... loading ...
عید الفطر ہو یا عید الاضحی مسلمانوں کے لیے دونوں یکساں طور پر مقدس ہیں اور دونوں کا پیغام وپیام ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور ان کے نفاذ کے لیے جدوجہد اور آخری درجہ کی قربانی کا واضح اظہار ۔اُمت مسلمہ عید الاضحی’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں‘‘ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے مناتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرماتے ہوئے حکم دیا کہ اے ابراہیم گمراہ انسانوں کو راہ ہدایت کی جانب دعوت دیدو۔حضرتؐ کے زمانے میں نمرود نامی بادشاہ گمراہی کے آخری حدود کو پھلانگتے ہوئے خدائی دعویٰ کر بیٹھا تھااور وہ خدا کے بندوں کو اپنی عبادت کے لیے مجبور کر تا تھا ، اگر کوئی ایسا نہ کرتا تو اس سے انتہائی خطرناک سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہ بھی انسان کا ہی عجب کمال ہے کہ جب بھی اسے اللہ تعالیٰ نے تھوڑی سی قوت سے نوازا تو وہ خود ہی خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا ۔انسانی تاریخ ایسے بیوقوف انسانوںکے ناموں سے بھری پڑی ہے۔انسان کمزوریوں اور محتاجیوں کا ناقابل انکار مجسمہ ہے مگر اس کی یہ خصلت کتنی عجیب ہے کہ اپنی نا ممکن الاصلاح ناتوانیوں کے باوجود ا سے اپنے ہی جیسے انسانوںکے ذریعے اپنی عبادت کا اتنا چسکا ہے کہ ’’نا‘‘سننا اسے گوارا نہیں ؟حضرت ابراہیمؐ نے نمرود کے خدائی دعوے کو رد کرتے ہوئے اس کواس دعوے سے باز آنے کی دعوت دی مگر نمرود نے ایک نہ سنی بلکہ اپنے دعوے پر اڑا رہا ۔حضرت ابراہیمؑ نے نمرود کے دعوے کے بطلان کے لیے بھرے دربارمیں ا سے کہا کہ اے نمرود تو کیسے خدا ہو سکتا ہے خدا تو وہ ہے جو بندوں کو پیدا کرتا ہے اور انھیں موت دیتا ہے !!!نمرود نے کہا یہ کام تو میں بھی کرتا ہوں ۔۔۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اچھا ٹھیک ہے اگر تو ایسا کرتا ہے تو میرے خدا کے حکم سے سورج مغرب سے طلوع ہوتا ہے اور مشرق سے غروب ذراتو اس سے آج مشرق سے طلوع کر اور مغرب میں غروب ۔۔۔۔قرآن کہتا ہے کہ ان الفاظ کے سنتے ہی نمرود مبہوت ہوگیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پا یا اور بھرے ایوان میں اس سے شرمندگی اُٹھانی پڑی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا ایک اور مشہور واقعہ قرآن نے کچھ اس طرح بیا ن کیا ہے کہ قوم نمرود (جو بت پرست تھی)کے وہ بت جن کی وہ ایک بڑے عبادت خانے میں جمع ہو کر عبادت کرتے تھے کو حضرت ابراہیمؑ نے ایک بڑے سے ہتھوڑے سے توڑا ۔عید کے روز جب قوم نمرود عبادت گاہ میں بتوں کی عبادت کے لیے پہنچی تو وہ معبد کے اندرکی حالت دیکھ کر چیختے چلاتے ہوئے باہر نکل آئے کہ یہ ہمارے خداؤں کو تباہ و برباد کس نے کر دیا ۔ابراہیم ؑکی بتوں کی مخالفت چونکہ بہت مشہور تھی لہذا ہر ایک نے انہی کو اسکا ذمہ دار قرار دیدیا ۔نمرود نے ابراہیمؑ کو اسی معبد کے پاس لوگوں کی موجودگی میں طلب کر کے ان سے پوچھا ابراہیمؑ ہمارے ان خداؤں کو کس نے توڑا حضرت نے جواباََ کہا مجھ سے پوچھنے کے بجائے تم لوگ اس بڑے بت سے پوچھوجس کے کندھے پر ہتھوڑا ہے لگ رہا کہ یہ اسی کی کاروائی ہے ۔قوم نے حضرت ابراہیم ؑ سے بہ یک زبان کہا اے ابراہیم ؑ ہم بتوں سے کیا پو چھیں گے یہ تو بات ہی نہیں کر پاتے ہیں تو حضرت ابراہیم ؑنے کہا پھر بتاؤ کہ یہ خدا کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ عوام اور دوسرے حکام حضرت ابراہیم ؑکی اس جرأت پر بہت مشتعل ہوئے حقیقت سمجھنے کے برعکس انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتے ہوئے آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ۔الاؤ تیار کیا گیا اور ہزاروں انسانوں کی موجودگی میں حضرت ابراہیم ؑ کو جلتے ہوئے آگ میں ڈال دیاگیا ۔اللہ تعالیٰ قرآن مقدس میں اس واقعہ کا تذکرہ کچھ اسطرح فرماتے ہیں کہ جب نمرود نے انہیں آگ میں ڈالا تو ہم نے آگ کوحکم دیا کہ’’ اے آگ ٹھنڈی ہو جا‘‘تو حضرت ابراہیم ؑ آگ میں جلنے کے برعکس سلامتی کے ساتھ باہر نکل آئے ۔
حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت طیبہ کا ایک اور مشہور واقعہ قرآن ہی کے ذریعے ہمارے علم میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اولاد کی نعمت سے نوازا حالانکہ انکی بیوی کو اب اولاد کی کوئی امید نہیں تھی اس لیے کہ انکی بچے کو جنم دینے کی عمر ڈھل چکی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں اسی عمر میں اولاد صالح سے نوازتے ہوئے ایک اور امتحان میں ڈالا جو ما قبل کے تمام امتحانوں سے بھی سخت اور دشوار ترین امتحان تھا ۔بعض مفسرین کے مطابق جب حضرت اسماعیل علیہ السلام تیرہ سال کی عمر میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ایک خواب (جس کے معنی اور تاویل میں بڑی وسعت ہوتی ہے )میںابراہیم علیہ السلام کو اپنے معصوم بچے کو ذبح کرتے ہوئے دکھایا ۔حضرت نے صبح اسماعیل علیہ السلام کو اس خواب سے باخبر کیا تو بچہ بھی کیا تھا کہ بلا چون وچرا عرض کیا’’ والد محترم آپ وہی کیجئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا‘‘ابراہیم بچے کو لیکر گئے ’’اب جب ذبح کرنے کے ارادے سے زمین پر لٹا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کو چھوڑدینے کا حکم دیتے ہوئے ایک مینڈھے کو ذبح کر نے حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر جانوروں کی قربانی واجب قرار دیدی اور مسلمان آج تک حضرتؑ کی اس سنت کو قائم رکھتے ہوئے جانوروں کی قربانی اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے ان چند مشہور و معروف واقعات سے جو سبق ہم کو ملتا ہے امت مسلمہ آج اسی سبق کے حوالے سے نسیان کی شکا ر ہے ۔یہ اُمت ملت ِ ابراہیم کا ہی ایک جزہے جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ انبیائِ کرام کے ان حالات و واقعات سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے ہم صرف سننے پر اکتفا کرتے ہیں ۔آج ابراہیمی طریقہ دعوت کو عوام تو کیا خواص بھی خلاف مصلحت سمجھتے ہوئے ایک نئے طریقہ دعوت کو عام کرتے جارہے ہیں ۔آج اسلامی دعوت جس کی بنیاد ہی توحید پر ہے کی بات کرناخلاف مصلحت بن چکا ہے ۔اسلام کی اصلی صورت پیش کرتے وقت اب علماء مسلمانوں کے درمیان میں بھی پس وپیش سے کام لیتے ہیں ۔حالانکہ شرک و کفر پر کمپرومائز کر کے اسلام کی بات کہنا اسلامی دعوت و فکر کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے ۔عوامی سپورٹ اور مالی مفادات کے متا ثر ہونے کا خوف جب دامن گیر ہو جائے تو اسلام کی اصلی شکل پیش کرنے میں لازماََ ہچکچاہٹ پیدا ہوگی اور ہم یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو اکیلے نمرودی نظام کو چیلنج کرنے کا حکم دیا گیا حالانکہ اس وقت چھ سات لاکھ انسانی آبادی والے اس عظیم شہر ’’اُر‘‘میںان پر کوئی ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا تھا ۔بتوں کو توڑنے کا حکم اور اس پر بلا چون وچرا عمل اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندھوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو راضی کرنے کی فکر ہو تی ہے کسی نمرود یا نمرودی ایجنٹ کو نہیں ۔اور آج اسلام کی اس دورخی دعوت سے جس میں نہ صرف نمرود خوش ہو تا ہے بلکہ سارے نمرودی ایجنٹ بھی اس اسلام سے خوش ہو کر بعض اوقات ابراہیمی پیغامبروں کو مالامال بھی فرماتے ہیں اوراس سارے دوغلے پن کو صرف دو لفظوں’’ مصلحت اور حکمت‘‘ کا خوبصورت نام دیکر اپنے شیطانی نفس کو خوش کر کے یہ سمجھا جاتا ہے کہ میں جو کچھ کرتا ہو ں یہ بھی اسلام ہی کی خدمت ہے ہے حالانکہ یہ نہ ہی کوئی مصلحت ہے اور نہ حکمت بلکہ بدترین منافقت ،دوغلہ پن اور اسلامی دعوت و فکر کے ساتھ صریح مذاق ہے ۔اور یقیناََ اسلام ایسی کوئی دعوت نہیں ہے جس میں اللہ کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی خوش ہو ں گے جنہیں خود بھی خدائی کو دعویٰ ہو ۔حکمت و دانش سے انکار نہیں پر بے حکمت اور عدم دانش کے بل بوتے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کا نام اگر حکمت رکھ کر دین کا حلیہ ہی بگاڑا جائے تو یہ دانش نہیں نادانی ہے ۔
(جاری ہے)