وجود

... loading ...

وجود

جلدبازی کی لکیر

اتوار 13 اگست 2017 جلدبازی کی لکیر

جلد بازی میں جو بھی کام کیا جائے اس کا نتیجہ عموما تر خراب ہی نکلتا ہے۔ تمناؤں اور چاہتوں کی جلد از جلد تکمیل انسان کی فطری آرزو ہے، سورہ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، انسان کو جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ جلدبازی بنی نوعِ آدم کے خلاف شیطان کا ہتھیار ہے، جلد بازی کے نتائج نقصان اور پشیمانی کی صورت میں نکلتے ہیں ۔ جلد بازی میں کوئی کام ممکن نہیں تو ملکوں کی تقسیم جلد بازی میں کہاں ممکن ہوسکتی ہے۔ برطانوی راج کو برصغیر کو تقسیم کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ اس نے تقسیم کے معاملے میں مسلمانوں کے خدشات کو رد کیا، ان کے حقوق کو پامال کیا، ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا۔ یہ سب کچھ جلدبازی میں کیا گیا، سب سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم کی تاریخ جون 1978سے پہلے15اگست 1947کر دی۔ سوال یہ ہے کہ انگریز نے کیوں طے کیا کہ سب کچھ جلدبازی میں کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ تقسیم کی لکیر کھینچنے کے لیے برطانیا میں جس وکیل سر سِرل ریڈکلف کو منتخب کیا گیا وہ اس سے پہلے کبھی ہندوستان آیا تھا نہ اس کو ہندوستان کی سیاسی سماجی یا مذہبی مسائل اور مشکلات میں کوئی دلچسپی تھی۔ سر ریڈ کلف کو وسیع و عریض برصغیرکا بٹوارہ کرنے کے لیے صرف سات ہفتے دیے گئے، یہاں تو معمولی جائیداد کی تقسیم میں کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ ریڈ کلف کی غیر جانبداری اور مسلمانوں سے بغض پہلے دن سے صاف ظاہر تھا۔ ریڈکلف کو وائسرائے ہند اور اس کے دفتری عملے سے رابطہ رکھنے سے منع کیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جب تک ہندوستان میں رہا، وائسرائے ہاؤس سے مسلسل رابطے میں رہا۔ رازداری کے دعوے کے باوجود ریڈ کلف نے کچھ فیصلے کانگریس کے کہنے پر بھی بدلے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پنجاب کے کچھ مسلمان اکثریت کے علاقے بھارت کو مل گئے۔
ایسی کیا جلدی تھی کہ انگلستان واپس جاتے ہی ریڈکلف نے اپنے سارے کاغذات ضائع کردیے۔ایسا کیوں ہوا؟ کہاگیا کہ اس کا طریقہ یہی تھا کہ جن کاغذوں کی ضرورت اسے نہ ہوتی تھی وہ کام ختم ہوجانے کے بعد انہیں ضائع کردیتا تھا۔ لیکن تقسیم کے وہ کاغذات جو ریڈکلف نے ضائع کیے وہ اس کے ذاتی نہ تھے بلکہ دونوں نئی حکومتوں بھارت اور پاکستان کی مشترکہ ملکیت تھے۔ ریڈکلف کے واپس جاتے وقت وہ کاغذات اس سے واپس کیوں نہ لے لیے گئے؟ اس سے شک پیدا ہوتا تھا کہ تقسیم کے کچھ فیصلے عام دیانت داری پر بھی مبنی نہ تھے۔ جہاں جلدی کرنی تھی وہاں ماؤنٹ بیٹن نے جان بوجھ کر دیر کی، ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف کے فیصلے پندرہ اگست1947کے بعد کیوں شائع کیے اور کیوں اس نے انھیں مہینوں دبائے رکھااور عوام کی بڑی تعداد کو اپنی تقدیر کے بارے میں شک میں مبتلا رکھا؟ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پْرتشدد واقعات میں بیس لاکھ افراد مارے گئے، کم وبیش ایک کروڑ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی،تقسیم ہند کے وقت ہونیوالی ہجرت کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت قرار دیا جاتا ہے۔
تقسیم سے پہلے ہی کشت و خون بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا تھا لیکن وائسرائے نے اس کے تدارک کے لیے کوئی موثر کارروائی نہ کی، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سر ریڈ کلف نے کس دباؤ کے تحت ،اتنے کم وقت میں اور ناقص معلومات کی بنیا د پر سرحد سازی کاکام کیوں قبول کیا،جب کہ اسے اس کام کا کوئی ارداک اور تجربہ بھی نہیں تھا۔ جلد بازی ہمیشہ افسوس اور ندامت پر ختم ہوتی ہے، اسی لیے جب ریڈکلف نے اپنی تقسیم کا نتیجہ ایک ایسے انسانی المیے کی صورت میں دیکھا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی تو اس نے اپنے کام کی فیس جو چالیس ہزار روپے تھی سرکار برطانیہ کو واپس کردی تھی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر