... loading ...
جب مسلم لیگ نون کے حمایتی سپریم کورٹ کی کاروائی سن کر سپریم کورٹ کے باہر اپنی خود ساختہ کورٹ لگاتے ، جے آئی ٹی اور ججوں کے خلاف مہم چلاتے تھے تو سپریم کورٹ کے لارجرز بینچ کے معزز ججز صاحبان نے پاناماکیس کی کاروائی کے دوران یہ ریمارکس دیے کہ فریقین جتنا بھی واویلا کر لیں ،آسمان گرے اور چاہے زمین پھٹے ہم آئین پاکستان کے مطابق پاناما کیس کا فیصلہ کریں گے۔آخر کار سپریم کورٹ کے معزز ججز صاحبان نے نواز شریف کو جھوٹ بولنے اور آرٹیکل 62-63پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے نا اہل قرار دے دیا۔
آئین پاکستان کے مطابق صدر پاکستان نے عمل شروع کیا اور نواز شریف کے نامزدکردہ شاہدخاقان عباسی صاحب کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے 45 دن کے لیے پاکستان کا نیا عبوری وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ انہوں نے اپنی کابینہ کا بھی چنائو کر لیا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق جمہورت قائم وائم رہی اور نہ آسمان گرا اور نہ ہی زمین پھٹی ملک کے معاملات اور جمہورت چل پڑی اور انشا ء اللہ آئندہ بھی چلتی رہے گی ۔کوئی بھی شخص پاکستان کے لیے ناگزین نہیں۔
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تحقیقی رپورٹ کی روشنی کے مطابق نیپ کو حکم دیا تھاکہ نواز شریف ،حسن نواز، حسین نواز،مریم نواز اور اسحاق ڈار کے خلاف فیصلہ کے چھ ہفتوں کے اندر کیس دائر کرے اور ان کیسز کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر سنایا جائے۔ سپریم کورٹ نے ایک معزز جج کو ان کیسوں کی نگرانی کے لیے مقرر بھی کر دیا۔ واویلا کرنے والوں میں سب سے زیادہ غیر مناسب دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرنے والے نواز لیگ کے ایک ممبر سینیٹ کے خلاف کاروائی کی اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا اس کے خلاف مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے خلاف غیر قانونی اعتراض کرنے پر نواز لیگ کے ممبر اسمبلی کے رشتہ دار کو گرفتار لر لیا گیا ہے ۔اسے بھی اس غیر آئینی حرکت پرشاید مقدمے کا سامنا کرنا پڑے۔الیکٹرونگ میڈیا میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پرڈسکشن کے دوران میڈیا کے پروگرام میں کے دوران مریم نواز کے متعلق بھی کہا گیا کہ انہوں نے بھی سپریم کورٹ کے متعلق غیر آئینی باتیں کی ہیں جو مناسب نہیں ۔ الیکٹرونگ میڈیا کے اینکر پرسن نے ان باتوں کو دُہرانے سے اجتناب کیا۔
صاحبو!سپریم کورٹ کے معزز ججز صاحبان پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔مگر ہم لکھتے آئے ہیں کہ سیاست دان خود قانون بناتے ہیں اور جب اسی قانون کی زد ان پر پڑتی ہے تو طاقت کے نشے میں تکبر میں مبتلا ہو کر عدلیہ کے خلاف بولتے ہیں جو مناسب نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں ہمیں عوام نے منتخب کیا
ہے وہ ہی ہمیں ڈی سیٹ کر سکتے ہیں اور کسی کو اس کا اختیار نہیں۔ ارے بھائی عوام نے آئین پاکستان کے مطابق آپ کو اس عہد ے پر منتخب کیا ہے کہ آپ عوام کے خزانے کے امین اور صادق بن کر حکومت کریں گے نہ کہ اس لیے منتخب کیا ہے آپ عوام کے خزانے میں خیانت کے مرتکب ہوںگے اور جھوٹ بولیں۔ عوام کا پیسہ لوٹ کر باہر ملکوں میں منتقل کریں۔ آپ کے ہی یعنی پاکستان کی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اس کا فیصلہ نہ کرے تو اور کون سا ادارہ عوام کے حقوق کا نگہبان ہو گا۔ کرپشن پر ملک کی سپریم کورٹ نے شہریوں کی طرف سے دائر مقدمات کا پاکستان کے آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔جس کی پابندی سیاستدانوں سمیت ہر کسی پر لازم ہوتی ہے۔یہ شخصیت پسندی ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں اور ملک چلتے رہتے ہیں۔اقتدار کے ارد گرد کے لوگ چاپسلوسی کر کے ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
سپریم کورٹ سے عوام کا مطالبہ ہے کہ عمران خان چیئر مین تحریک انصاف کے خلاف بھی باہر ملکوں سے ممکنہ ناجائز فنڈ حاصل کرنے کا حنیف عباسی نے مقدمہ قائم ہے اس کو بھی تیز رفتاری سے سناجائے اور انصاف کے مطابق فیصلہ جلدسنایا جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق صاحب نے آف شور کمپنیاں رکھنے والے مذید 436 لوگوں کی لسٹ سپریم کورٹ میں داخل کی ہوئی ہے۔ ان کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے جائیں اور جن کے خلاف فیصلہ سامنے آچکاہے ان سے بھی عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لے کرقومی خزانے میں جمع کرایا جائے تاکہ ملک سے مہنگائی اور بے روز گاری ختم ہوں اور ملکِ پاکستان کی آدھی آبادی جوخط غربت سے نیچے زندگی گراز رہی ہے ان کو کچھ نہ کچھ ریلف ملے۔ یہ سلسلہ رکنا نہیںچاہیے بلکہ مستقل چلنا چاہیے تاکہ ملک کرپشن فری ہو اور دنیا کے ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک کی صف میں شامل ہوجائے۔ سارے ادارے ملک کی ترقی پر گامزن ہو جائیں۔ غربت ختم ہو۔ ملک خوش حال ہو۔سیاست دان جو الیکشن جیتنے کے لیے کروڑلگائو اور جیت کر اربوں کمائو والی پالیسی چھوڑ کر سیاست میں عوام کی خدمت کرنے
کے لیے داخل ہوں نہ کہ عوام کا پیسہ لوٹنے کے لیے سیاست میں آئیں۔ سیاست ایک نفع بخش کاروبار کی بجائے عبادت بن جائے۔ پرمٹ،ٹھیکے حاصل کرنے اورنوکریاں بیچنے کی ریت ختم ہو۔قابلیت کی بنیاد پر سب شہریوں کو نوکریاں ملیں۔ قانون کے مطابق پرمنٹ اورٹھیکے ملیں۔ سفارش کا کلچر ختم ہوں۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہو۔ امن و امان ہو۔ ملک میں کارخانے لگیں۔ کارخانوں کو بجلی اور گیس ملے۔ کارخانے پیداواربڑھائیں۔ ملک سے اشیاء باہر در آمند کی جائیں زر مبادلہ ملک میں آئے ۔ جس سے عوام میں خوش حالی ہو۔
یہ سب باتیں تب ہی ممکن ہیں جب انصاف اور قانون کی حکمرانی ہو۔ بڑے چھوٹے سب کے لیے ملک کاقانون برابر ہو۔ پہلے قومیں اس لیے برباد ہوئیں تھیں کہ اُن کے بڑوں کے لیے قانون کچھ اور ہوتا تھا اور چھوٹوں کے لیے کچھ اور ہوتا تھا۔کیا ہمارے ملک میں بھی ایسا نہیں ہے کہ بڑوں کے لیے قانون کچھ اور ہے اور چھوٹوں کے لیے کچھ اور ہے۔پاکستان کی تاریخ میںپہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ملک کے ایک طاقت ور وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ کی نگرانی میں حکومت کے اٹھارہ اُنیس گریڈ کے ملازمین نے اپنی اخلاقی جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے تحقیقات کیں۔عوام نے ان کی جرأت کو سلام پیش کیا۔ اس قبل ہماری عدالتیں بھی نظریہ ضرروت کے تحت ڈکٹیٹروں اورحکمرانوں کے حق میں فیصلے کرتی رہیں۔ اب پاکستان تبدیل ہو رہا ہے ہماری معزز اعلیٰ عدالت نے طاقت ور کے خلاف عوام کی سنی اور حق و انصاف کے بنیاد پر فیصلہ دے کر تاریخ میں نام پیدا کیا۔ یہ سلسلہ یہیں پر رکنا نہیں چاہیے۔ کرپشن کے خلاف مزید فیصلے آنے چاہئیں۔ جس نے بھی اس ملک کو لوٹا ہے اس کو انصاف کے کہٹرے میں لا کر اور اس سے پیسہ واپس لیکر خزانے میں جمع کیاجانا چاہیے۔اس وقت ملک کا ہر شہری ایک لاکھ پچیس ہزار کا مقروض ہے۔ نواز حکومت نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے اُدھار لے کرپچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔کرپٹ لوگوں سے کرپشن کے پیسے وصول کر کے یہ قرضے ختم کرنے چاہیے۔ انشاء اللہ جمہوریت چلتی رہے گی۔ منتخب حکومت کو اپنی پانچ سال مکمل کرنے چاہئیں۔ اس پارلیمنٹ کو دنیا کے آزاد ملکوں کی طرح آزاد الیکشن کمیشن بنانا چاییے۔ بیرون ملکوں کی طرح الیکٹرونک مشنیوں سے الیکشن کا طریقہ رائج کرنا چاہیے۔ تاکہ ہارنے والے جیتنے والوں پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام نہ لگائیں اور جمہورت چلتی رہے۔ اس ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے انشا اللہ۔
٭٭…٭٭