... loading ...
عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے نااہلی کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں کو آئینِ پاکستان کی دفعات 62 اور 63 میں ترمیم کی صورت میں ہی اپنی بقا دکھائی دے رہی ہے ۔ پوری پاکستانی قوم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر ذمہ درانہ بیانات پر سیخ پا ہے ۔ لیکن میاں نواز شریف اور ان کے حواری عدالت عظمیٰ پر تنقید اور آئینی دفعات میں ترمیم کا ہوا کھڑا کرنے میں ہی سُکھ اور شانتی محسوس کر رہے ہیں ۔ چین اور روس سمیت دنیا کی دیگر طاقتیں ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کر رہی ہیں ۔ لیکن مولانا مفتی محمود مرحوم کے فرزند مولانا فضل الرحمن اُن جہازی سائز بینروں کو بھول گئے ہیں جو انہوں نے پشاور کے قریبی علاقے تاروجبہ میں ’’عالمی ویوبند کانفرنس ‘‘ کے موقع پر آویزاں کروائے تھے اور جن پر ان کے والد بزرگوار مولانا مفتی محمود مرحوم کا یہ قول درج تھا کہ ’’ ہم بچے بچے کے ذہن میں امریکی دشمنی بھر دیں گے ‘‘ ۔ عمرا ن خان پر نیازی ہونے کی پھبتی کسنے والے سرحدی گاندھی کے پوتے اسفند یار ولی ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہے ہیں ۔ اسفند یار ولی سے امریکا کی مخالفت کی امید اس لیے بھی نہیں کی جا سکتی کہ پختون قوم کی اس غمخوار فیملی نے 80 ء کی دہائی میں اُس وقت افغانستان میں سوویت یونین کی کٹھ پتلی حکومتوں کا ساتھ دیا تھا جب طاقت کے نشے میں مدہوش روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئی تھیں اور لاکھوں کی تعداد میں افغان پختونوں کو پاکستان میں پناہ لینا پڑی تھی ۔
پاکستانی سیاست میں اس وقت باسٹھ اور تریسٹھ کی شقیں بعض لوگوں کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہیں ۔ اب تک ان ترامیم کو جنرل ضیاء الحق کی باقیات قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں حکمرانوں اور ارکان پارلیمنٹ کو صادق اور امین کی صفات کا حامل قرار دینے والی ان آئینی ترامیم پر سب سے زیادہ شور ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور فارن فنڈڈ این جی اوز کی جانب سے مچایا جاتا تھا ۔ اب وہ لوگ بھی سامنے آ گئے ہیں جنہیں جنرل ضیاء الحق کی باقیات کہاجاتا ہے ۔ ضیاء باقیات میں میاں نواز شریف کوہمیشہ سے آسمانی مخلوق کا درجہ حاصل رہا ہے ۔ 17 ؍ اگست1989 ء کو جنرل ضیاء الحق مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پر فیصل مسجد کے فلک بوس میناروں کے سائے تلے لاکھوں افراد کے اجتماع میں آزاد کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ سر دار عبد القیوم خان مرحوم نے ’’ ضیاء ازم ‘‘ کے وجود میں آنے کا اعلان کیا تھا اور میاں نواز شریف اس’’ ازم‘‘ کے فروغ کی جدوجہد کرنے والوں کے سالار قرار پائے تھے ۔ اس موقع پر اس بات کابھی بھر پور چرچا کیا گیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے میاں صاحب کو اپنی عمر بھی لگ جانے کی دعا دی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں میاں صاحب کی جانب سے ضیاء خاندان کے ساتھ جس کج ادائی کا اظہار کیا گیا اُس پر گرفتہ دل کے سا تھ اعجازالحق کو ایک مرتبہ یہ کہنا پڑا تھا کہ ’’ میاں صاحب میرے والد کی پہلی ترجیح تھے اور میں ان کی دوسری ترجیح بھی نہیں بن سکا ۔‘‘
موجودہ سیاسی منظر نامے پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہر طرف جنرل ضیاء الحق کی باقیات پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ پنجاب کے چوہدری برادران سے لیکر جاوید ہاشمی تک اور شیخ رشید سے لیکر شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی تک سب کے سب جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ کسی نہ کسی حیثیت میں رہے ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی باقیات کے اعزاز سے بڑی حد تک جماعت اسلامی بھی اپنے آپ کو نہیں بچا سکتی ۔ گیارہ سالہ دور حکومت میں جماعت اسلامی جنرل ضیاء الحق کی بی ٹیم بنی رہی ۔جماعت اسلامی کے اُس وقت کے امیر میاں محمد طفیل مرحوم کے اس تمام عرصہ میں جنرل ضیاء الحق سے انتہائی قریبی مراسم رہے تھے۔
آئین پاکستان کی شق 62 اور 63 میں ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ؟اس کا جائزہ لیا جائے تو اُس کی واحد وجہ میاں نواز شریف کی نااہلی کا معاملہ ہے ۔ دنیا بھر میں ڈکٹیٹروں اورفوجی حکومتوں کو اس لیے تنقید کا نشانا بنایا جاتا ہے کہ وہ فرد واحد کی خواہش اور مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئین میں ترامیم کرتے ہیں ۔اب اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہمارے ملک کو بھی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری جتنا زیادہ مرضی شور مچائیں کہ وہ آئین میں کسی مجوزہ ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے لیکن تمام مبصرین اور تجزیہ نگار اس خدشے پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اس معاملے پر ایک ہی ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کے بظاہر ایک دوسرے پر حملے جاری رہیں گے لیکن اندرون خانہ سودے بازی کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ بتایا جا رہا ہے کہ آصف علی زرداری خود بھی اندر سے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کے فیصلے سے نا خوش ہیں ۔ اس کی وجہ نوازشریف سے ہمدردی نہیں بلکہ اصل وجہ یہ خدشہ ہے کہ مستقبل میں یہی شقیں ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہیں ۔ لہذا حکومت کے ساتھ ڈیل کی آمادگی ہی میں ان کا فائدہ ہے۔اور سب جانتے ہیں سیاسی چالیں چلنے میں مہارت رکھنے والے آصف علی زرداری کبھی سیاسی فائدے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر اس مجوزہ ترمیم کا ایک مطلب یہ بھی ہوگا کہ ہمارے قانون ساز اداروں کے ممبران یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگر وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے ہیں تو ان کے کردار پر باز پرس نہ کی جائے ۔ وہ صادق اور امین نہ بھی ہو ، بددیانت اور امانت میں خیانت کے مرتکب بھی ہوں تو پھر بھی انہیں اقتدار میں رہنے کا حق حاصل رہے ۔ اس مجوزہ ترمیم کے حوالے سے پوری قوم مخمصے کا شکار ہے ۔ قوم کی درست اور صحیح طریقے سے رہنمائی نہیں کی جاری ہے ۔ اگست2015 ء میں اکیسویں آئینی ترمیم کے معاملے کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے تیرہ رکنی بنچ کے آٹھ ممبران نے قرار دیا تھا کہ ’’ پارلیمنٹ آئین کی شقوں 238 اور 239 کی رُو سے آئین میں اس حد تک اختیار رکھتی ہے کہ
“As long as the salient feature of the Constutuion are not repealed. Abrogated or substantilly altered ”
یعنی یہ دیکھاجائیگا کہ ترمیم آئین کے بنیادی خدوخال معطل، منسوخ یا ان میں غیر معمولی نوعیت کی تبدیلی کرنے والی نہ ہو ۔ کسی بھی آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کو اس کا جائزہ لینے اور تشریح کا اختیارحاصل ہے۔ عدالت عظمیٰ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے وہ کسی بھی ایسی ترمیم کومسترد کر سکتی ہے ۔جس سے آئین کا حلیہ بگڑنے اور آئین کے بنیادی خد وخال متاثرہونے کا احتمال ہو ۔
28 جو لائی2017 ء کے بعد پاکستان کی عدلیہ نے جو رُخ بدلا ہے، اُس نے اُمید کے دامن کو بہت وسعت عطاکی ہے۔ آئینِ پاکستان میں قرآن و سنت کو قانون کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔ قرارداد مقاصد کو دیباچے سے نکال کر آئین کا باقاعدہ حصہ بھی بنایا گیاہے ۔ آئین کی ان شقوں سے واضح ہو تا ہے کہ مملکت پاکستان میں قرآن و سنت کے نفاذ کو عملی طور پر ممکن بنانے کی سعی و کوشش لازمی ہے ۔ اس سارے پس منظر میں مسلم لیگ ن کی جانب سے آئین میں جن مجوزہ ترامیم کا ذکر سامنے آرہا ہے قانونی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا فرض ہے وہ اس سلسلہ میں قوم کو اصل صورتحال سے آگاہ کریں تاکہ قوم مخمصے کی صورتحال سے باہر آ سکے ۔