... loading ...
انڈونیشیا کے ایک صوبے جنوبی سلاولی(South Saulawalei) کی وادی کاسا میں آباد ایک قدیم قبیلے کے افراد میں صدیوں سے ایک عجیب رسم چلی آرہی ہے۔ توراجا نامی اس قبیلے کے افراد اپنے مرحومین کو فومی لائن(Fomilin) نامی کیمیائی محلول میں بھگو کر دفناتے ہیں اس محلول میں بھگوئے جانے سے مردے اکڑجاتے ہیں، پھر ان مردوں کو ایک پختہ تابوت میں بند کرکے دفنادیاجاتا ہے اس طرح یہ نعشیں سالہا سال خراب نہیں ہوتی۔ اس قبیلے کے لوگ ہر سال ستمبر میں ایک فیسٹیول کا انعقاد کرتے ہیں، مردوں کے تابوت واپس نکالے جاتے ہیں ، انہیں نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں‘ میک اپ کیا جاتا ہے‘ خوشبوئیں لگائی جاتی ہیں اور پھر مردوں کے اہل خانہ ان کے ساتھ ناچتے گاتے ہیں‘ خوب ہلا گلہ کیا جاتا ہے۔ اس رسم کو وہاں ’’مانینی(Manene) کہا جاتا ہے۔ نیشنل جیوگرافک چینل نے مارچ2016ء میں اس قبیلے اور اس کی رسم پر ایک زبردست معلوماتی ڈاکیومینٹری نشر کی تھی۔ اس ڈاکیومینٹری میں بتایاگیا کہ توراجا قبیلے کے افراد کا خیال ہے کہ مردے کو ہر سال نکال کر اس جگہ کی زیارت کرانے سے تسکین ملتی ہے جہاں اس کی موت واقع ہوئی ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والا موت کے بعد بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی رہا کرتا ہے، بس دکھائی نہیں دیتا۔ اس قبیلے کے افراد دور دراز کا سفر بھی نہیں کرتے اور اس کی وجہ صرف یہی خوف ہے کہ اگر سفر کے دوران ان کی موت ہوگئی تو انہیں ہر سال ’’مقام انتقال‘‘ کی زیارت کروانا ان کے رشتے داروں کے لیے کس قدر دشوار ہوگا۔ یہ لوگ ہر سال اس رسم کی ادائیگی کے لیے جب اپنے پیاروں کی لاشوں کو تابوت سے نکالتے ہیں تو پہلی نظر پڑتے ہی مردے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں اور رسم کی ادائیگی کے بعد مزید مصالحہ لگاکر نہ صرف نئے کپڑوں میں دفناتے ہیں بلکہ ہر مرتبہ تابوت بھی نیا خریدتے ہیں۔ الغرض اس قبیلے کے افراد خود قبر میں جانے تک اپنے مردوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور خوشی خوشی ان پر خرچہ بھی کرتے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک والوں کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی رسم ادا کرنے والا یہ دنیا کا انوکھا اور واحد قبیلہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ نیشنل جیوگرافک والے بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں اپنے مردوں کو سنبھال سنبھال کر رکھنے اور ان پر خرچہ کرتے رہنے میں پاکستانی کسی طرح انڈونیشیا کے اس قبیلے والوں سے پیچھے نہیں۔ لاڑکانہ میں ایک عظیم الشان محل میں لیٹے ایک سابق وزیراعظم اس کی بہترین مثال ہیں، ایک اور سابق وزیراعظم نواز شریف اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ غضب خدا کا جو شخص خود صداقت اور امانت کے معیارات پر پورا نہیں اتر سکا، وہ ہی فیصلہ کررہا ہے کہ ملک کا اگلا انتظامی سربراہ کون ہوگا؟ نااہل اور معزول وزیراعظم کے حامی کہتے ہیں کہ نوازشریف کو کیا نہیں دیا‘ تین بار وزارت عظمیٰ‘ ملک کے تمام اداروں پر کنٹرول‘ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو خرچ کرنے کا اختیار‘ سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں پولیس اہلکاروں کی سیکورٹی اور پروٹوکول ‘ دنیا کے سامنے پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز اور نہ جانے کیا کیا کچھ ۔ لیکن نوازشریف نے کیا کیا‘ مری میں بیٹھ کر سرکاری ہیلی کاپٹر میں پائے اور نہاریاں منگوائیں۔ انہوں نے ڈٹ کر مال بنایا اور ملک کو اتنا بھی نہیں لوٹا یا جتنا وزیراعظم ہائوس کا کرایہ ہو۔ جناب کی کارکردگی کا احوال ’’سنتا جا شرماتاجا‘‘ کی عملی تفسیر ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں کم از کم تیرہ ارب ڈالرز کا غیر ملکی قرضہ لیا جاچکا ہے۔2013ء میں غیر ملکی قرضہ جو65ارب ڈالرز سے کم تھا اب بڑھ کر78ارب ڈالرز تک جاپہنچا ہے۔2012-2013ء میں تجارتی خسارہ 15ارب ڈالرز جو2017-2016 میں بڑھ کر24ارب ڈالرز ہوچکا ہے 2013ء میں کل برآمدات 221ارب ڈالرز تھیں جو 2017ء تک کم ہوکر17ارب ڈالرز رہ گئی ہیں‘ پی آئی اے‘ اسٹیل ملز‘ ریلوے سمیت سرکاری کارپوریشنز کا مالی خسارہ جو2013ء تک کل 312 ارب روپے تھا اب 705ارب تک پہنچ چکا ہے 2013ء میں گردشی قرضہ 400 ارب روپے تک تھا جو اب 2017 میں 500 ارب سے تجاوز کرچکا ہے اور یہ محض 100 ارب کا اضافہ نہیں بلکہ 2013 میں ہی سابق وزیراعظم اپنے قریبی ساتھی میاں منشاء ودیگر کویکمشت 480 ارب کی ادائیگی کرکے بظاہر گردشی قرضہ صفر کرچکے تھے۔ روپے کی قدر کم ہوکر2013ء کے92ارب روپے کے مقابلے میں107ارب روپے تک ہوچکی ہے۔ زرعی پیداوار نمایاں طور پر کم ہوچکی ہے ‘ بجلی کی کمی دور کرنے کیلئے500ارب روپے کی لاگت سے جن منصوبں پر کام کیاگیا وہ ایک ایک کرکے ناکام ہوگئے جن میں نندی پور پاور پراجیکٹ‘ قائداعظم سولر پارک اور نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ شامل ہیں ۔2013ء میں بجلی کا شارٹ فال5ہزار میگا واٹ تھا جبکہ2017ء میں شارٹ فال4ہزار میگاواٹ تک پہنچ گیا۔ا سی حکومت کا ریکارڈ ہے کہ اس میں کراچی میں گرمی کی شدت کے دوران بجلی کی فراہمی اور پانی کی فراہمی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ڈھائی ہزار لوگ جاں بحق ہوئے۔ سابق وزیراعظم صاحب کے تجربے اوران کی کارکردگی پر اور بہت کچھ کہا جاسکتا ہے، مگر بات طویل ہوتی جائے گی۔ البتہ ایک وضاحت ضروری ہے کہ میں نے اپنے گزشتہ کئی کالمز میں یہ سوال اٹھایا کہ حکمران خاندان کا اپنا کاروبار اتنی ترقی کرتا رہتا ہے تو پھر ملک ان سے کیوں نہیں چلایاجاتا‘ ملکی ادارے ان کی سرپرستی میں کیوں اتنا خسارہ کرتے ہیں مجھے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد پتہ چلا کہ یہ میری غلط فہمی تھی ان کا کوئی بھی ادارہ نفع نہیں کرتا، سب کے سب خسارے اور قرضوں میں ہیں اور یہ اربوں ڈالرز کی دولت کے انبار کرپشن کے پیسے ہیں۔
میاں صاحب فرماتے ہیں کہ ’’الحمداللہ مجھ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں‘‘سبحان اللہ کیا بات ہے حضور عدالت کے فیصلے کو غور سے پڑھیے، اس میں صاف صاف لکھا ہے کہ اثاثے چھپانے‘ آمدن سے زیادہ جائیداد رکھنے اور سپریم کورٹ میں جھوٹا حلف نامہ جمع کروانے جیسی وجوہات بھی نااہلی کا سبب ہیں فرماتے ہیں کہ ۔2013میں وزیراعظم بننے کا فیصلہ میں نے بڑی مشکل سے کیا تھا اور اس کے گواہ شہبازشریف ہیں اس صورتحال پر محاورہ یاد آتا ہے ’’ عیسی کا گواہ موسی‘‘ فرماتے ہیں میں نے تنخواہ وصول بھی نہیں کی پھر بھی نااہل کردیاگیا۔ سابق وزیراعظم کے حمایتی بھی اس الزام پر سیخ پا ہیں۔انکے گوش گزار کرتا ہوں کہ جھوٹ بولنے اور کچھ بھی چھپانا (Concealment) ثابت ہونے پر نااہلی کی کم از کم22نظائر (precedents) سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں اور خود تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی تو صرف اس بات پر نااہل ہوئے کہ انہوں نے اپنے انتخابی گوشواروں میں یہ بات چھپائی کہ وہ ایک مسجد کے ٹرسٹ کے رکن تھے پھر اقامہ رکھنا اتنی معمولی بات بھی نہیں جتنی وہ بیان کررہے ہیں، انہی اقاموں کی بنیاد پر بینک اکاؤنٹس کھولے جاتے ہیں اور ان اکاؤنٹس میں بینکس کے ریکارڈ پر ’’کنٹری آف اوریجن‘‘ میں اس ملک کا نام لکھا جاتا ہے جہاں کا اقامہ ہو، پھر غیرقانونی دولت وہیں سے منتقل کی جاتی رہتی ہے اور اس کا صحیح پتہ چلانا نہایت دشوار ہوتا ہے خود میاں صاحب کے اپنے مالی معاملات سے ایسی ’’مالیاتی وارداتوں‘‘ کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی بیٹے کی لندن کی تینوں کمپنیاں جو خسارے میں تھیں انہیں دبئی کی ایک کمپنی نے نامعلوم وجوہات پر ایک ارب ڈالرز کا سرمایہ فراہم کیا تھا۔
موجودہ حکومت سے مفادات سمیٹنے والے ٹولے افرادکے افراد گویا اپنی چوڑیاں توڑ کر بیوگی کے دکھ کا اظہار کررہے ہیں‘ ایک سرکاری دانشور ہے جو سرکاری ٹی وی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور ایک نجی میڈیا گروپ کے بھی تنخواہ دار ہیں انہوں نے اپنے حالیہ کالم میں’’نمک حلالی‘‘ کرتے ہوئے اقامے پر نااہلی کو تضحیک آمیز تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ خواتین اراکین پارلیمنٹ خبردار ہوجائیں اگر انہوں نے اپنے حق مہر کی قابل وصولی رقم گوشواروں میں ظاہر نہیں کی ہے تووہ بھی نااہل ہوسکتی ہیں۔ ان کی تفریح طبع کیلئے احقرکی جانب سے بھی ایک لطیفہ پیش خدمت ہے، امید ہے محظوظ ہونگے۔
رشتہ طے کرنے کیلئے لڑکی والے لڑکے کے گھر پہنچے تو دیکھا لڑکا پیاز چبارہا تھا انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ پیاز کیوں کھارہا ہے‘ لڑکی کی ماں بولی ’’ارے بہن‘ ویسے ہی منہ سے شراب کی بدبو مٹانے کیلئے‘‘۔ لڑکی کی ماں نے گھبراکر پوچھا ’’شراب پیتا ہے؟‘‘ لڑکی کی ماں نے بڑی سادگی سے کہا ’’ نہیں روز نہیں‘ بس کبھی کبھی جب کوٹھے پر جاتا ہے تو پی لیتا ہے‘‘۔ لڑکی کی ماں کا تو جیسے سانس ہی رکنے لگا، اُس نے گھٹی گھٹی آواز میں پوچھا تو کوٹھے پر بھی جاتا ہے؟‘‘ لڑکے کی ماں نے مسکراکر تسلی دیتے ہوئے کہا ’’ اے ہے‘ کوئی روز تھوڑی جاتا ہے‘ بس کبھی ڈکیتی میں تگڑا مال ہاتھ آجائے تو کرلیتا ہے تھوڑی موج مستی‘‘۔ اب تو لڑکی کے گھر والے اٹھ کھڑے ہوئے۔ واپس جاکر انہوں نے پیغام بھجوادیا کہ انہیں یہ رشتہ منظور نہیں۔ سن کرلڑکے کی ماں بولی ’’لو بھلا‘ دیکھو توذرا پیار کھانے کی وجہ سے رشتے سے بھی انکار کردیا‘بڑے میاں صاحب نے چھوٹے میاں صاحب کو ’’مستقل‘‘ وزیراعظم نامزد کردیا ہے‘ گویا ان کی نظر میں یہ نعرہ اس طرح ہے ’’پاکستان کا مطلب کیا ‘ میں تے میرا نکا بھرا‘‘۔ مسلم لیگ (ن) کے سپورٹرز سے درخواست ہے کہ وہ اپنی جیبوں پر ڈالے گئے ڈاکوں پر ذرا غور کریں اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کریں۔ بدعنوان خاندانوں کی پرستش سے کچھ حاصل نہیں۔ بہتر ہے مردہ پرستی میں یکتا ہونے کا اعزاز توڑا جا قبیلے کے لوگوں کے پاس ہی رہنے دیں اور مانینی کی رسم کو جاری رکھنے سے احتراز کریں۔
٭٭…٭٭