... loading ...
کئی مہینوں سے کشمیر میں تحریک آزادی کے مذہبی پہلو کو لے کر نہ رُکنے والی بحث کاآغاز بہت ہی زور و شور سے شروع کیا جا چکا ہے اور تحریک سے وابستہ ہر بزرگ اور جوان اس بات کو لیکر بہت پریشان ہے کہ آخر اٹھائیس برس بعد اس بحث کا آغاز کیوں کیا گیا اور جاری قتلِ عام کے بیچ کنفیوژن پیدا کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟یہ بحث حزب المجاہدین کے سابق کمانڈر ذاکر موسیٰ کے ایک آڈیو بیان کے سامنے آنے کے بعد شروع ہوئی ہے ۔نوجوانوں کے اصرار پر میں نے ذاکر موسیٰ کا آڈیو پیغام سوشل میڈیا پر سنا ۔جس میں موصوف نے تحریک کشمیر کے مذہبی پہلو پر بات کرتے ہو ئے علمائِ کرام اور حریت لیڈران پر نہ صرف سخت تنقید کی ہے بلکہ علماء کو ڈرپوک اور بزدل ہو نے کے طعنوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ حریت لیڈران کو لال چوک میں لٹکانے کی بھی دھمکی دیدی ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ لوگ تحریک آزادی کشمیر کو سیاسی تحریک یا سیاسی اشو قرار دیتے ہیں مذہبی نہیں ۔اس بیان کا اثر نہ صرف یہ کہ ابھی تک موجود ہے بلکہ نوجوان طبقہ نے اس حوالے سے کئی جگہوں پر جلسوں اور جلوسوں میں اس کے حق میں نہ صرف نعرے بلند کئے بلکہ ’’شہداء کی میتوں‘‘ پر پاکستانی پرچم ڈالنے کی رسم کو توڑتے ہو ئے کالے پرچم (جو داعش کے جھنڈوں سے کافی مماثلت رکھتے ہیں)ڈالنے کا آغاز کیا اور حال ہی میں سجاد گلکار کی تکفین کے موقع پر پاکستان نوازوں کے صبر کے نتیجے میں معاملہ ناخواشگوار صورت اختیار کرنے سے رہ گیا ورنہ شاید بات آگے بڑھ کر جنگ و جدال تک پہنچ جاتی ،یہی وجہ ہے کہ حریت کانفرنس کے بزرگ لیڈر سید علی گیلانی نے 20جولائی2017ء کو اس صورتحال پر تفصیلی بیان جاری کرتے ہو ئے کہا کہ’’کچھ شر پسند عناصر ”جہاد کے نام پر فساد“ والے اس رحجان کو کشمیر بھی درآمد کرانا چاہتے ہیں، تاکہ اس کی آڑ میں” نظریہ پاکستان اور آزادی پسند قیادت کے خلاف وہ اپنی بھڑاس کو نکال سکیں اور قوم کو انتشار اور افتراق کے حوالے کرکے اپنی بیمار نفسیات کو تسکین فراہم کرسکیں، سید گیلانی نے بعض مقامات پر چند گِنے چُنے لوگوں کی طرف سے چاند تارے والے جھنڈے کی توہین کرنے اور مسلمہ آزادی پسند قیادت کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کو ایک بڑی گہری سازش کا شاخسانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ مہم جوئی خون سے سینچی ہوئی تحریکِ آزادی کو کنفیوژن کے حوالے کرنے اور کشمیریوں کی مظلومیت سے توجہ ہٹانے پر منتج ہوگی۔ اس سے بھارت کو بھی یہ پروپیگنڈا کرنے میں بڑی مدد ملے گی کہ کشمیر عالمی دہشت گردی سے جُڑا ایک معاملہ ہے اور اس کی افواج جموں کشمیر میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے اور جبروزیادتیاں ڈھانے میں حق بجانب ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ نیا رحجان کچھ بیمار ذہنیت اور احساسِ محرومی کے شکار لوگ بھی پیدا کرا رہے ہیں اور گنتی کے چند نا فہم بچے بھی اس میں غیر شعوری طور پر استعمال ہورہے ہیں۔‘‘(21جولائی 2017ء ۔روزنامہ بلند کشمیر سری نگر )
ہمارا تعلق ایک ایسی قوم ہے جو کئی طرح کے المیوں کے مجموعات میں جی رہی ہے یہاں جو جس طرح چاہتا ہے مسائل پر بات کرتا ے ۔کچھ سیکھے پڑھے بغیر ہی ہر فرد کشمیر میں عالم ہے ۔سوشل میڈیا کی دریافت کے بعد یوٹیوب اور انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے مختلف مبلغوں اور واعظین کی تقاریرسن کر ایسی جماعت وجود میں آچکی ہے جو اپنے سواء ہر فرد کو جاہل ،مشرک اور منافق قرار دیتی ہے ۔اسی پر بس نہیں بلکہ جو ان کی فکر یا مسلک کا حامی نہیں ہے اس کے لئے تمام تر عذاب و عتاب کی وعیدیں کتابوں سے تلاش کر کے سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہیں اور جو ’’اپنے‘‘ہیں وہ موحد،اہل سنت ،اہل الحق اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے اعزازت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اس ذہنیت میں نوجوانوں کی بڑی پود مبتلا ہو چکی ہے ۔یہی نہیں بلکہ اس طبقے کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ دنیاوی مسائل میں اختصاص کو دل و دماغ سے قبول کرتے ہو ئے نہ صرف شعبہ صحت میں اچھے اسپیشلسٹ ڈاکٹر کی تلاش رہتی ہے بلکہ والدین خود ’’پی ،ایچ،ڈی ‘‘اسکالر ہونے کے باوجود شعبہ تعلیم میں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر مندی کو لیکر ایسے’’ ٹیوشن سینٹر‘‘کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں تمام تر مضامین پڑھانے والے قابل ترین اساتذہ جمع ہوں ۔یہی مشاہدہ معیشت ،معاشرت اور سیاسیات کے میدانوں میں ہو رہا ہے سوائے ایک دین کے جہاں مسلمان ہونا کافی ہے اور اگر کوئی نوجوان ایسا ہو جس کا تعلق کسی بھی مذہبی جماعت سے ہے تو پھر الحفیظ والامان۔وہ خود ہی نہ صرف عالم و فاضل ہے بلکہ مفتی ،مفسر اور محدث بھی !اور تو اور بعض نوجوانوں کی باتیں سن کر بے ساختہ یہ شعر زبان پر آتا کہ ’’حیراں ہوںکہ دل کو روؤںکہ پیٹوں جگر کو میں،مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں‘‘کے مصداق مسائل اس قدر گمبھیر سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ یہاں تک فرما جاتے ہیں کہ کیا ہم خود اجتہاد نہیں کر سکتے ہیں ہم نے تو اتنی کتابیں پڑھی ہیں اور اتنا لٹریچر میرے گھر میں ہے۔ یہ میں ذاکر موسیٰ نامی مجاہد نوجوان سے متعلق نہیں لکھ رہاہوں بلکہ نئی نسل کی نا پختہ ذہنیت کوالفاظ کے روپ میں پیش کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ’’گہرے دینی علوم سے ناآشنا ‘‘ جس کشمیر میں ہم رہتے ہیں وہاں کے اسلام پسند نوجوانوں کی علمی،فکری اور ذہنی حالت کس قدر پریشان کن ہے ۔
اس خام ذہن کا بعض مکاتب فکر نے خوب فائدہ اٹھا کر امت مسلمہ میں ایسی خلیج پیدا کر دی کہ بظاہر اس کو پاٹنا ناممکنات میں نظر آتا ہے ۔کشمیر میں پہلی بار تحریک آزادی کے مذہبی پسِ منظر پر سوالات نہیں اٹھائے گئے ہیں بلکہ ڈاکٹرجاوید غامدی صاحب،مولانا وحید الدین خان صاحب جیسے تمام تر جہادی اور مذہبی تحریکات پر شدید تنقید ہم ہندوستان سے کون سی ماضی کی غلطی کی شکایت کریں گے ؟ان کے نزدیک تب تو وہ ہیرو ہے اور اس نے اکھنڈ بھارت کی خدمت کی ہے ۔برعکس اس کے جب ہم اس کے غلط اور عوامی خواہشات کے بالکل الٹ سیاسی فیصلے کی شکایت کرتے ہیں توبھارت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اس پر غور و فکر کی زحمت گوارا کرتی ہے اور بعد کی اقوام متحدہ کی قراردادیں ہماری بات میں وزن پیدا کرتی ہیں کہ مہاراجہ نے ایک متعصب ہندؤ کی حیثیت سے ایک سیاسی مسئلے پر غلط سیاسی فیصلہ لیکر ایک قوم کی خواہشات کا خون کرتے ہو ئے انہیں بھارت میں دھکیل کر برصغیر کے وجود میں ناسور پیدا کردیا۔
(جاری ہے)