام اور پاکستان دشمن ملکوں کے عسکری اور سفارتی تعلقات کوئی راز نہیں ہیں۔ امریکا، مغرب اور اسرائیل کو ایک طرف اگر یہ خدشہ ہے کہ اسرائیلی بالادستی کو روس اور چین کی جانب سے بڑی مزاحمت کا سامنا ہوگا تو اس بات کا بھی خوف ہے کہ پاکستان اسرائیل کے خلاف اپنے عرب دوستوں کو جوہری ہتھیار تک فراہم کرنے سے نہیں چونکے گا ۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں بیٹھ کر سارا زور پاکستان کو کمزور کرنے اور یہاں پر وہی کھیل کھیلنے میں صرف کیا گیا جو مشرق وسطی میں کیا گیا ہے یعنی اسلام کا نام لینے والی تنظیموں کو پاکستان کے عسکری اداروں سے لڑا دیا جائے اور اس کے بعد دنیا کو اس خوف میں مبتلا کیا جائے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اگر ان انتہاپسند تنظیموں کے ہاتھ لگ گئے تو دنیا کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے گا ۔یہ دجالی منصوبے کا ایک رخ تھا دوسرارخ وطن عزیز کو کرپٹ سیاستدان اشرافیہ کے ذریعے معاشی طور پر اس قدر بدحال کردینا تھا کہ وہ دیوالیہ کی حد تک پہنچ جائے، جیسا کہ سوویت یونین کے خلاف کیا گیا۔ وہاں ہزاروں جوہری ہتھیار تو تھے لیکن کھانے کے لیے دُکانوں پر ڈبل روٹی نہیں تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان کے عسکری اداروں نے عسکری دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کرکے اور بے شمار قربانیاں دے کر اس دجالی منصوبے کو تقریبا ناکام بنا دیا ہے۔ اب مرحلہ ہے معاشی دہشت گردوں سے نمٹنے کاجن کے خلاف کڑا اور بے رحم احتساب ہی مسئلے کا حقیقی حل ہے کیونکہ دشمن کا اس رخ سے حملہ انتہائی خطرناک ہے اگر اس میں مکمل طور پر کامیابی حاصل نہ کی گئی تو عسکری دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی کامیابی ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ اس حوالے سے ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کرکے مغرب میں پڑی ہوئی تقریبا دوہزار بلین ڈالر کی لوٹی ہوئی دولت کو وطن واپس لانے کے لیے تمام معاشی دہشت گردوں کو بلا تمیز جیلوں میں ڈالا جائے اور ان سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو نکلوایا جائے۔ اس سارے تناظر میں عام انتخابات کو موخر کرکے یہاں پانچ برس کے لیے ایک ایسی عبوری حکومتی انتظامیہ تشکیل دی جائے جو ایماندار اور وطن عزیز کے لیے درددل رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔اسی صورت میں ہم آنے والے بحرانوں کا کامیابی کے ساتھ سامنا کرسکیں گے ورنہ ہمارے سامنے مشرق وسطیٰ کے بسے بسائے کئی ملک نشان عبرت ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر