... loading ...
چینی کی بے چینی شیطان کی آنت کی طرح مسلسل پھیلتی جارہی ہے اور عوام کواب 65 روپے فی کلو سے بھی زائد قیمت پر مہیا ہے ۔سود خور نودولتیے صنعتکاروں نے شوگر ملوں میں لاکھوں ٹن چینی کا ا سٹاک کر لیا ہے چونکہ سارا صنعتی کاروبار سود پر لی گئی ادھار رقوم سے ہی چلتا ہے اور کارخانہ دار پرانی رقوم اور سود ادا نہ کرنے کی وجہ سے مزید سود در سود یعنی سود مرکب پر رقوم حاصل کرتے ہیں جس کی شرح انتہائی زیادہو تی ہے اور اس کی وجہ سے بینکر گھر بیٹھے کروڑوں کماتے ہیں ،اسی کو سرمایہ کا سرکل (Capital Circle)کہا جاتا ہے اس لیے کارخانوں میںبننے والی اشیاء چینی وغیرہ انتہائی مہنگے داموں پر بکتی ہیں، یہی حالت دیگر سبھی کارخانوں میں بھی جاری رہتی ہے آپ جب تک دنیا کے غلیظ ترین اور غیر اسلامی سودی نظام کو جاری رکھیں گے عوام الناس کومل پراڈکٹس مہنگے داموں ہی پہنچ سکے گیں اور دن رات مہنگائی سانپ کی لکیر کی طرح بڑھتی ہی رہے گی کہ صنعتوں کے مالک ڈھیروں منافع کمانے والے سرمایہ داروں کی طرف سے رائی برابر بھی رعایت کسی صورت ہی ممکن نہیں ہوتی سبھی صنعتکاروں کا آپس میں ایکا ہوتا ہے کوئی دوسرا مل والا ریٹ کم کر ہی نہیں سکتا بلکہ میل ملاپ کے ذریعے جو بھی ریٹ چاہیں اس کا ہی اعلان ہوتا ہے ان کی نام نہاد یونین بھی ہوتی ہے تاکہ عوام کو لوٹنے کے غلیظ ترین عمل میں سبھی ایک دوسرے کا بازو تھام کر رکھیں چینی کی قیمتوں میں بڑھوتری اور اس کے مارکیٹ میں سے غائب کر ڈالنے میں حکومت کا برابر کا حصہ ہوتا ہے امسال کی طرح پہلے چینی کی بہتات دکھا کرہزاروں لاکھوں ٹن چینی برآمد کردی جاتی ہے اور یہ عمل بھی حکومت سے سبسڈی لے کر کیا جاتا ہے یعنی” چوپڑی ہوئی اور وہ بھی دو دو”کے مصداق یہ سارا برآمدی عمل مکمل ہوتا ہے ایسے کاروباروں میں وزارت تجارت،دیگر حکومتی کارپردازوں،بنکرز کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں متعلقہ شوگر مل مالکان کے ساتھ مل کر اربوں روپوں کا خزانوں کو نقصان پہنچا ڈالنا صرف ان کے ایک قلم (پین) کے ا سٹروک کا ہی کمال ہوتا ہے پھر چینی کی کمی کا رونا ہوتے ہوئے اور چینی کی روزانہ مقرر کردہ قیمتوں پر نہ بیچنے کے لیے مل مالکان اس کا اسٹاک کر لیتے ہیںاور ملک میں عارضی طور پر چینی کا قحط محسوس ہونے لگتا ہے ملوں سے چینی نکلے گی ہی نہیں تو آگے دوکانداروں کے پاس کہاں سے آئے گی یہ دنیا کا غلیظ ترین حربہ غالباً پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں رائج نہ ہے کہ لاکھوں ٹنوں کے حساب سے چینی ملوں میں ا سٹاک شدہ موجود ہوتی ہے مگر عوم تک نہیں پہنچ پاتی اس لیے ریٹ میں کئی روپوں کا اضافہ ہو جاتا ہے اور کمر ٹوٹتی ہے تو صارفین کی کہ وہ مقدس گائے کی طرح سر جھکائے سب کچھ ظالمانہ طور طریقے پر برداشت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں ان حالات پر ہی حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا نے فرمایا کہ جو بھوکوں مرتے ہیں وہ غلہ گوداموں پر پل کیوں نہیں پڑتے ؟
کیا حکمران ا سٹاک کردہ چینی کے انباروں کوملوں سے باہر نکلوا کر مارکیٹ میں لاسکتے ہیں ہر گز نہیں کیونکہ اس اقدام میں تو اُن کابرابر کا حصہ ہوتا ہے یعنی چور اور کُتی ملے ہوئے ہوتے ہیںتبھی چوری کرنے میں آسانی ہوتی ہے، پولیس کو بھی حصہ بقدر جثہ ملتا رہتا ہے۔ وہ بھی صابن کے جھاگ کی طر ح خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، کوئی پوچھے تو جواب دیتے ہیں کہ ہمارا اس معاملہ میں کیا لینا دینا ہے۔ یہ تو اوپر والی سطح کی ہی پالیسی ہے پورے ملک کی شوگر ملوں کے سبھی مالکان ہی حکمران طبقات سے تعلق رکھتے ہیں سندھ کی تمام ملیں زرداری نے زبردستی اور دھونس سے مالکان سے اونے وپنے داموں خرید رکھی ہیں اور اب وہ گنے کے مالکان کسانوں سے زبردستی کرتے ہیں کئی کئی سال تک کسان شوگر ملوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں مگر پیسے نہ ملنے ہوتے ہیں اور نہ ہی ملتے ہیں اس لیے ملک بھر میں اور سندھ میں تو بالخصوص سخت غنڈہ راج قائم ہے۔پنجاب کی زیادہ ملیں شریفوں اور گجراتی چوہدریوں کی ہیں جن کے نزدیک بھی غریب گنا بیچنے والے کسان پھٹک بھی نہیں سکتے اب چینی کی کمی قرار دیکر دوبارہ باہر سے چینی درآمد کی جائے گی مل مالکا ن پھر حکومت سے سبسڈی لیں گے اور اس طرح بہر حال مہنگے داموں ہی سہی چینی عوام تک پہنچتی رہے گی سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی حکمرانیوں میں عوام سخت استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ہر چیز کے داموں کا تعین کرنا ان ظالم طبقات کی صوابدید پر ہی ہوتا ہے اس طرح وہ اربوں کماتے ہیں یہ رقوم مفلوک الحال عوام کی ہی جیب سے نکلتی ہیں۔در اصل اس کا صرف اور صرف حل یہی ہے کہ تمام شوگر ملوں کا انتظام ظالم سود خور صنعتکاروں سے واپس لے کر انہی کی ملوں کی منتخب مزدور یونینز کے حوالے کیا جائے مالکان کو اس میں سے وافر منافع ملے اور مزدوروں کو بھی منافع میں حصہ دار بنایا جائے اس طرح مزدور زیادہ محنت کریں گے کسان بھی خوشحال ہوگا کہ اسے بروقت گنے کی رقوم ملیںگی اور پھر چینی کی قیمت بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔
٭٭…٭٭