... loading ...
معزول وزیراعظم میاں نواز شریف اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اگر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی طرح سیاست کرتے تو آج راندۂ درگاہ نہ ہوتے۔شریف برادران اور الطاف حسین فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں قومی سیاست میں متعارف ہوئے اور ترقی کی منزل طے کرتے ہی چلے گئے ۔واقفان حال اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ 1983-84 سے قبل پنجاب اور شہری سندھ کی سیاست دوسرے سیاست کاروں کے ہاتھوں میں تھی۔ جنرل ضیاء الحق جو خیر سے پاکستان کے صدر مملکت اور سیاہ وسفید کے مالک تھے ایسے کرداروں کی تلاش میں تھے جو ان کے طویل ترین اقتدار کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوں‘ اس مقصد کے لیے پنجاب میں میاں نواز شریف سے ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگوایا گیا اور کراچی کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا ’’فریضہ‘‘ سر انجام دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مہاجر سیاست کے لیے پہلا انتخاب معروف شعلہ بیان سیاستدان معراج محمد خان کا کیا گیا ۔5 جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لاء لگانے اور ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے معزول کرنے کے بعد ضیاء الحق کا سب سے اولین منصوبہ اپنے اقتدار کو طول دینا تھا۔ اس مقصد کے لیے دوسرے اور تیسرے درجے کے سیاسی کارکنوں کو اوّل نمبر پر لانے کا کام شروع ہوا تاکہ وہ اقتدار اعلیٰ کے وفادار رہیں۔
یہ ترکیب یونان کے مشہور فلسفی ارسطو نے اپنے شاگرد سکندر اعظم کو بتائی تھی۔ سکندر 23 سال کی عمر میں دنیا کو فتح کرنے نکلا تو اس کے لیے یہ بات بڑی پریشان کن تھی کہ وہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں جن لوگوں کو نگراں مقرر کرکے آگے بڑھتا تھا وہ اس کے پیچھے اقتدار پر قبضہ کرلیتے تھے۔ سکندر واپس پونان گیا اور اپنے استاد سے مشورہ کیا۔ ارسطو نے کہا کہ وہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں کمزور لوگوں کو حکمران بناکر آگے بڑھے جو اپنی بقا کے لیے مٹی کھاد اور پانی کے لیے سکندر کے محتاج رہیں۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بھی یہی فامولا اختیار کیا۔ انہوں نے سکھر میں علی حسن منگی جیسے مضبوط سیاستدان کو 1985 کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں اکھاڑ پھینکا اور ضیاء الحق کے پروردہ اسلام الدین شیخ نے کامیابی حاصل کی ۔یہ فارمولا پورے ملک میں اختیار کیا گیا اور ضیاء الحق کے قدم مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔ 1978 میں معران محمد خان جیل میں بند تھے۔ انہیں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران بھٹو حکومت نے گرفتار کیا تھا۔ ان کا ایک انٹر ویو کسی میگزین میں شائع ہوا تو ضیاء الحق کی نظر پڑگئی۔ انٹر ویو میں انہوں نے تین نکات بیان کیے تھے۔ مارشل لاء کی مخالفت بھٹو کی مخالفت اور عوام کے ساتھ یکجہتی ۔ ضیاء الحق نے معراج محمد خان کو جیل سے بلاکر ملاقات کی اور اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں آپ کے عوام ( مہاجروں) کے ساتھ بھٹو حکومت میں بہت زیادتیاں ہوئی ہیں‘ تعلیم اور روزگار سے نوجوانوں کو محروم کیا گیا ہے ۔ آپ ان کے حقوق کے لیے کام کریں۔ معراج محمد خان نے جواب دیا کہ وہ سوشلسٹ ہیں اور لسانی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ان کے نزدیک صرف دو قومیں وجود رکھتی ہیں۔ ایک ظالم اور دوسرے مظلوم۔ ان کی ساری جدو جہد مظلوموں کے لیے ہے خواہ وہ کسی بھی قومیت یا نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ ضیاء الحق کو یہ جواب پسند نہ آیا اور انہوں نے اس سوشلسٹ لیڈر کو واپس جیل بھیج دیا۔ یہ واقعہ معراج محمد خان مرحوم نے اپنے زندگی میں خود راقم الحروف کو سنایا تھا۔ بعدازاں ایم کیو ایم پنجابی پختون اتحاد ‘ آل پختون فیڈریشن ‘ بلوچ اتحاد تحریک جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں اور سندھ میں سیاست کا رخ اور پانسہ پلٹ گیا۔
قوم پرست سیاستدان جی ایم سید اور جئے سندھ تحریک کو بھی پروان چڑھایا گیا تاکہ پیپلزپارٹی کو شکست دی جائے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ غوث شاہ کے قومیتوں کے حوالے سے تندوتیز بیانات اور تقاریر بھی تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں ۔انہوں نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم پنجابیوں اور پختونوں کی نعشیں لاہور اور پشاور بھیج رہے ہیں ہم صرف نعشیں ہی نہیں ہر نعش کے ساتھ 50 ہزار روپے بھی بھجواتے ہیں ‘‘اس تقریب میں پنجاب اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا )کے بعض وزرا بھی موجود تھے ۔پنجاب میں ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘جیسے نعرے پروان چڑھ رہے تھے۔ یہ سب اس وقت کی ضیاء حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ اس ڈفلی پر جو بھی ناچ یا گارہا تھا وہ مقدر کا سکندر تھا۔ شریف برادران بھی چونکہ اسی عہد کی پیدا وار ہیں لہذا ان پر بھی خوب جوبن آیا۔ حتی کہ ضیاء الحق نے کہہ دیا کہ انہوں نے نواز شریف کا کلّہ مضبوطی سے گاڑدیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ سر پرستی ضیاء الحق کی اچانک فضائی حادثہ میں موت کے ساتھ ہی ختم ہوگئی ۔نیا دور اور نئی پالیسیوں کا آغاز ہوا۔ 1988 میں بے نظیر حکومت قائم ہوئی جو 6 اگست 1990 کو محض دو سال بعد ہی ختم کردی گئی۔ ان کے بعد کچھ عرصہ نگراں دور حکومت چلا اور پھر میاں نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعے الیکشن جیتنے اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ آئی جے آئی سے جے آئی ٹی تک میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم بنے اور تینوں مرتبہ اپنی مدت اقتدار پوری کیے بغیر حکومت سے نکالے گئے۔ انہیں سیاست کے ماہرین کا ایک ’’تھنک ٹینک ‘‘بناکر اس بات پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے۔ان سے بہتر سیاستدان آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کیوں قرار دیے جارہے ہیں ۔ آصف علی زرداری نے 2015 میں ’’اینٹ سے اینٹ ‘‘بجانے کا بیان دے کر بھاگنے میں عافیت سمجھی۔ ڈیڑھ سال تک بیرون ملک از خود جلا وطن رہے۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد واپس پاکستان آئے اور عموماً اپنے علاج کیحوالے سے دبئی یا لندن آنا جانا رہتا ہے۔ پارٹی کے امور عملی طور پر اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری اور صاحبزادیاں آصفہ اور بختاور بھٹو زرداری کے سپرد کرچکے ہیں۔ کہیں کہیں بیانات کے ذریعے اپنے وجود کا پتہ دیتے رہتے ہیں۔ وہ اور مولانا فضل الرحمان پاکستان کی سیاست اور اس کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ طویل لڑائی نہیں لڑتے۔ اپنی اکڑ فوں نہیں دکھاتے اور اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں جبکہ میاں نواز شریف بار بار سلپ ہوجاتے ہیں۔ وہ نہ ماؤزے تنگ ہیں اور نہ ہی لینن یا ھوچی منہ۔ نہ ہی ان کی پارٹی ن لیگ کوئی انقلابی جماعت ہے۔ مختلف جماعتوں سے نکل کر اقتدار اور کرسی کے لیے جمع ہونے والے اس ہجوم سے انقلاب کی توقع بھی عبث ہے۔ ان میں تو کوئی معراج محمد خان بھی نہیں ہے۔
٭٭…٭٭