وجود

... loading ...

وجود

ابہام

منگل 01 اگست 2017 ابہام

سپریم  کورٹ نے طویل سماعت اور جے آئی ٹی کی تحقیق اور تفتیش کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو نا صرف قومی اسمبلی کی ممبر شپ کے لیے نااہل قرار دیدیا ہے بلکہ وہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ2002 کے تحت پارٹی کے رکن بھی نہیں رہ سکتے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 62(1) کی شق F کے تحت میاں محمد نوازشریف صادق اور امین کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترے اس شق کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ مجلس شوریٰ سمیت کسی بھی منتخب ادارے کا رکن ہونے کے لیے صادق اور امین ہونا ضروری ہے اور اب عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ میاں محمد نوازشریف صادق اور امین نہیں ہیں جبکہ اسی بینچ نے کرپشن کے حوالے سے معاملات نیب ، جعل سازی اور عدالت عظمیٰ کو دھوکہ دینے کی کوششوں کے معاملات متعلقہ قوانین کے مطابق طے کرنے کا حکم دیا ہے ۔یہ حکم نامہ بہت واضح ہے لیکن چند قانون دان جن کی روزی روٹی ابہام پیدا کرنے اور عدالتی فیصلوں کو مشکوک بنانے سے وابستہ ہے اور ان کی سرخیل حقوق انسانی کی نام نہاد چیمپئن ہے عوام میں ایک ابہام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نوازشریف کی نااہلی کی مدت طے نہ کر کے عدالت نے ادھورا فیصلہ دیا ہے اور نوازشریف کو انتخابی عمل سے دور رکھنا ممکن نہیں ہے اسی طرح وہ مفاد پرست سیاستدان جن کے پیٹ کا جہنم کبھی بھرنے والا نہیں ہے جو کسی کے وفادار نہیں مختصر عرصہ قبل تک جو جنرل پرویز مشرف کو ہرحال میں حکمران رکھنے اور سو بار منتخب کرانے کا اعلان کرتے تھے مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی نوازشریف کے حضور سجدہ ریز ہو گئے اور ان دنوں نوازشریف کے معتمدترین مشیروں میں شمار ہوتے ہیں بہت دور دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں خواجہ آصف کا اب بھی اصرار ہے کہ لوگ پاناما کو جلد بھول جائینگے پاناما میں یاد رکھنے والی کوئی بات نہیں طلال چوہدری ،دانیال عزیز ،عرفان صدیقی اور دیگر عوام میں جو ابہام پیدا کرنا چاہ رہے ہیں کہ فیصلہ میں مدت کا تعین نہ کر کے عدالت نے نوازشریف کو کلین چٹ دے دی ہے اور ان پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ہے۔
آئین کے آرٹیکل62(1) کی ذیلی شق F کے تحت ہونے والا فیصلہ جس میں کسی شخص کو صادق اور امین تسلیم نہ کیا گیا ہو وہ تاحیات نااہلی کا واضح حکم ہے کیونکہ شریعت اور رائج قانون کے مطابق جو شخص عدالت میں دروغ گو اور بدیانت ثابت ہو جائے اس کی گواہی مستقبل میں کبھی بھی قابل قبول نہ ہو گی اور وہ صادق اور امین کے زمرے سے خارج ہو جائے گا اور جب ایک شخص صادق اور امین نہیں رہے گا تو وہ تاحیات صادق اور امین تسلیم نہیں کیا جا سکتا اس طرح بہت واضح فیصلہ ہے کہ میاں محمد نوازشریف تاحیات نااہل قرار دیئے گئے ہیں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002کے تحت پارٹی کا رکن بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پر پورا اترتا ہویہاں معاملہ مزید سنگین ہو گیا ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت اب میاں محمد نوازشریف کسی پارٹی کے رکن بننے سے اہل نہیں رہے اس طرح اب وہ مسلم لیگ کی قیادت کے اہل بھی نہیں رہے نہ ہی مسلم لیگ کے کسی بھی پروگرام بشمول جلسہ عام میں خطاب کے اہل بھی نہیں ہیں کہ ایسے سیاسی جلسوں میں پارٹی قائدین ہی خطاب کر سکتے ہیں۔
نوازشریف کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ناصرف مقتدر اداروں سے تصادم مول لیتے ہیں بلکہ ماضی میں ہونے والی حماقتوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ان حماقتوں کو مزید شدت سے دہرانے پر بضد رہتے ہیں اور وقت اور حالات کے مطابق مشورہ دینے والے میاں نوازشریف کو پسند نہیں انہیں وہی لوگ پسند آتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوں اور شریف خاندان کے علاوہ سب کو نااہل قرار دینے میں سب سے آگے ہوں اس وقت بھی صورتحال یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد میاں محمد نواز شریف این اے 120 سے قومی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے اس حلقہ میں اب ضمنی انتخاب ہونا ہے شنید ہے کہ اکثریت کی رائے تھی کہ اس مرحلہ پر ایک سے زائد حلقوں میں انتخابی عمل میںجانا اور وہ بھی اس طرح کہ شہباز شریف کو صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفیٰ کرا کر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑانا بھی ایک خطرناک عمل ہو سکتا ہے اور موجودہ حالات میں کم سے کم انتخابی عمل میں شریک ہوا جائے کہ اس وقت تحریک انصاف کو بالاتری حاصل ہے لیکن نوازشریف نے حسب روایت خوشامدیوں کا ہی مشورہ مانا اور عبوری دور کے لیے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم نامزدکیا ہے شاہد خاقان عباسی ایل این جی اسکینڈل میں دھسنے ہوئے ہیں ایل این جی اسکینڈل کسی وقت بھی ایک نیا پاناما بن سکتا ہے ۔
جب پاناما کا معاملہ عروج پر تھا اس وقت خواجہ آصف نے اسمبلی فلور پر کہا تھا کہ پاناما کچھ بھی نہیں ہے چند دن میں لوگ اسے بھول جائینگے یہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تھا اس موقع پر سینٹ میں قائد حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بھولنے والا معاملہ نہیں یہ تاریخ میں رقم ہونے والا اسکینڈل ہے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے اٹلی کے ایک شاعر جومارکسٹ نظریات رکھتا تھا کہ اشعار پڑھے تھے
کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ تم اپنے اعمال نامے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں
اسی چوک پر خون بہتا رہا ہے
اسی چوک پر قاتلوں کو پکڑ کرسزا دو سزا دو
مارکسٹ نا قیامت پر یقین رکھتے ہیں نا ہی رب کائنات کے وجود پر اس نظریات کے ساتھ تو یہ اشعار درست ہیں اور قاتلوں کو سرے عام سزادینے کا عمل تو عین اسلامی شریعت کے مطابق ہے ۔میاں شہبازشریف سانحہ ماڈل ٹاؤن جس میں خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے میں نامزد ملزم ہیں اگرچہ جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ تاحال سربمہر ہے لیکن اب آثار بتاتے ہیں کہ اس رپورٹ کی مہریں بھی جلد ٹوٹنے والی ہیں کہ یہ خون ،خون انسانی تھا جس نے رنگ لانا ہے۔
مسلم لیگ نواز اب مسلم لیگ شہباز میں تبدیل ہونے جا رہی ہے گویا یہ پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی ہے جس کے حصہ دار صرف شریف فیملی سے تعلق رکھنے والے ہی ہو سکتے ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ اس پارٹی میں یا تو قیادت کا فقدان ہے یا “قیادت “کو کارکنان پر اعتماد نہیں شنید ہے کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ شہباز کے فرزند ارجمند حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا جائے گویا مسلم لیگ صرف ایک حلقہ میں نہیں بلکہ قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقہ میں ضمنی انتخابات کی طرف جانا چاہتی ہے اس وقت حالات میں این اے120 کا ضمنی انتخاب تو مجبور ی ہے کہ میاں نوازشریف عدالتی فیصلے کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے لیکن شہباز شریف سے صوبائی اسمبلی اور حمزہ شہباز سے قومی اسمبلی کی سیٹ خالی کرانا ایک خطرناک فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے کہ اس وقت پاناما لیکس پر فیصلے نے عمران خان کے موقف کو مضبوط اور مسلم لیگ کی قیادت کو معتوب قرار دیدیا ہے جس کے نتیجہ میں مسلم لیگ کا گراف گرسکتا ہے اور پی ٹی آئی کو حاصل عوامی ہمدردیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اسی طرح کم از کم جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی ایک ہی پیج پر نظر آتی ہے اور غالب امکان ہے کہ مستقبل کے انتخاب میں بھی یہ دونوں پارٹیاں باہم اتحادی ہوںکہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی کوششوں کو جماعت اسلامی نے وہ پذیرائی نہیں دی ہے جس کی مولانا فضل الرحمن کو توقع تھی ۔
میاں محمدنوازشریف بھی سچ کا سامنا کرنے اور کارکنان کے لیے کوئی حکمت عملی طے کرنے کے بجائے اب بھی غلط بیانی کا ہی سہارہ لے رہے ہیں کہ تین نسلوں کے احتساب میں صرف ایک اقامہ ہی نکل سکا ہے جس کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار دیا گیا ہے ان کا دامن کرپشن سے پاک ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگی جہاں بھی 21 اپریل والے فیصلے کی غلط فہمی کا شکار ہیں 21 اپریل کو جب دو معزز جج صاحبان نے نوازشریف کو نااہل اور تین ججز صاحبان نے مزید تحقیق اور تفتیش کا حکم دیا تھا تو اس وقت بھی مسلم لیگیوں نے بھنگڑے اور دھمال ڈالے تھے مٹھائیاں کھائی اور کھلائی تھیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی تھی کہ جے آئی ٹی کا قیام ہماری فتح ہے لیکن یہ فتح صرف 13 ہفتہ بعد عبرتناک شکست میںتبدیل ہو گئی ایسی شکست جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا اب بھی نااہلی اور بدعنوانی سے پاک ہونے کا دعویٰ بھی زیادہ سے زیادہ 8 ماہ کی مدت کا متحمل ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2 ہفتوں میں نیب کوریفرنس داخل کرنے اور مزید 6 ماہ میں ان ریفرنسز کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے جن کی بنیاد جے آئی ٹی کی رپوٹوں پر رکھی جائے گی اس طرح گویاریفرنسز داخل ہونے کے ساتھ ہی نیب کے پاس وافر ثبوت بھی موجود ہونگے ۔
آئندہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ 10ماہ کاوقت باقی ہے گویا نیب ریفرنسز کا فیصلہ عین انتخابات سے قبل ظاہر ہو گا جس میں قوی امکانات ہیں کہ ناصرف پوری شریف فیملی نااہل قرار پائے بلکہ نیب قوانین کے تحت قیدوبند کی سزاؤں کی حقدار بھی قرار دی جائے یہ وہ حالات ہیں جو مسلم لیگ کے وجود کو عدم میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ہیں اگر نوازشریف مسلم لیگ کو بچانا چاہتے ہیں تو ابھی وقت ہے کہ قیادت شریف خاندان سے باہر کسی سینئر مسلم لیگی کے حوالے کر دیں جو اس مدت میں مسلم لیگ کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکے اور ایک نئے اعتماد کے ساتھ انتخابی عمل میں جا سکے ورنہ جو حشر پیپلزپارٹی کا 1997 اور2013 میں ہوا مسلم لیگ اس سے بھی زیادہ عبرتناک انجام کا شکار ہو سکتی ہے۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر