... loading ...
سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف اپنے نئے سیاسی سفر اور پاور شو کے دوران ہر جگہ عوام کو یہ کہہ کر اُکسانے کی کوشش کرتے رہے کہ ان پر کرپشن کاکوئی الزام نہیں ہے ، وہ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ انھیں غلط طورپر نااہل قراردیا گیا ہے، وہ ہر جگہ ریلیوں کے شرکا ء سے یہ سوال کرتے نظر آئے کہ انہیں بتایا جائے کہ آخر انہیں کس جرم میں نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ نواز شریف کی جانب سے مجھے میرا جرم بتایا جائے کی اس تکرار پر تحریک انصاف کی جانب سے راولپنڈی میں پمفلٹس گرائے گئے۔ پمفلٹس کا عنوان تھا ’ہم آپ کو بتائیں گے کہ آپ کو نا اہل کیوں قرار دیا گیا‘۔ یہ پمفلٹس لیاقت باغ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں ایک پرائیوٹ ہیلی کاپٹر کے ذریعے لیاقت باغ میں عوامی لیگ کی جانب سے ** منعقدہ جلسے کے دوران ** گرائے گئے جس میں پاکستان تحریک انصاف نے بھی بھرپور شرکت کی۔
اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور جاتے ہوئے جن جن مقامات پر نواز شریف نے تقاریر کیں ان میں ہر مرتبہ انہوں نے الفاظ دہرائے کہ ’کوئی مجھے یہ بتائے کہ مجھے کیوں نا اہل قرار دیا گیا‘۔ نواز شریف کے سوال پر تحریک انصاف نے جو 10 نکاتی پمفلٹ تقسیم کیے ان میں لکھا تھا کہ:
میاں صاحب آپ کو اس لیے نکالا گیا کہ۔۔۔۔
٭آپ نے کرپشن اور اپنے منصب کے غلط استعمال کے ذریعے قومی خزانے سے مال لوٹا۔
٭آپ نے چوری شدہ مال کو بچانے کے لیے اپنے بچوں کے نام پر جائیدادیں اور آف شور کمپنیاں بنائیں۔
٭آپ نے الیکشن کمیشن، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور دیگر اداروں کے ساتھ قوم کو اپنے حقیقی ذرائع آمدنی اور اثاثوں کی تفصیلات سے مکمل طور پر گمراہ رکھا اور اپنے گوشواروں میں غلط معلومات درج کر کے اپنی سیاہ دولت چھپانے کی کوشش کی۔
٭آپ نے اپنے سمدھی اسحٰق ڈار اور دیگر بد دیانت سرکاری ملازمین کی معاونت سے منی لانڈرنگ کی۔
٭آپ نے گزشتہ30 برس کے دوران ٹیکس اکٹھا کرنے والے ریاستی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔
٭آپ نے پاناما لیکس منظر عام پر آنے کے بعد پارلیمان اور قوم سے اپنے خطاب میں صریحاً جھوٹ بولا اور عدالت کے روبرو سچ بولنے کی بجائے اسے گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
٭آپ اورآپ کے بچوں نے عدالت کی کارروائی اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں ہر ممکن طریقے سے رکاوٹ ڈالی اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں جعلی طور پر تیار شدہ دستاویزجمع کرا کے سچ کو چھپانے اور انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔
٭آپ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی رو سے کسی بھی طرح صداقت اور امانت کے پیمانے پر پورا نہیں اترتے۔
٭آپ سے پندرہ ماہ عوام اور سپریم کورٹ جواب طلب کرتے رہے لیکن آپ کے پاس جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔
٭آپ کے بارے میں پانچ لوگوں نے نہیں‘سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے کہا کہ آپ صادق اور امین نہیں۔
اب نواز شریف ان کے ہمنوا اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے اس جواب کا کیا جواب دیتے ہیں ،اس پر قبل از وقت کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا لیکن نواز شریف کے گرد جس قماش کے لوگوں نے گھیرا ڈالا ہوا ہے اور ان لوگوں سے قربت کی وجہ سے ان ہی کا لب ولہجہ اختیار کرنے والے نواز شریف سے اس حوالے سے کسی مدلل جواب کی توقع بہت کم ہے۔
قطع نظر اس کے کہ نواز شریف اور ان کے رفقا ء پاکستان تحریک انصاف کے اس پمفلٹ کا کیا جواب دیتے ہیں ،ایک بار پھر اقتدار سے علیحدگی کے بعد نواز شریف واپس اپنے گھر لاہور تشریف لا چکے ہیں اور رائے ونڈ پہنچ چکے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف نے اپنے سیاسی مرکز اورلاہور کی پہلی جدید اور منظم بستی ماڈل ٹاؤن سے اپنی رہائش ترک کردی تھی ،یہ وہی مقام تھا جہاں سے انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار سے علیحدگی کے بعدوہ اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کہاں سے کرنا چاہیں گے اوراپنا سیاسی ڈیرہ کہاں لگائیں گے۔ اس کاانحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ اپنے من پسند خول میں ہی بند رہنا پسند کرتے ہیں یا اپنے اس خول سے جو انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اوپر چڑھا لیاتھا باہر نکل کر کچھ دیکھنا اور کرنا پسندکریں گے، بہرحال یہ فیصلہ تو وقت کریگا اور بہت جلد یہ سامنے بھی آ جائے گا۔
نواز شریف کے فارغ ہونے کے بعد اب ان کے سامنے سب سے پہلا اور بڑا معرکہ خود ان کی نااہلی سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر نئے انتخاب کی صورت میں ہونے جا رہا ہے جہاں پر حکومت اور اپوزیشن کی تمام پارٹیاں اپنی تما م تر سیاسی توانائیاں خرچ کرنے کو تیار بیٹھی ہیں اور یہ نشست جیتنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے کلثوم نواز اور تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے کیونکہ میاں صاحب کی فیملی کی طرح ڈاکٹر یاسمین راشد کا سسرال بھی پرانے لاہور کا ہی رہائشی ہے ان کے سسر ملک غلام نبی کا شمار اندرون لاہور کی متحرک سیاسی شخصیات میں ہوتا تھا۔ وہ اسمبلی کے ممبر اور وزیر بھی رہے ہیں۔ اس لاہوری معرکہ میں کون فتح یاب ہو گا اس بارے میں ابھی کوئی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہو گا۔ اس معرکے میں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کو اس طرح سبقت حاصل ہے کہ پنجاب میں حکومت ان کے دیور کی اور وفاق میں حکومت ان کے شوہر نامدار کے مطیع وفرمانبردار شاہد خاقان عباسی کی ہے،اس طرح یہ بات بآسانی سمجھ میں آتی ہے کہ کلثوم نواز کو
اس ضمنی انتخابات میں پوری سرکاری مشینری کی بھرپور معاونت حاصل ہوگی جبکہ ان کی مد مقابل یاسمین راشد کو سب کچھ اپنے اور اپنی پارٹی کے بل بوتے پر کرنا پڑے گا یہی وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے عام طورپر ضمنی انتخابات میں حکومتی پارٹی کا پلڑا ہی بھاری ہوتا ہے۔
نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد لاہور میں خطاب کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ اب خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ عوامی اجتماعات سے خطاب بھی کریں گے، اپنی پارٹی کی سیاست کو مزید فعال کریں گے۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اب وہ جارحانہ سیاست کا آغاز کرنے کی کوشش کریں گے ، انھوں نے لاہور کے جلسہ عام میں اعلان کیا کہ وہ اب انقلاب کی جانب قدم بڑھائیں۔ ایک سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل اور آمر کی گود میں پل کر سیاست میں قدم جمانے والے ایک شخص کے منہ سے انقلاب کا لفظ عجیب سا معلوم ہوتا ہے غالباً نواز شریف نے دنیا میں آنے والے بڑے انقلابات کی تاریخ نہیں پڑھی ورنہ وہ کم از کم انقلاب کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے، نواز شریف اسلام آباد سے لاہور کے طویل سفر کے دوران جارحانہ انداز اور لب و لہجہ میں عوام سے مخاطب ہوکر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ اب زیادہ جارحانہ انداز میں مقتدر قوتوں کو للکارنا اور اپنی نااہلی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے تمام حدود وقیود پار کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ ابھی انھیں اپنے خلاف کرپشن کے متعدد مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے ان ہی عدالتوں کے سامنے بار بار پیش ہونا ہے جن کے فیصلوں کو وہ ردی کا ٹکڑا ثابت کرکے عوام کو جن کے خلاف محاذ آرائی کے لیے کھڑا ہونے پر اکسا رہے ہیں۔ تا کہ وہ عوام میں خود کو ہیرو کے طورپر پیش کرسکیں اور عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموارکرسکیں۔ ان کے لہجے کی تلخی یہ بتا رہی ہے کہ پارٹی رہبر کے طور پر آئندہ انتخابی مہم کو گرمائیں گے۔ ان پر بطور وزیر اعظم جو پابندیاں تھیں وہ ان سے آزاد ہو چکے ہیں۔
اس آزادی کا استعمال انھوں نے بھر پور انداز میں شروع بھی کر دیا ہے۔ ان کی ریلی کے دوران تقریریں اس بات کی جانب واضح اشارے بھی کر رہی ہیں کہ وہ جن قوتوں کے ساتھ مل کر اپنی سیاست کرتے رہے ہیں وہ اب مزید ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس بار ان کو حکومت سے الگ کرنے میں ان ہی قوتوں کا کردار ہے۔ نواز شریف نے جوشِ خطابت میں جس طرح عدلیہ کو مخاطب کیا اس کی بھی مثال ملنی مشکل ہے وہ واشگاف انداز میں اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ کروڑوں عوام کے ووٹ کی پرچی 5 معزز ججوں نے پھاڑ کر پھینک دی۔ ان کی تقریروں سے ریاست کے اداروں کے میں ٹکراؤ اور واضح تقسیم کا خطرہ نظر آ رہا ہے جو نیک شگون نہیں ہے۔ میاں نواز شریف یہ صورتحال کیوں پیدا کرنا چاہ رہے ہیں جب کہ وہ خود اس نظام کا حصہ ہیں اور ان کی پارٹی ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھال رہی ہے۔ وہ نا اہلی کے بعد اپنی تمام تر شائستگی کو بالائے طاق رکھ کر صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں اور تسلسل کے ساتھ عوام کو اس بات پر اْکسا رہے ہیں کہ انھیں عدلیہ کے فیصلے کوقبول نہیں کرنا چاہئے، وہ بالفاظ دیگر وہ عوام کوعدلیہ کے خلاف سڑکوں پر نکلنے اور ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر حملے کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ نواز شریف جیسے لیڈر کی جانب سے اپنی سیاست کو دوام دینے کے لیے اس طرح کی باتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ طویل عرصے تک برسراقتدار رہنے کے باوجود وہ ابھی تک سیاسی طورپر بالغ نہیں ہوسکے ہیں ،انھیں اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں ہے اور اقتدار سے بے دخلی کے فیصلے نے ان کو ذہنی طور پر متاثر کردیاہے، ان کو اب یہ سوچنا چاہئے کہ اب بہت جلد پنجاب اوروفاقی حکومت کی بیساکھیاں استعمال کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا اوران کو اپنی سیاست اب اپنے زور بازو پر ہی کرنی پڑے گی اور ایسا کرنے کے لیے انھیں زیادہ سنجیدگی اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا اورمظلوم اور معصوم عوام کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ریاست کے اداروں کے خلاف بھڑکانے سے گریز کرتے ہوئے ان کی طاقت کو مثبت انداز میں استعمال کرنا ہوگا کیونکہ ان اداروں کی وجہ سے ہی ریاست چل رہی ہے اور اگر سیاستدانوں کو سیاست کرنی ہے تو اس کے لیے مستحکم ریاست کا وجود ضروری ہے۔ اگر نواز شریف نے اب بھی نوشتۂ دیوار پڑھنے سے گریز کا رویہ اختیار کیے رکھا تو بہت جلد مسلم لیگ کی قیادت بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
ہم نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کا کہا تھا، حکمرانوںنے اسلام آباد بند کیا ہے ، ہم کسی بندوق اور گولی سے ڈرنے والے نہیں ، یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے تھے مگر ہم پولیس والوں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتے حکمران سوئے ہوئے ہیں مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے ، اسرائیلی وح...
پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے ، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے ، اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے ، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا ، ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں(پیپلزپارٹی) ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے ،...
نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس کا جی میل اور مائیکروسافٹ 365پر 2ایف اے بائی پاس حملے کا الرٹ رواں سال 2025میں ایس وی جی فشنگ حملوں میں 1800فیصد اضافہ ، حساس ڈیٹا لیک کا خدشہ جعلی لاگ ان صفحات کے ذریعے صارفین کی تفصیلات اور او ٹی پی چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔نیشنل ک...
خالص آمدنی میں سے سود کی مد میں 8 ہزار 106 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہوگی وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 111 ارب روپے لگایا گیا ، ذرائع وزارت خزانہ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال 26-2025 کے لیے وفاقی بجٹ خسارے کا تخمینہ 7 ہزار 222 ارب...
حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے وزیراعظم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر 7روزہ انسداد پولیو کا آغاز کر دیا وزیراعظم شہباز شریف نے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک...
سندھ کے پانی پر قبضہ کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہی نہیں بلایا گیا پاکستان میں استحکام نہیں ،قانون کی حکمرانی نہیں تو ہارڈ اسٹیٹ کیسے بنے گی؟عمرایوب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے حکومتی اتحاد پر...
پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے ، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے ، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرن...
وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو ا...
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان ، شاہ محمود کی جیل روبکار پر حاضری لگائی گئی عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی 9 مئی کے 13 مقدمات میں ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کردی گئیں جس کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مق...
واپس جانے والے افراد کو خوراک اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں 9 لاکھ 70 ہزار غیر قانونی افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئ...
حملہ کرنے والوں کے ہاتھ میں پارٹی جھنڈے تھے وہ کینالوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ٹھٹہ سے سجاول کے درمیان ایک قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کیا، وزیر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے...
کان کنی اور معدنیات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بہترین موقع ہے غیرملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار دوست ماحول اور تمام سہولتیں فراہم کریں گے ، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں ...