... loading ...
ایران قدرتی خوبصورتی سے بھرپور ملک ہے۔ یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ میدانی علاقوں میں رہتا ہے لیکن ایران کے کچھ لوگ آج بھی غاروں میں بھی رہتے ہیں۔ یہ تصاویر اسی گاؤں کی ہیں۔یہ ایران کا ایک قدیم گاؤں میمند ہے۔ جو ایران کے دارالحکومت تہران سے تقریباً 900 کلو میٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔اس گاؤں کی آبادی خانہ بدوشوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے باشندے پہاڑی غاروں میں رہتے ہیں۔ ان غاروں کو ملائم پتھروں کو کاٹ کر اور تراش کر بنایا گیا ہے۔ٍان غاروں میں جس طرح کی نقاشی کی گئی ہے اس کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ غار دس ہزار سال پرانے ہیں۔ یونیسکو نے اس علاقے کو عالمی وارثہ قرار دیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ میمند کے غار تقریباً دو ہزار سال سے آباد ہیں۔ وسطی ایران کی زیادہ تر پہاڑیاں خشک ہیں اس لیے یہاں موسم گرما میں سخت گرمی اور موسم سرما میں سخت سردی ہوتی ہے۔موسم کے مطابق یہاں کے لوگ ان غاروں میں رہتے ہیں۔ سخت گرمی اور موسم خزاں میں لوگ چھپر ڈال کر پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ یہ چھپر تپتی دھوپ سے انھیں سایہ مہیا کرتا ہے جبکہ سخت سردی کے موسم میں یہ لوگ ان غاروں کے اندر چلے جاتے ہیں اور پوری سردی وہیں رہتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اب سے تقریباً دس ہزار سال پہلے پہاڑوں کو کاٹ کر 400 غاروں کو بنایا گیا تھا۔ ان میں سے اب صرف 90 باقی بچے ہیں۔ غاروں میں بنے ان مکانوں میں تقریباً سات کمرے ہوتے ہیں۔ ان کی لمبائی دو میٹر اور چوڑائی 20 میٹر ہوتی ہے۔بعض کمرے کم چوڑے اور کم بلند بھی ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے غاروں کا نام سن کر آپ کے دل میں خیال آ رہا ہو کہ یہ گھر قدیم زمانے جیسے ہوں گے تاہم ایسا نہیں ہے۔ یہاں رہنے والوں نے ان غاروں کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ آج آپ کو یہاں پر ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔جس شخص کی جو حیثیت ہے اس کی مناسبت سے وہ اپنے ان گھروں کو بھی رکھتا ہے۔ ان غاروں میں بجلی کی بھرپور سپلائی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں فریزر اور ٹی وی وغیرہ کا خوب استعمال ہوتا ہے۔ پانی کے لیے بھی لوگوں کو پریشان نہیں ہونا پڑتا ہے کیونکہ پانی یہاں پر بھرپور مقدار میں مہیا ہے البتّہ ہوا کا گزر ان گھروں میں بالکل نہیں ہوتا۔ کھانا بنانے پر گھر سیاہ نہ ہو اس کے لیے دیواروں پر کالی فلم لگا دی جاتی ہے۔ اس سے دھواں دیوار پر نہیں جمتا ہے اور آسانی سے اسے صاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے کمرے بھی زیادہ گرم نہیں ہوتے ہیں۔ میمند گاؤں کے بیشترافراد پارسی مذہب کے ماننے والے ہیں۔پارسی مذہب، ایران کا سب سے پرانا مذہب ہے۔ کسی دور میں یہاں پارسیوں کی بڑی آبادی رہتی تھی۔ اس کے کچھ نشانات آج بھی ملتے ہیں۔ کچن دو بندی ایسا ہی ایک غار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ پارسیوں کا مندر تھا لیکن 7 ویں صدی میں اسلام کے پھیلنے کے بعد یہ آثار ختم ہونے لگے۔آج بہت سے ایسے غار مساجد میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس گاؤں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ کاشتکار یا چرواہے ہیں۔ یہ اپنے مویشیوں کو انھیں پہاڑوں پر چرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں. جہاں جہاں خود وہ جاتے ہیں، وہاں وہاں اپنے ساتھ اپنے جانور بھی لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ان پہاڑوں میں جڑی بوٹیاں بھی تلاش کرتے ہیں۔یہاں کے باسیوں کا دعویٰ ہے کہ ان جڑی بوٹیوں کا استعمال کرنے سے ان کی صحت ٹھیک رہتی ہے۔ اس سے انھیں لمبی زندگی ملتی ہے. اگرچہ آج لوگ ان غاروں میں بسنے سے گریز کرتے ہیں۔ غاروں میں رہنے کے بجائے وہ آس پاس کے شہروں میں بسنے چلے جاتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں یہ خانہ بدوش لوگ واپس ان پہاڑوں پر آ جاتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق صرف 150 لوگوں کی آبادی ہی پورے سال ان پہاڑوں پر رہتی ہے۔ کم ہوتی آبادی کی وجہ سے اس علاقے کی شناخت مٹنے کا ڈر پیدا ہو گیا ہے۔ اس علاقے کا انوکھا معیار زندگی ہی اس علاقے کی شناخت ہے۔اس کے تحفظ کیلئے 2001 میں ایران کے ‘کلچرل ہیریٹیج ہینڈی کرافٹ اینڈ ٹورزم آرگنائزیشن’ نے ایک بیداری مہم شروع کی تھی۔ اسی کے بعد سے یہاں اب لوگوں کا آنا بڑھ گیا ہے۔ اب یہ علاقہ سیاحت کے ایک مقام کے طور پر تیار ہو گیا ہے۔
ان غاروں میں سیاح کچھ دن گزارنے کے لیے ٹھہرتے ہیںتاکہ وہ دور قدیم کے رہن سہن کا تجربہ کر سکیں۔ یہی اس علاقے کی شناخت ہے۔ اگر کبھی موقع ملے تو آپ بھی میمند گاؤں کی سیر کیلئے جائیں۔ یقیناً یہاں رہنے کا تجربہ آپ کی زندگی بھرکیلئے یادگار رہے گا۔