... loading ...
مولانا ندیم الرشید صاحب
زندگی کا ایک اور سال مکمل ہونے کو ہے۔ ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوچکا ہے جو پورے سال کاتتمہ اور خلاصہ ہے۔ اس ماہ کو اﷲ رب العزت نے بڑی فضیلت بخشی ہے۔ تمام نبیوں کی شریعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سال کے چار مہینے (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب) بڑے بابرکت مہینے ہیں ، ان میں کیے گئے ہر عمل کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ رسول اﷲﷺ سے پہلی شریعتوں میں ان مہینوں کے اندر جہاد وقتال بھی منع تھا۔ اسی وجہ سے ان کو عربی میں ’’اشہر حرم‘‘ یعنی عظمت واحترام والے مہینے کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں عبادت اور روزہ رکھنے کی بہت فضیلت آئی ہے۔
حج اور قربانی اس مہینے کی دو عظیم عبادتیں ہیں ۔ حج کا شمار تو ارکان اسلام میں ہوتا ہے اور قربانی نہ صرف یہ کہ واجب بلکہ اس کا شمار شعائر اﷲ میں ہوتا ہے۔ قربانی کا آغاز اس وقت سے ہوا جب سے حضرت آدمؑ اس دنیا میں تشریف لائے۔ سب سے پہلے قربانی حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں یعنی ہابیل اور قابیل نے کی۔ جن کا واقعہ قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے، ان کے بعد سے لے کر آپﷺ تک تمام انبیاء کرامؑ قربانی کرتے چلے آئے ہیں ۔ آپﷺ کی مدنی زندگی میں کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں آپﷺ نے قربانی نہ کی ہو۔ بلکہ جس سال آپ کا وصال ہوا اس سال آپﷺ نے سو جانوروں کی قربانی فرمائی، جن میں سے تریسٹھ جانور خود ذبح فرمائے اور باقیوں کو حضرت علیؓ نے ذبح کیا (مسند احمد: 1507) اس کے علاوہ آپﷺ نے قربانی نہ کرنے والوں پر وعید ارشاد فرمائی، حدیث مبارکہ میں ہے ’’جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہرگز ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے‘‘ (سنن ابن ماجہ) اس سے معلوم ہوا کہ ہر صاحب استطاعت شخص پر قربانی واجب ہے۔
یہ ایسی عبادت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جس پر بے شمار انعامات عطا فرمائے ہیں ۔ حدیث مبارک میں ارشاد ہے ’’حضرت زید بن ارقمؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپﷺ سے صحابہؓ نے سوال کیا، یارسول اﷲﷺ ان قربانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے والد (جد امجد) حصرت ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہ نے عرض کیاکہ ہمارے لیے اس میں کیا فائدہ ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ صحابہؓ نے پھر سوال کیا، یارسول اﷲ! دنبے کی اون میں کیا (اجر) ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے۔ (ابن ماجہ) اندازاکیجیے کہ اﷲ رب العزت نے اس قربانی پر کتنا اجر رکھا ہے۔ لیکن اس نعمت کے حاصل کرنے میں ہم کتنے غافل ہیں ۔
لیکن یہ سارا اجر اس وقت ہے جب محض اﷲ کی رضا کے لیے قربانی کی جائے۔ نام ونمود، شہرت، وریاکاری مقصود نہ ہو۔ بلکہ خالصتاً اﷲ رب العزت کی خوشنودی کے لیے قربانی کی جائے۔ خدانخواستہ اگر نیت میں ذرا سا بھی دکھلاوا ہوا تو سارا عمل اکارت جائے گا۔ کیونکہ اﷲ رب العزت کے ہاں قدر پرہیز گاری کی ہے۔ سورۃ الحج میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اﷲ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے، نہ ان کے خون، بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیز گاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح اﷲ نے جانوروں کو تمہارا مطیع کردیا ہے۔ کہ تم اس کی رہنمائی کے شکریہ میں اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنادیجئے‘‘ (پ 17 سورۃ الحج آیت نمبر 37)
آج کل نام ونمود اور نمائش کی خاطر لاکھوں روپے لٹائے جاتے ہیں ۔ قربانی جیسی مقدس عبادت کو بھی بڑائی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہنگا جانور خریدا جائے، اور اس کی نمائش کی جائے جب کہ اتنے پیسوں سے کئی غریب لوگ بھی قربانی میں شریک ہوسکتے ہیں ۔ اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس دن کتنے ہی غریب لوگوں کے گھروں میں چولہا نہیں جلتا، اور وہ اس دن بھی امیر لوگوں کے دروازوں کو تکتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان بے حس لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بعض لوگ صرف گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کرتے ہیں ، جبکہ اﷲ رب العزت کا خصوصی فضل ہے کہ اس نے گوشت کو بھی اس امت محمدیہ کے لیے حلال قرار دیا۔
دوسری اہم بات یہ کہ دور حاضر میں ایک مخصوص طبقہ دین کی حقیقی روح کو مسخ کرنے اور لوگوں کو دینی احکامات سے متنفر کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ان کا مشغلہ ہی دین کے بنیادی احکامات پر طعنہ زنی کرنا اور شکوک وشبہات پیدا کرنا ہے۔ سب سے بڑا اعتراف جو ان لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ یہ کہ جتنی رقم قربانی پر خرچ کی جاتی ہے وہ رفاہی کاموں میں کیوں خرچ نہیں کی جاتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لیے جو مختلف عبادات مقرر کی ہیں ان میں سے ہر ایک کی اپنی خاصیت ہے، ہر عبادت کے الگ الگ مواقع ہیں ۔ نماز کا ایک موقع ہے اور حج کا ایک الگ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک آدمی نماز کی جگہ روزہ رکھ لے یا حج کی جگہ صدقہ دے دے۔ ہر ایک جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا عمل ادا نہیں ہوگا۔ اسی طرح قربانی کی الگ حیثیت ہے اور صدقہ کی الگ۔
دوسری وجہ یہ کہ جس طرح ہر دوا کی ایک خاص تاثیر ہوتی ہے اسی طرح ان عبادات میں سے ہر ایک کی الگ تاثیر ہے۔ جیسے سر درد کی گولی سے پیٹ کا درد ختم نہیں ہوگا ،ایسے ہی صدقہ سے قربانی کے فوائد وثمرات حاصل نہ ہوں گے۔ صدقہ سے آدمی میں سخاوت کی صفت پیدا ہوتی ہے اور بخل کا ازالہ ہوتا ہے۔ اسی طرح قربانی انسان میں اﷲ رب العزت کی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور یہی چیز قربانی سے مقصود ہے کہ انسان اﷲ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردے، جو یقیناً صدقے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس عظیم عبادت کو اﷲ رب العزت کی رضا کی خاطر انجام دینے کی فکر کیجیے۔