وجود

... loading ...

وجود

خون کا سودا

جمعه 25 اگست 2017 خون کا سودا

فیض نے کہا تھا کہ
یہ خون خاک نشیناں تھارزق خاک ہوا
’’ شہنشاہ وقت” جب عدالت عظمیٰ سے یہ سند پا کر نکلے کہ وہ نہ تو صادق ہیں اور نہ ہی امین تو اس پر ندامت کے بجائے جاہ و جلال اور درباریوں کے جلومیں اس شان وشوکت سے روانہ ہوئے کہ محسوس یہ ہوتا تھا کہ موصوف نے سکندر اعظم کو بھی مات دیدی ہو۔شاہی سواریاں ملکہ کوہسار سے روانہ ہوئیں شہرِ اقتدار میں پڑاؤ کیا اور پھر تاریخی شاہراہ کو اپنا راستا بنایا۔ درمیان میں گجرات بھی آیا۔ گجرات تاریخی شہر ہے کہ اس شاہراہ سے گزرنے والے فاتحین نے اس مقام پر قیام کرنا ضروری جاناہے ۔
نوازشریف جب اپنے درباریوں کے ساتھ اس شہر سے گزرے تو ان کے قافلہ میں شامل ایک سواری نے ایک معصوم کی جان لے لی۔ شاہی سواری تھی لیکن ماضی میں فیل(ہاتھی) شاہی سواری ہوا کرتے تھے اور اب بی ایم ڈبلیو ۔اب فیل ہو یا بی ایم ڈبلیوجو اس کی زد میں آئے گا اس کو جان سے تو جانا ہی ہے کہ شاہی قافلے کہاں رُکا کرتے ہیں ۔گجرات کا حامد بھی شاہی قافلے کی زد میں آیا اور بی ایم ڈبلیو سے کچلا گیا ۔
یہ نہ مغلیہ دور ہے نہ جہانگیر تخت نشین ۔یہ تخت لاہور کا معاملہ ہے اور تخت نشینوں کا تعلق دہلی اور آگرہ سے نہیں جاتی عمرہ اور امرتسر سے ہے کہ انصاف کا بول بالا ہو اور قاتل کو انجام تک پہنچانے کا فیصلہ ۔تاریخ میں یوں تو بہت سے واقعات درج ہیں لیکن یہاں میں صرف دو واقعات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ایک واقعہ احتساب کے حوالے سے ہے اور دوسرا قصاص کے۔خلیفہ دوئم دعائے رسول ﷺ حضرت عمر فاروق ؓ کا دورِ خلافت ہے لشکر فتح کے بعد واپس آیا ہے اور مال غنیمت ساتھ لایا ہے۔ مدینہ رسول ﷺ کے ہر شہری کے حصہ میں چادر کا ایک ٹکڑا آیا ۔ حضرت عمر فاروقؓ طویل قامت ہیں اور حصہ میں ملنے والی چادر سے ان کا کرتا نہیں بن سکتا تھا ۔مال غنیمت کی تقسیم کے بعد جمعہ کے دن جب خلیفہ وقت مسجد نبوی ﷺ میں خطاب کے لیے منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو ابھی آپ نے خطاب کا آغاز بھی نہیں کیا تھا کہ ایک بدو کھڑا ہوا اور کہا کہ اے عمرؓ ہم تیری بات سننے کے روادار نہیں میرا قد تجھ سے چھوٹا ہے لیکن مال غنیمت میں ملنے والی چادر سے میرا کرتہ نہیں بن سکا تو تیرا کرتہ کیسے بن گیا تونے یقینا چادر کا بڑا حصہ لیا ہے آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور بیٹے عبداللہ سے کہا کہ بتاؤ کہ میرا کرتہ کیسے بنا بیٹے نے بتایا کہ ہر شہری کی طرح مجھے بھی چادر کا ایک ٹکڑا ملا تھا اور بابا جان کے پاس موجود کرتہ اس قابل نہیں رہا تھا کہ وہ زیب تن کیا جا سکے۔ میں نے اپنی چادر بابا جان کو ہدیہ کی یوں بابا جان کا کرتہ تیار ہوسکا۔ اب بدو نے نہ تو اپنے تلخ لہجہ پر معذرت کی نہ ہی کسی نے اسے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ بس اس نے اتنا کہا کہ ہاں اے عمر ؓ اب ہم تیری بات سننے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ یہ تو وہ دور ہے کہ جس میں نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ موجود تھے اور جن کی تربیت آپ ﷺ نے کی ہو، ان سے اس ہی طرز کی توقع کی جانی چاہیے۔
لیکن دوسرا واقعہ تو دورنبوت کے تقریباً 900 سال بعد کا ہے خلافت کا دور ختم ہو چکا ۔بادشاہت نے خلافت کی جگہ لے لی ہے اور بادشاہت میں بادشاہ وقت ہی مختار کل ہوتاہے لیکن جب معاملہ درویش صفت جہانگیر کا ہو تو پھر عدل تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ شہنشاہ نورالدین جہانگیر نے قصرشہنشاہی پر زنجیرِعدل لگائی تھی اور زنجیر کو ہلانے اور اس سے پیدا ہونے والی آواز کی فریاد شہنشاہ وقت خود سنا کرتا تھا۔ نور الدین جہانگیر کی محبوب ملکہ مہرالنساء( نور جہاں )قصر شہنشاہی کی فصیل سے تیرزنی کی مشق کر رہی تھی کہ ایک راہ گیر تیر کی زد میں آیا اور جان کی بازی ہار گیا نوجوان کے ورثاء نے زنجیر عدل ہلائی۔ شہنشاہ وقت نے فریادی کی فریاد سنی اور مفتی وقت سے فتویٰ کی استدعا کی۔ مفتی نے فتویٰ جاری کیا کہ شریعت اسلامی کے مطابق قاتل کی گردن اُڑائے جانا واجب ہے۔ اب ایک طرف محبوب ملکہ ہے اور دوسر ی جانب شریعت کا حکم جب مفتی وقت نے شہنشاہ وقت کے چہرے پر حزن وملال کے آثار دیکھے تو عرض کیا کہ شریعت میں دیت بھی ہے لیکن اس کے لیے متوفی کے ورثاء کا بلاجبر رضامند ہونا ضروری ہے۔ شہنشاہ دربار سے اُٹھ گیا کہ کہیں متوفی کے ورثاء اس کی موجودگی کے باعث دباؤ محسوس نہ کریں ، اب مفتی وقت ہیں اور متوفی کے ورثاء وہ بھی شہنشاہ وقت کے چہرے پر حزن وملال کی کیفیت دیکھ چکے تھے اور بلاجبردیت لینے پر آمادہ ہوگئے۔ اس لیے کہ شہنشاہ کو محبوب ملکہ کی گردن زنی سے متوفی نے تو واپس نہیں آنا تھا لیکن شہنشاہ کو ایک غم لگ جانا تھا یوں نورجہاں کی جاں بخشی ہوئی ۔
گجرات کا حامد جس بی ایم ڈبلو کے نیچے کچلا گیا وہ دستاویزات کے مطابق ایوان وزیراعظم کے زیر استعمال ہے اور اس وقت اس میں اطلاعات کے مطابق طارق فضل سوار تھے۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ گاڑی میں کون سوار تھا ؟معاملہ یہ ہے کہ گاڑی کس کے جلوس کا حصہ تھی؟ اول تو یہ جلوس ہی توہین عدالت ہے کہ عدالت سے نااہل قرار پانے والا شخص اس جلوس کی قیادت کر رہا تھا اور ملکہ کوہسار سے لاہور تک مسلسل عدالتی فیصلے پر جس زبان میں گفتگو کرتا رہا وہ کھلی توہین عدالت ہے 20 کروڑ عوام کے اعتماد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو دروغ گوئی اوربدیانتی کا حق حاصل ہو گیا عوام کے اس اعتماد کا مطالبہ تو یہ ہے کہ اعتماد کا حامل شخص ہر پاکستانی کو جواب دہ ہے۔ نوازشریف کا یہ کہنا کہ 20 کروڑ عوام کے نمائندے 5 افراد نے نکال باہر کیا انہیں یہ اختیار کس نے دیا تھا گویا عدالت عظمیٰ قانون نہیں چند افراد کی خواہشات کی پابند ہو نی چاہیے ۔
حامد ایک غریب ماں باپ کی اولاد تھا اور شاید فیض نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ ” یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا ” حامد کی اس طرح سے حادثاتی موت کا مقدمہ اطلاعات کے مطابق تاحال درج نہیں ہو سکا ہے، وجہ اس کی جو معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ متعلقہ پولیس نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرتے ہوئے تخت لاہور کو سہارادینا چاہتی تھی لیکن جب متوفی کے ورثاء اس پر تیار نہیں ہوئے تو دباؤ کا حربہ استعمال کیا گیا لاہور سے اسلام آباد تک کی مشینری حرکت میں آئی اور بتا دیا گیا کہ مقدمہ تو درج ہو جائے گا گواہ کہاں سے لاؤ گے جس نے گواہی دینے کی حماقت کرنے کی کوشش کی وہ لاپتہ افراد میں بھی شامل ہو سکتا ہے اور کہیں کسی ناگہانی حادثہ کا شکار بھی ہو سکتا ہے ۔یوں بھی مقدمہ طویل عرصہ چلنا ہے اور حادثے کے مقدمہ میں زیادہ سے زیادہ سزا بھی تین سال کی ہے اور صدرمملکت کو سزا معاف کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے یوں ورثاء کو اندازہ ہو گیا کہ انصاف تو اب یوم حشر میں ہی ملے گا اس سے پہلے انصاف کی توقع رکھنا اور وہ بھی وقت کے فرعونوں سے یہ توقع رکھنا کھلی حماقت ہی ہے۔ یوں بالجبر دیت حامد کے ورثاء کے حوالے کی گئی۔ انہوں نے لہو لہو اشکوں کے ساتھ دیت وصول کرنے کی دستاویز پر دستخط کیے۔ یوں انہوں نے سمجھا کہ حامد کا خون انہیں معاف ہوا نہ انہیں جے آئی ٹی بنانی پڑی نہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو سربمہر کرنا پڑا کہ یہ بھی کینٹ تھانہ حیدرآباد کی سن2000 میں داخل ایف آئی آر کی طرح کسی وقت کھل نہ جائے اور یوں جاتی عمراکے شہنشاہوں کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر