... loading ...
وفاقی کابینہ تشکیل پا گئی جس میں 47 وزیر اور وزراء مملکت شامل ہیں یوں معاشی مسائل میں گھرا ہوا ملک اور بھاری بھرکم کابینہ کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے دنیا کے 8 ترقی یافتہ ممالک کی کابیناؤں کا جائزہ لیں تو ان میں سب سے بڑی کابینہ کینیڈ ا کی ہے جس میں 30 اور سب سے چھوٹی کابینہ جرمن کی ہے جس میں صرف 14 وزیر ہیں امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے اور عملاً دنیا کے ایک بڑے حصہ پر حکمران ہے لیکن اس کی کابینہ بھی 15 ارکان پر مشتمل ہے فرانس کی کابینہ 16 ،روس کی کابینہ21 ،چین کی کابینہ20 اوربرطانیہ کی کابینہ 21 ،پڑوسی ملک بھارت کی کابینہ بھی پاکستانی کابینہ کے حجم سے چھوٹی ہے جس میں 27 وزیر شامل ہیں ۔
47 رکنی کابینہ کے بعد ابھی اس میں توسیع کا واضح امکان موجود ہے کہ اس میں شامل بہت سے وزراء مملکت ،وزیرمملکت بنائے جانے پر خوش نہیں ہیں اور وہ مکمل وزیرکا درجہ چاہتے ہیں اسی طرح وزیرداخلہ احسن اقبال اور وزیر مملکت برائے امور داخلہ طلال چوہدری کے درمیان اختلافات بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں احسن اقبال طلال چوہدری کو بطور وزیرمملکت قبول کرنے کو تیار نہیں جبکہ طلال چوہدری بھی وزیرمملکت بنائے جانے پر خوش نہیں ہیں اور مکمل وزیر کا درجہ چاہتے ہیں ۔دانیال عزیز وزیر نہ بنائے جانے پر ناراض ہیں اور جس کا اظہار بھی وہ کھلے عام کر چکے ہیں ۔
ہم نے اوپر جی8 ممالک کی کابیناؤں کا جائزہ لیا ہے یہ وہ ممالک ہیں جو دنیا پر معاشی حکمرانی کر رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی کابینہ 30 ارکان سے زائد نہیں لیکن پاکستان میں 47 رکنی کابینہ تشکیل پا چکی ہے جبکہ اس میں اضافہ کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا جبکہ آئین کی 18 ویں ترمیم میں کہ کابینہ بشمول مشیر اور معاونین خصوصی سمیت کابینہ کا حجم مذکورہ اسمبلی کے ارکان کے11 فیصد سے زائد نہیں ہو گا یوں پاکستان کی کابینہ اس ترمیم کے بعد زیادہ سے زیادہ 38 ارکان سے زائد پر مشتمل نہیں ہو سکتی جن میں وزراء ،وزراء مملکت ،مشیر اورمعاونین خصوصی شامل ہیں ۔
ایک وزیر کا کم وبیش خرچ 2 کروڑ روپے ماہانہ ہوتا ہے یوں وزراء کا ماہانہ خرچ تقریباً1 ارب روپے ہوتا ہے جبکہ اضافہ کی صورت میں یہ خرچ مزید بڑھ سکتا ہے ایک جانب عوام کو سرکاری اسپتالوں میں نہ تو ادویات میسر ہے نہ علاج معالجہ کی سہولیات ،اسکول لائبریوں ، لیبارٹریوں اور فرنیچر سے بھی محروم ہیں ۔ملک کے کسی بھی شہر میں صحت وصفائی کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے اور وجہ ایک ہی ہے وسائل کا نہ ہونا ۔
نوازشریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے نتیجہ میں تحلیل ہونے والی کابینہ کے کئی ارکان شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شامل نہیں ہیں جن میں سرفہرست چوہدری نثار احمد کا نام آتا ہے چوہدری نثار احمد جن دنوں وزیرداخلہ تھے اس عرصہ میں اگرچہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اس کی روح کے مطابق نہ ہو سکا لیکن چوہدری نثار احمد کے تعلقات مقتدر اداروں سے بہت مستحکم تھے اور ملک کے مختلف حصوں میں جو امن قائم ہوا ہے اس میں چوہدری نثار کا کردار بہت واضح ہے ۔انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرایااگرچہ سندھ میں رینجرز کو دئیے گئے اختیارات میں بار بار رخنہ ڈالا گیا اور رینجرز کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن ہر اس مرحلہ پر جب سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع سے گریز کا راستہ اپنایا تو چوہدری نثار نے واضح پیغامات دیئے کہ اگر سندھ حکومت اختیارات میں توسیع نہیں کرتی تو وفاقی حکومت آئین میں حاصل اختیارات کے تحت ناصرف رینجرز کے اختیارات میں توسیع کر دے گی بلکہ ایک بار ایسی توسیع کے نتیجہ میں سندھ حکومت کا اختیار ختم ہو جائے گا اور آئندہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملہ وفاق اپنے ہاتھ میں لے لے گایہی وہ پیغام تھا جس کے بعد سندھ حکومت پس وپیش کے بعد رینجرز کے اختیارات میں توسیع کرتی رہی چوہدری نثار کو بھی اس پس وپیش پر کوئی اعتراض نہ تھا کہ اس طرح سندھ حکومت کو جہاں سیاسی فیس سیونگ کا موقع مل رہا تھا وہی یہ پس وپیش سندھ حکومت کو عوام خصوصاً کراچی میں بے نقاب کرنے کا سبب بھی بن رہا تھا چوہدری نثار نئی کابینہ میں شامل نہیں ہیں اب شاہد خاقان عباسی (نواز شریف) نے انہیں پسند نہیں کیا یا وہ اس ڈوبتی ناؤ میں سوار نہیں ہونا چاہتے تھے اس کی وضاحت تو چوہدری نثار یا شاہد خاقان عباسی ہی کر سکتے ہیں لیکن جو معاملات اب تک سامنے آئے ہیں اس میں دوسرا عنصر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
دنیا بھر میں رجحان چل رہا ہے کہ چھوٹی کابینہ کے ذریعہ معاملات زیادہ بہتر اندازمیں حل کئے جا سکتے ہیں لیکن پاکستان میں معاملا الٹ ہے مسلم لیگ (ن) اسمبلی میں اکثریت کے باوجود اتحادی بنانے اور اتحادیوں کی خوشنودی کے لیے بہت کچھ کرنے پر مجبور ہے کہیں مال وزر کام آتا ہے تو کہیں وزارتیں مطلوب ہوتی ہیں اس کا واضح ثبوت جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن ہے جس نے اسمبلی میں حصہ سے زیادہ وزارتیں حاصل کیں ہیں ۔
47 وزارتوں کے باوجود مسلم لیگی مطمئن نہیں ہے محسوس ہوتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی جو اپنے ارکان اسمبلی کو مطمئن رکھنے کے لیے تین نئی وزارتیں تشکیل دے چکے ہیں انھیں آئندہ چند دنوں میں مزید نئی وزارتیں تشکیل دینا ہو گی کہ مسلم لیگ میں ابھی وزارتوں کے امیدوار بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان میں سے ہر امیدوار اپنے ساتھ چند ارکان اسمبلی کا ایک گروپ رکھتا ہے جیسا کہ شنید ہے کہ ریاض پیرزادہ کے معاملات پی ٹی آئی سے چل رہے تھے لیکن انہیں وزارت کا لولی پوپ دے کر منہ بند رکھنے پرآمادہ کیا گیا ہے ریاض پیرزادہ اپنے ساتھ ارکان اسمبلی کا ایک بڑا گروپ رکھتے تھے جس کے پی ٹی آئی میں جانے سے اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اپنی اکثریت کھوسکتی تھی لیکن ایسے انتظامات بدحال معیشت کے شکار ملک میں کتنے عرصہ چل سکتے ہیں ۔
٭٭…٭٭