... loading ...
سرِدست ایک فرضی کہانی ملاحظہ ہو، جو ‘ڈونچار’ کے حوالے سے سننے کو ملی۔ اس کے بعد میں نہیں مانتا کہ آپ زندگی میں کم از کم ایک بار اس پیاری آبشار کو دیکھنے کا پروگرام نہیں بنائیں گے۔قدیم زمانے کے لوگوں کاکہناہے کہ”پہلے پہل اس آبشار میں اتنا پانی نہیں ہوا کرتا تھا، یہ ایک چھوٹی سی آبشار تھی۔ پھر ننگو نامی ایک دیو اس علاقے میں ایک پیاری پری کے ساتھ وارد ہوا اور جیسے ہی اس آبشار کے اوپر چڑھا، دیکھتے ہی دیکھتے پانی کی ایک بڑی مقدار اوپر سے گرنے لگی۔ یہ بھی مشہور ہے کہ پہاڑی کے اوپر ایک جھیل ہے، وہاں سے پانی کے اخراج کے کئی راستے ہوا کرتے تھے۔ننگو دیو کے اوپر چڑھتے ہی سارے راستے بند ہوئے اور پانی کا اخراج اسی آبشار کے ذریعے شروع ہوا، جس کی وجہ سے آج تک جو بھی اس آبشار کے پاس سے گزرتا ہے، پانی کی بھاری آواز کی وجہ سے ایک بار جھرجھری ضرور لیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈونچار علاقے کا ایک گڈریا روز آبشار کے پاس سے بکریاں چرانے آتا۔ وہ بسا اوقات ترنگ میں آ کر بانسری بجاتا اور اس کے سْر جیسے ہی پری کی سماعت سے ٹکراتے تو وہ سسک سسک کر روتی۔ دوسری طرف پْرشور آبشار میں گڈریے کو کسی کے سسکنے کی آواز سنائی دیتی جسے وہ اپنا وہم گردانتا۔
ایک روز گڈریے کے خواب میں ایک بزرگ آیا اور ننگو دیو کے ظلم کے بارے میں ساری کہانی لفظ بہ لفظ سنائی۔ ساتھ ننگو کو ختم کرنے کا طریقہ بھی اسے سکھایا جو کہ بہت سہل تھا۔ ننگو روزانہ صبح سویرے ڈونچار کے علاقے سے نکلتا اور سرِ شام جیسے ہی آتا، پری پر نظر ڈالتا، اْس سے دل بہلاتا اور پھر لمبی تان کر سو جاتا۔
بزرگ نے خواب میں ایک مخصوص پودے کے بارے میں گڈریے کو بتایا کہ اسے کاٹ کر جیب میں رکھنا اور جیسے ہی ننگو سو جائے، تو اْسے احتیاط سے سونگھانا۔ منصوبے کے مطابق گڈریے نے چودھویں کی ایک رات کو ہمت باندھی اور آبشار کے اوپر چڑھ کر ننگو کو جیسے ہی پودا سونگھایا، وہ جل کر بھسم ہو گیا اور یوں پری کو آزادی ملی۔ کہتے ہیں کہ آج بھی چودھویں رات کو پری آبشار کے اوپر کھڑی ہو کر اْس گڈریے کا شکریہ ادا کرنے ضرور آتی ہے۔”
ڈونچار کالام کوہستان کی مقامی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی بھاری آواز کے ہیں۔ ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ اس کے معنی بازگشت کے بھی ہیں۔ڈونچار آبشار تک پہنچنے کے لیے مینگورہ شہر سے بحرین تک کا راستہ ایک پکی سڑک کی شکل میں موجود ہے۔ ضلع سوات کے صدر مقام سیدو شریف سے 57 سے 58 کلومیٹر کا یہ راستہ باآسانی ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ سیاحوں کو چاہیے کہ صبح سویرے سفر شروع کریں اور ناشتہ بحرین میں کسی چائے کے کھوکھے میں کریں۔ بحرین بازار میں ناشتے کیلئے ایک سے ایک اچھا کھوکھا یا ریسٹورنٹ موجود ہیں، جو کم خرچ ہونے کے ساتھ ساتھ معیاری ناشتہ بھی فراہم کرتا ہے ۔بحرین کے آگے راستہ کچا اور پْرخطر ہے۔ اس اْکتا دینے والے سفر میں تھوڑا سا سستانے اور دوپہر کا کھانا تناول کرنے کے لیے موزوں جگہ کالام بازار ہے، جہاں مختلف ریسٹورنٹ، مقامی و غیر مقامی کھانے آفر کرتے ہیں، بیشتر ریسٹورنٹ اہلِ پنجاب چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کالام بازار میں آپ کو ضرورت کی ہر چیز مل سکتی ہے۔
کالام سے آگے گھنے جنگل میں ایک دو راہا آتا ہے، جہاں سے ایک راستہ اتروڑ اور گوجر گبرال کی طرف نکلتا ہے جبکہ دوسرا مٹلتان کے علاقے سے ہوتے ہوئے جھیل مہو ڈنڈ، جھیل سیف اللہ اور ڈونچار آبشار تک نکلتا ہے۔
ڈونچار تک سفر صبر آزما ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے۔ راستے میں مشہور گلیشیئر، چشمہ ِ شفا، فلک بوس پہاڑ سے نیچے گرتی ہوئی ایک سحر انگیز آبشار اور علاقے کی بلند ترین چوٹی ‘فلک سیر’ کے نظارے مل کر راستے کی سختیوں کو یکسر بھلا دیتے ہیں۔فلک سیر چونکہ بیشتر بادلوں کی اوٹ میں رہتا ہے، اس لیے مشہور ہے کہ یہ اپنا دیدار نصیب والوں کو ہی کرواتا ہے۔ جاتے وقت ہمیں اس کا دیدار نصیب نہیں ہوا، مگر واپسی میں ہمیں اس عظیم چوٹی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اس سفر میں رات گزارنے کے لیے دو جگہیں آئیڈیل ہیں۔ پہلی جگہ جھیل مہو ڈنڈ ہے جبکہ دوسری جھیل سیف اللہ۔ دونوں جھیلوں کی شکل تقریباً ایک جیسی ہے، بس مہوڈنڈ قدرے بڑی ہے۔ مجھے بذاتِ خود جھیل سیف اللہ کافی پسند آئی جس کی بڑی وجہ وہاں کا صاف و شفاف ماحول تھا۔
مہو ڈنڈ میں چونکہ ہر وقت سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور سیاح پکنک منا کر یا دن گزار کر واپس جاتے ہوئے کچرا ٹھکانے لگانا بھول جاتے ہیں، ساتھ مہو ڈنڈ کی انتظامیہ بھی صفائی کے حوالے سے کوئی خاص اقدام نہیں کرتی، اس لیے بسا اوقات جھیل کی رونق کوڑے کی وجہ سے ماند پڑ جاتی ہے۔جھیل سیف اللہ کی انتظامیہ نسبتاً اس حوالے سے زیادہ سنجیدہ ہے۔ روزانہ شام کو جھیل کے ارد گرد چراگاہوں سے کچرا اٹھانے کا عمل شروع کیا جاتا ہے، جو قریب گھنٹہ بھر جاری رہتا ہے۔ بیشتر سیاح جھیل مہو ڈنڈ کو ہی اپنا منزل مقصود گردانتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جھیل سیف اللہ اور جھیل پنغال دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ جھیل مہو ڈنڈ اور سیف اللہ سے ہوتے ہوئے جھیل پنغال کے کنارے ڈونچار تک کا سفر کافی مسحور کن ہے، یوں ایک ٹکٹ میں آدمی کو تین مزے مل جاتے ہیں۔رات گزارنے کے بعد دوسرے روز باآسانی ڈونچار کے علاقے تک پیدل سفر شروع کیا جاسکتا ہے۔ مہو ڈنڈ اور جھیل سیف اللہ کے بیچ دس منٹ کا پیدل فاصلہ ہے۔ دونوں جھیلوں سے درمیانی چال چلتے ہوئے دو گھنٹے کی پیدل مسافت پر باآسانی ڈونچار آبشار تک پہنچا جا سکتا۔ڈونچار کو مقامی لوگ ‘چغو آبشار’ بھی کہتے ہیں۔ لفظ ‘چغہ’ کا اردو متبادل ‘چیخ’ ہے۔ نیلگوں پانی کے اوپر لکڑیوں سے بنا پْل پار کر کے آبشار تک دس منٹ میں پہنچا جاسکتا ہے۔
مہو ڈنڈ سے آگے پیدل سفر میں میٹھے پانی کے جھرنے، دائیں بائیں اوپر سے گرتی چھوٹی بڑی آبشاریں، چرند پرند اور زمرد سی رنگت لیے بل کھاتی ہوئی ندی مشامِ جاں کو معطر کر دیتی ہے۔ اوپر سے پانی کی ایک بڑی مقدار جب ساتھ گرتی ہے، تو زمین لرزتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔عموماً شور ہر کسی کو برا لگتا ہے، مگر ڈونچار کا پْرشور ماحول ایک عجیب سی طمانیت کا احساس دلاتا ہے۔ دو ڈھائی سو میٹر اوپر سے گرتا پانی پچیس تیس میٹر تک پھوار کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں جب سورج کی کرنیں اس پھوار پر پڑتی ہیں، تو ہوا میں مختلف رنگ اْڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
آبشار دور سے چیختی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ میری اس پر پہلی نظر پڑی، تو لگا کہ جیسے وہ شدت سے مجھے اپنی طرف بلا رہی ہے۔ جوں جوں آبشار نزدیک ہوتی جاتی ہے، توں توں اس کا پْرشور پانی دل کی دھڑکنوں کو تیز کرنے کا مؤجب بنتا ہے، ایسے میں اگر منگو دیو یاد آ جائے تو دل سینے میں دھکڑ پکڑ کرنے لگ جاتا ہے۔مگر دوسرے ہی لمحے یہ خواہش بھی سینے میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے کہ اے کاش، آج چودھویں کی رات ہو اور اس پیاری پری کا دیدار نصیب ہو جائے۔