... loading ...
فیض نے کہا تھا کہ
یہ خون خاک نشیناں تھارزق خاک ہوا
’’ شہنشاہ وقت” جب عدالت عظمیٰ سے یہ سند پا کر نکلے کہ وہ نہ تو صادق ہیں اور نہ ہی امین تو اس پر ندامت کے بجائے جاہ و جلال اور درباریوں کے جلومیں اس شان وشوکت سے روانہ ہوئے کہ محسوس یہ ہوتا تھا کہ موصوف نے سکندر اعظم کو بھی مات دیدی ہو۔شاہی سواریاں ملکہ کوہسار سے روانہ ہوئیں شہرِ اقتدار میں پڑاؤ کیا اور پھر تاریخی شاہراہ کو اپنا راستا بنایا۔ درمیان میں گجرات بھی آیا۔ گجرات تاریخی شہر ہے کہ اس شاہراہ سے گزرنے والے فاتحین نے اس مقام پر قیام کرنا ضروری جاناہے ۔
نوازشریف جب اپنے درباریوں کے ساتھ اس شہر سے گزرے تو ان کے قافلہ میں شامل ایک سواری نے ایک معصوم کی جان لے لی۔ شاہی سواری تھی لیکن ماضی میں فیل(ہاتھی) شاہی سواری ہوا کرتے تھے اور اب بی ایم ڈبلیو ۔اب فیل ہو یا بی ایم ڈبلیوجو اس کی زد میں آئے گا اس کو جان سے تو جانا ہی ہے کہ شاہی قافلے کہاں رُکا کرتے ہیں ۔گجرات کا حامد بھی شاہی قافلے کی زد میں آیا اور بی ایم ڈبلیو سے کچلا گیا ۔
یہ نہ مغلیہ دور ہے نہ جہانگیر تخت نشین ۔یہ تخت لاہور کا معاملہ ہے اور تخت نشینوں کا تعلق دہلی اور آگرہ سے نہیں جاتی عمرہ اور امرتسر سے ہے کہ انصاف کا بول بالا ہو اور قاتل کو انجام تک پہنچانے کا فیصلہ ۔تاریخ میں یوں تو بہت سے واقعات درج ہیں لیکن یہاں میں صرف دو واقعات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ایک واقعہ احتساب کے حوالے سے ہے اور دوسرا قصاص کے۔خلیفہ دوئم دعائے رسول ﷺ حضرت عمر فاروق ؓ کا دورِ خلافت ہے لشکر فتح کے بعد واپس آیا ہے اور مال غنیمت ساتھ لایا ہے۔ مدینہ رسول ﷺ کے ہر شہری کے حصہ میں چادر کا ایک ٹکڑا آیا ۔ حضرت عمر فاروقؓ طویل قامت ہیں اور حصہ میں ملنے والی چادر سے ان کا کرتا نہیں بن سکتا تھا ۔مال غنیمت کی تقسیم کے بعد جمعہ کے دن جب خلیفہ وقت مسجد نبوی ﷺ میں خطاب کے لیے منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو ابھی آپ نے خطاب کا آغاز بھی نہیں کیا تھا کہ ایک بدو کھڑا ہوا اور کہا کہ اے عمرؓ ہم تیری بات سننے کے روادار نہیں میرا قد تجھ سے چھوٹا ہے لیکن مال غنیمت میں ملنے والی چادر سے میرا کرتہ نہیں بن سکا تو تیرا کرتہ کیسے بن گیا تونے یقینا چادر کا بڑا حصہ لیا ہے آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور بیٹے عبداللہ سے کہا کہ بتاؤ کہ میرا کرتہ کیسے بنا بیٹے نے بتایا کہ ہر شہری کی طرح مجھے بھی چادر کا ایک ٹکڑا ملا تھا اور بابا جان کے پاس موجود کرتہ اس قابل نہیں رہا تھا کہ وہ زیب تن کیا جا سکے۔ میں نے اپنی چادر بابا جان کو ہدیہ کی یوں بابا جان کا کرتہ تیار ہوسکا۔ اب بدو نے نہ تو اپنے تلخ لہجہ پر معذرت کی نہ ہی کسی نے اسے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ بس اس نے اتنا کہا کہ ہاں اے عمر ؓ اب ہم تیری بات سننے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ یہ تو وہ دور ہے کہ جس میں نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ موجود تھے اور جن کی تربیت آپ ﷺ نے کی ہو، ان سے اس ہی طرز کی توقع کی جانی چاہیے۔
لیکن دوسرا واقعہ تو دورنبوت کے تقریباً 900 سال بعد کا ہے خلافت کا دور ختم ہو چکا ۔بادشاہت نے خلافت کی جگہ لے لی ہے اور بادشاہت میں بادشاہ وقت ہی مختار کل ہوتاہے لیکن جب معاملہ درویش صفت جہانگیر کا ہو تو پھر عدل تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ شہنشاہ نورالدین جہانگیر نے قصرشہنشاہی پر زنجیرِعدل لگائی تھی اور زنجیر کو ہلانے اور اس سے پیدا ہونے والی آواز کی فریاد شہنشاہ وقت خود سنا کرتا تھا۔ نور الدین جہانگیر کی محبوب ملکہ مہرالنساء( نور جہاں )قصر شہنشاہی کی فصیل سے تیرزنی کی مشق کر رہی تھی کہ ایک راہ گیر تیر کی زد میں آیا اور جان کی بازی ہار گیا نوجوان کے ورثاء نے زنجیر عدل ہلائی۔ شہنشاہ وقت نے فریادی کی فریاد سنی اور مفتی وقت سے فتویٰ کی استدعا کی۔ مفتی نے فتویٰ جاری کیا کہ شریعت اسلامی کے مطابق قاتل کی گردن اُڑائے جانا واجب ہے۔ اب ایک طرف محبوب ملکہ ہے اور دوسر ی جانب شریعت کا حکم جب مفتی وقت نے شہنشاہ وقت کے چہرے پر حزن وملال کے آثار دیکھے تو عرض کیا کہ شریعت میں دیت بھی ہے لیکن اس کے لیے متوفی کے ورثاء کا بلاجبر رضامند ہونا ضروری ہے۔ شہنشاہ دربار سے اُٹھ گیا کہ کہیں متوفی کے ورثاء اس کی موجودگی کے باعث دباؤ محسوس نہ کریں ، اب مفتی وقت ہیں اور متوفی کے ورثاء وہ بھی شہنشاہ وقت کے چہرے پر حزن وملال کی کیفیت دیکھ چکے تھے اور بلاجبردیت لینے پر آمادہ ہوگئے۔ اس لیے کہ شہنشاہ کو محبوب ملکہ کی گردن زنی سے متوفی نے تو واپس نہیں آنا تھا لیکن شہنشاہ کو ایک غم لگ جانا تھا یوں نورجہاں کی جاں بخشی ہوئی ۔
گجرات کا حامد جس بی ایم ڈبلو کے نیچے کچلا گیا وہ دستاویزات کے مطابق ایوان وزیراعظم کے زیر استعمال ہے اور اس وقت اس میں اطلاعات کے مطابق طارق فضل سوار تھے۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ گاڑی میں کون سوار تھا ؟معاملہ یہ ہے کہ گاڑی کس کے جلوس کا حصہ تھی؟ اول تو یہ جلوس ہی توہین عدالت ہے کہ عدالت سے نااہل قرار پانے والا شخص اس جلوس کی قیادت کر رہا تھا اور ملکہ کوہسار سے لاہور تک مسلسل عدالتی فیصلے پر جس زبان میں گفتگو کرتا رہا وہ کھلی توہین عدالت ہے 20 کروڑ عوام کے اعتماد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو دروغ گوئی اوربدیانتی کا حق حاصل ہو گیا عوام کے اس اعتماد کا مطالبہ تو یہ ہے کہ اعتماد کا حامل شخص ہر پاکستانی کو جواب دہ ہے۔ نوازشریف کا یہ کہنا کہ 20 کروڑ عوام کے نمائندے 5 افراد نے نکال باہر کیا انہیں یہ اختیار کس نے دیا تھا گویا عدالت عظمیٰ قانون نہیں چند افراد کی خواہشات کی پابند ہو نی چاہیے ۔
حامد ایک غریب ماں باپ کی اولاد تھا اور شاید فیض نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ ” یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا ” حامد کی اس طرح سے حادثاتی موت کا مقدمہ اطلاعات کے مطابق تاحال درج نہیں ہو سکا ہے، وجہ اس کی جو معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ متعلقہ پولیس نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرتے ہوئے تخت لاہور کو سہارادینا چاہتی تھی لیکن جب متوفی کے ورثاء اس پر تیار نہیں ہوئے تو دباؤ کا حربہ استعمال کیا گیا لاہور سے اسلام آباد تک کی مشینری حرکت میں آئی اور بتا دیا گیا کہ مقدمہ تو درج ہو جائے گا گواہ کہاں سے لاؤ گے جس نے گواہی دینے کی حماقت کرنے کی کوشش کی وہ لاپتہ افراد میں بھی شامل ہو سکتا ہے اور کہیں کسی ناگہانی حادثہ کا شکار بھی ہو سکتا ہے ۔یوں بھی مقدمہ طویل عرصہ چلنا ہے اور حادثے کے مقدمہ میں زیادہ سے زیادہ سزا بھی تین سال کی ہے اور صدرمملکت کو سزا معاف کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے یوں ورثاء کو اندازہ ہو گیا کہ انصاف تو اب یوم حشر میں ہی ملے گا اس سے پہلے انصاف کی توقع رکھنا اور وہ بھی وقت کے فرعونوں سے یہ توقع رکھنا کھلی حماقت ہی ہے۔ یوں بالجبر دیت حامد کے ورثاء کے حوالے کی گئی۔ انہوں نے لہو لہو اشکوں کے ساتھ دیت وصول کرنے کی دستاویز پر دستخط کیے۔ یوں انہوں نے سمجھا کہ حامد کا خون انہیں معاف ہوا نہ انہیں جے آئی ٹی بنانی پڑی نہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو سربمہر کرنا پڑا کہ یہ بھی کینٹ تھانہ حیدرآباد کی سن2000 میں داخل ایف آئی آر کی طرح کسی وقت کھل نہ جائے اور یوں جاتی عمراکے شہنشاہوں کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے ۔