... loading ...
کسی زمانے میں کسی ملک کے کسی گاؤں کے طویلے میں ایک مرغا ہوا کرتا تھا۔ مرغے کا کام ہی بانگ دینا ہے سو وہ صبح تڑکے بانگ دیا کرتا تھا اور خوب زور و شور سے بانگ دیتا تھا۔ ایک دن اس کے مالک نے کہا خبردار تم بانگ دینا بند کردو ورنہ میں تمہار ے سارے پَر نوچ لوں گا۔ مرغے نے سوچا ہے تو مشکل کام ،لیکن مالک بڑا ظالم ہے اس لیے کوشش کروں گا کہ بانگ نہ دوں ۔ مرغے نے اپنی فطرت کے برخلاف صبح بڑے جتن کیے اور بانگ دینے سے باز رہا۔۔ ایک مہینہ خیریت کا گزرا کہ مالک نے مرغے کو ڈو مور کا کہا، پھر تڑی لگادی اے مرغے! تم مرغی کی طرح کْڑ کْڑ کرو ،ورنہ میں تمہارے سارے پَر نوچ لوں گا۔۔۔جان بچی سو لاکھوں پائے مرغے نے سوچا کون سا سچ مچ کی مرغی بننا ہے کْڑ کْڑ ہی تو کرنا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا مرغے نے مرغی کی طرح کْڑکڑانا شروع کردیا۔ دوسرے مرغے اس پر ہنستے تھے لیکن مرغا چپ چاپ ان کی ہنسی اور طنز برداشت کرتا رہا۔اسی طرح ایک مہینہ اور گزر گیا۔ مرغا بیچارہ مرغی ہونے کی ایکٹنگ کرتا رہا۔۔ ایک دن مالک پھر آدھمکا اور بولا اے مرغے ڈو مور، تم مرغی ہو تو انڈے کیوں نہیں دیتے چلو اب کل سے روز ایک انڈہ دیا کرو۔۔ اب تو مرغے کا خون ہی خشک ہوگیا سوچا کْڑ کْڑ کرنا تو آسان ہے لیکن انڈہ کیسے دوں گا۔ اب روز کی اس ڈو مور کی تکرار سے تنگ مرغے نے کہا آر یا پار ۔ میں مرغا ہوں میرا کام ٹھونگ مارنا ہے۔۔ مرغے نے تاک کر مالک کی آنکھ میں ٹھونگ ماری۔۔ مالک کی آنکھ باہر نکل آئی مالک مرغے مرغیوں کو بھول کر اپنی تکلیف میں الجھ گیا ۔مرغے نے پھر مالک کو ٹھونگوں پر رکھ لیا، مالک پریشان ہو کر بھاگا تو طویلے کا دروازہ کھلا رہ گیا میاں مرغا اور اس کے ساتھ باقی جانور بھی آزاد ہو گئے۔ اب یہ مرغا ہیرو بن چکا ہے اور وہ سب مرغے جو اس کی کْڑ کْڑ کا مزاق اڑاتے تھے اس کو اپنا استاد مانتے ہیں اور یہ بتانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں کہ ساری مرغیاں اس مرغے کے ارد گرد منڈلاتی رہتی ہیں ۔۔
مرغے کی کہانی تو آپ نے پڑھ لی امید ہے پسند بھی آئی ہوگی۔ یہ کہانی مجھے امریکا کی جانب سے پاکستان سے ڈو مور کی گردان سے یاد آئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان پالیسی میں پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی اور پاکستان سے ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ کردیا۔ امریکا ایک کے بعد ایک ڈومور کا مطالبہ کرتا ہے۔ پاکستانی حکام بیچارے جب اپنی جانب سے کی گئی کارروائیوں کی تفصیل بتاتے ہیں تو امریکی حکام ہاں میں سر ہلا کر بڑے اطمینان سے کہتے ہیں ، ویل ڈن بٹ ڈو مور۔۔ یعنی صورت حال یہ ہے کہ منیر نیازی سے معذرت کے ساتھ ایک اور ڈو مور کا سامنا تھا مجھے ، میں ایک ڈو مور کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔ اصل میں امریکا اور اس کے حواریوں کو کشمیریوں کی تحریک آزادی اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہضم نہیں ہوتا ۔اس لیے امریکا اور اس کے حواری بھارت اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ پاکستان تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی قرار دے دے اور ان تمام جہادی تنظیموں اور مجاہدین کی نقل و حمل پر پابندی لگادے جو کشمیر کے لیے کام کر رہی ہیں ۔ امریکا کو پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا بھی منظور نہیں لہذا وہ پاکستان کو گھیر کر ایسی پوزیشن میں لانا چاہتا ہے جہاں
پاکستان اپنا جوہری پروگرام چپ چاپ امریکا کے حوالے کر دے۔۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے پاکستان کو امریکا کی نئی افغان پالیسی کا موثر جواب دینا چاہیے اور اس کے لیے موثر سفارتی رد عمل ہونا چاہیے۔ ہم ڈو مور سے زیادہ کر رہے ہیں ۔ پاکستان اور افواج پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے اور یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔