... loading ...
صوفیائے کرام کی سرزمین سندھ کے ایک بڑے شہر سکھر میں شیر دریا ’’ سندھ ‘‘ کے جوشِ طرب ، ہُمھمہ اور لہروں کی جولانیوں کے پہلومیں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف قومی اتفاق ِ رائے کے بغیر کسی ایسے ڈیم کی تعمیر کی حمایت نہیں کرے گی جو سندھ کو منظور نہیں ۔‘‘ تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی کا اعلان ایک ایسی جماعت کے صائب موقف کا اظہار ہے جو چاروں صوبوں کی یکجہتی کو مضبوط وفاق کی ضمانت سمجھتی ہے ۔
لیکن ہمارے ہاں اس بیان یا موقف پر بعض سیاستدان خصوصاً پی ٹی آئی کے مخالفین خوب وادیلا کریں گے ۔ میڈیا سے وابستگان کا ایک گروپ بھی اس ’’ نان ایشو ‘‘ کو ’’ ایشو ‘‘ بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا ۔ ہم یہ قیاس ماضی کے تجربات کی روشنی میں کر رہے ہیں ۔ کیونکہ کالاباغ ڈیم ایک خالصتاً فنی اور تکنیکی معاملہ ہونے کے باوجود ہماری سیاست کا ہارٹ ایشو رہا ہے ۔ ماضی میں پنجاب، کے پی کے اور سندھ کے سیاستدانوں نے کالاباغ ڈیم کے نعرے پر بھر پور سیاست کی ۔ نوے کی دہائی میں نوازشریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس ڈیم کی تعمیر کا یکطرفہ طور پر اعلان بھی کر دیا تھا ۔ ان کے اس اعلان سے نہ صرف چاروں صوبوں کے درمیان اتحاد ویک جہتی کی فضا کو نقصان پہنچا تھا بلکہ مسلم لیگ کی حکومت کو خیبر پختونخواہ میں اپنی اتحادی جماعت اے این پی کی مفارقت کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا تھا ۔ اُس وقت سے لے کر اب تک کالاباغ ڈیم کا منصوبہ انتہائی متنازع چلا آ رہا ہے ۔ نواز شریف کے یکطرفہ اعلان سے اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف سب سے توانا آواز سندھ سے بلند ہوئی تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحوم پنجاب میں اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھتی تھیں لیکن سندھ کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اس کی مخالفت شروع کر دیتی تھیں ۔ بعد میں اس تنازع نے اس قدر طول پکڑا کہ تین صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں اس کے خلاف قراردادیں منظور ہوئیں ۔ایسی صورتحال میں اب کالاباغ ڈیم کسی صورت میں بھی تعمیر نہیں کیا جا سکتا ۔ کوئی بھی منصوبہ کتنا ہی مفید کیوں نہ ہو اُسے وفاق کی قیمت پر پایہ تکمیل تک پہنچانا دانشمندی نہیں ہوگی ۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان چار عشروں سے جاری معرکے میں کبھی بھی کسی جانب سے مفاہمت کی راہ ہموار کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان پنجاب سے تعلق رکھنے کے باوجود کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حامی نہیں ہیں ۔ ایسا کہنے والے حقائق کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں ۔ عمران خان کیا کوئی بھی ، سیاستدان، رہنما یا حکمران قومی اتفاق رائے کے بغیر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تو درکنار اس کے حق میں آواز بھی بلندنہیں کرسکتا ۔
عمران خان اور ان کی جماعت نے ہمیشہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے صوبوں کے درمیاں ہم آہنگی اور اتفاق رائے کی بات کی ہے ۔ حالانکہ کالاباغ ڈیم کی مجوزہ سا ئیٹ ’’ پیر پیائی ‘‘ عمران خان کے آبائی حلقہ انتخاب این اے 71 ( میانوالی ون ) کا حصہ ہے ۔ ان کے حلقہ انتخاب کے لوگوں نے ہمیشہ اس ڈیم کی تعمیر کے حق میں آواز اُٹھائی ہے ۔لیکن سیاسی مفادات کے بر عکس عمران خان اس سلسلہ میں وفاق کی سطح پر اتفاق ِ رائے کی بات کرتے ہیں ۔
ماضی میں خیبر پختونخواہ اور سندھ میں کالاباغ ڈیم کے خلاف مہم میں خاصی شدت رہی ہے ۔ پختونخواہ کے بعض علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور عوام یقین کی حد سے بھی بڑھ کر اس ڈیم کو اپنے صوبے کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مہم جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دست راست جنرل فضل حق نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں شروع کی تھی جس کی وجہ سے اس منصوبے پر جاری کام روک دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے اس کی مخالفت کو اپنا نعرہ اور نصب العین بنا لیا تھا ۔ اسی روز سے کالاباغ ڈیم کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں میں اے این پی کے رہنماؤں کی آواز سب سے زیادہ بلند آہنگ ہوتی ہے ۔ سندھ دھرتی کے بعض سیاستدانوں اور دانشوروں نے کالاباغ ڈیم کو پنجاب کے مفاد میں سمجھتے ہوئے اسے سندھ مخالف قرار دینا شروع کر رکھا ہے ۔ اس وقت خیبر پختونخواہ اور سندھ میں مسلم لیگ ن سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اس منصوبے کی حمایت کی جرات نہیں کر سکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی قیادت نے صورتحال کا مقابلہ رواداری اور دانشمندی سے کرنے کی بجائے اسے سیاسی نعرہ بنا لیاتھا ۔ جس سے بلاوجہ اس تاثر کو فروغ ملا کہ کالاباغ ڈیم صرف پنجاب کے مفاد میں ہے یہ نوشہرہ کو ڈبو دے گا اور سندھ کے ڈیلٹا کی زمینوں کو سیم و تھور زدہ بنا دے گا ۔آبی حیات کو تباہ کردے گا ۔ یہی وجہ ہے آج تمام سندھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف یک زبان ہیں ۔
اس صورتحال کاگہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ ڈیم کی نہیں پنجاب کی سیاسی اور سرکاری اشرافیہ کی مخالفت ہے اور اس کی وجہ پانی نہیں سیاسی محرومیاں ہیں ۔ اور یہ کہنا بھی بے جا اور غلط نہیں کہ یہ ہمارے فوجی حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کا ردعمل ہے ۔ اسی وجہ سے یہ سارا معاملہ تکنیکی سے زیادہ سیاسی بنا ہوا ہے ۔ اس لیے اس کا سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے ۔
ہمارے ہاں مختلف حکومتوں کی جانب سے ملک میں جاری توانائی کے بحران کو حل کرنے اور آبی ذخائر کے منصوبوں کے تعمیر کے اعلانات سامنے آتے رہتے ہیں ۔ لیکن کسی نے اس حوالے سے صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔
ہمارا موقف ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ذی ہوش اور محب وطن سیاستدان ایسا نہیں کہے گا اورنہ سوچے گا کہ پاکستان ترقی نہ کرے اور آبی ذخائر تعمیر نہ ہوں ۔ وطن عزیز کی اقتصادی ، زرعی اور معاشی صورتحال بہتر نہ ہو ۔ لیکن وطن عزیز کی بہت بڑی تعداد اس امر پر ضرور فوکس رکھتی ہے کہ ہر کام ہم آہنگی اور اتفاق رائے سے ہو ۔ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لیے انتہائی ناگزیر تو قرار دیا جا سکتا ہے ۔ لیکن بھاشا ، اکوڑی اور اسکردو ڈیم کی اہمیت سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ۔ کیا ضروری اور مناسب نہیں ہے کہ جن ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق رائے ہے انہیں فوقیت دی جائے ۔ اور جو متنازع ہیں انہیں حالات کی سازگاری اور موافقت تک پس پشت ڈال دیا جائے ۔ یہاں پیپلز پارٹی کے طرز عمل کا ذکر بھی ضروی نظر آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں جب اس منصوبے کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز کو زیرو کیا گیا تھاتو راجہ پرویز اشرف نے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ کالاباغ ڈیم کو دفن کر دیا گیا ہے ‘‘ ۔اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ طرزعمل جہاں ذہنی بالیدگی اور بلوغت کی سطح کا آئینہ دار ہوتا ہے وہاں مختلف نوعیت کے مسائل کی وجہ جواز بھی بنتا ہے فریقین کی جانب سے اسی قسم کے رویوں نے کالاباغ ڈیم سائٹ کو کالاباغ ڈیم کے مزار میں تبدیل کردیا ہے ۔
کالاباغ ڈیم ایک کثیر المقاصد فنی منصوبہ ہے اس کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کیا جائے، اس مقصد کے لیے وفاق کی تمام اکائیوں کے درمیاں ڈائیلاگ شروع کیا جانا چاہیے ۔ یہ ڈائیلاگ مختلف جہتوں اور وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے ۔ سیاستدان سیاستدانوں کے ساتھ ، طلباء طالبعلموں کی سطح پر ، دانشور اور اہل قلم اپنے شعبے میں مذاکرات کو پروان چڑھائیں ۔ اس طرح سے ہمارے ہاں وفاق کی اکائیوں کے درمیان رواداری اور برداشت کو فروغ ملے گا ۔اور اس کے مثبت اثرات دیگر شعبہ ہائے زندگی پر بھی مرتب ہوں گے ۔