... loading ...
پاناما کیس کی گیس کا سلنڈر دھماکے سے پھٹ گیااور تاحیات نااہلی کے صدمے سے مغلوب وزیراعظم نواز شریف‘ وزیراعظم ہائوس چھوڑ کر اپنے گھر جاتی امرائو پہنچ گئے۔ ان کی رخصتی کے بعد چند وزراء نے اسلام آباد کے پنجاب ہائوس جاکر میٹنگ کرنے کی کوشش کی لیکن ان پر اس کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ 6اگست 1990ء میں جب بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی گئی تھی تو وزیراعظم ہائوس میں انہیں کوئی پانی اور چائے پلانے والا بھی نہیں تھا۔ پاناما کیس میںسپریم کورٹ کی 5رکنی بنچ میں سے دو جج صاحبان نے تو 20اپریل 2017ء کے فیصلے میں ہی انہیں صادق اور امین نہ ہونے کا مجرم قرار دیکر نااہل کہہ دیاتھا۔ تین جج صاحبان کے اختلاف پر مزید تحقیقات کا فیصلہ ہوا۔ جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے 60 دن کی مقررہ مدت میں پورے شریف خاندان کو کھنگال ڈالا اور کرپشن کے رازہائے سربستہ سرعام آگئے۔ دبئی کی کمپنی ایف زیڈ ای میں میاں نواز شریف کی ملازمت اور اقامے کا راز کھلا۔ وزیراعظم نے انتخابات کے وقت اپنے اثاثہ جات میں اسے ظاہر نہیں کیا تھا جبکہ دبئی آنے جانے والے بیشتر سیاستدان اور پاکستانی اشرافیہ کے کم و بیش تمام ہی لوگ متحدہ عرب امارات میں اپنی رجسٹرڈ کمپنی یا کسی دوسری کمپنی کا اقامہ رکھتے ہیں،جتنا بھاری بھرکم بینک بیلنس اتنا ہی مضبوط اقامہ‘ میاں نواز شریف کے سمدھی اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پاس تو شاہی خاندان کا اقامہ ہے۔ یو اے ای میں دو یا تین سال کا رہائشی ویزہ یا اقامہ جاری کیا جاتا ہے۔ عموماً اسے سفری سہولت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اقامہ بردار کسی بھی وقت ٹکٹ کٹا کر دبئی کے سفر پر روانہ ہوسکتا ہے۔ ہر 6ماہ میں ایک بار ان اورآئوٹ ضروری ہوتا ہے‘ بظاہر یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیںہے‘ ہزاروں پاکستانی ایسا کرتے ہیں لیکن ایک ایسا شخص جو ملک کا وزیراعظم ہو اور اس کے پاس دبئی کی کمپنی کا رہائشی ویزہ بھی ہو۔ اس کمپنی سے اس کی تنخواہ بھی جاری ہوتی ہو۔ اس عمل کو معیوب‘ غیرقانونی اور غیرآئینی تصور کیا جائیگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے5جون 2013ء کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ جمہوری نظام میں یہ سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ اس مرتبے پر فائز ہونے کے بعد انہیں ازخود دبئی کی کمپنی کا اقامہ ختم کردینا چاہئے تھا۔وزیراعظم بننے کے بعد وہ کوئی دوسرا منفعت بخش عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے۔ لیکن طاقت کے غرور نے انہیں اندھا کردیا ،وہ تکبر کی پگڑی باندھ کر بلند مچان پر جا بیٹھے ،جہاں انہیں کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔خواجہ آصف‘ سعد رفیق اور طلال چوہدری جیسے جی حضوریوں نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی‘ انہوں نے سب سے پہلے سابق صدر پاکستان پرویز مشرف سے انتقام لینے کی ٹھانی‘ پاک فوج کے سابق سربراہ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر غداری کا مقدمہ بنا دیا۔ اپنی ہی فوج کے سابق چیف کو پابندسلاسل کردیا حالانکہ یہ کام تو ازلی دشمن بھارت کا تھا جس نے 1971ء میں سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجیوں سے ہتھیار ڈلواکر انہیں قیدی بنایاتھا۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نواز شریف کو متعدد ملاقاتوں میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ فوج اپنے سابق سربراہ پر غداری کا الزام قبول اور برداشت نہیں کرے گی ۔جنرل پرویز مشرف کا عسکری کردار آئینہ کی طرح صاف اور شفاف تھا۔ انہوںنے ایس ایس جی جیسے قابل فخر ونگ کی قیادت کی تھی‘ بھارت سے دو جنگوں میں شجاعت اور بہادری کا بے مثال نمونہ پیش کیا تھا۔ لیکن وزارت عظمیٰ کے گھمنڈ میں مبتلا وزیراعظم نواز شریف کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی‘ ان کے چمچے وزراء انہیں آسمان پر چڑھاتے رہے اور بآلاخر 28 جولائی 2017ء کو ان کا دھڑن تختہ کرادیا۔ ان کی شان میں قصیدے پڑھنے والے وزیر دفاع خواجہ آصف اور طلال چوہدری تو فیصلہ سنتے ہی بیرون ملک فرار ہوگئے اور دیگر سابق وزراء اپنے لیے جائے پناہ تلاش کررہے ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر پرویز مشرف تو علاج کے لیے بیرون ملک چلے گئے لیکن ان سے انتقام لینے کی آگ میں جھلستے ہوئے نواز شریف اپنے لیے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان پر مشتمل لارجر بنچ نے صرف ان کی نااہلی کافیصلہ ہی نہیںسنایا بلکہ یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ 6ہفتے میں تحقیقات مکمل کرکے نواز شریف اور ان کے ٹبر(بقول شیخ رشید) کے خلاف نیب عدالت میں ریفرنس دائر کیا جائے جو 6ماہ کے اندر فیصلہ سنانے کی پابند ہوگی اور سپریم کورٹ کا ایک جج اس کارروائی کی نگرانی کرے گا۔سپریم کورٹ نے نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 91فیصداضافہ پر بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیاہے ۔ نواز شریف کے علاوہ مریم نواز‘ حسین نواز اور حسن نواز کے اثاثہ جات کی بھی تحقیقات ہوئی قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنی ’’حرکتوں‘‘ کے باعث تیسری مرتبہ بھی اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری نہ کرسکے۔ اگر ان کا کردار صاف ہوتا تو انہیں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت لیاقت علی خان کے عہد اقتدار کا ریکارڈ توڑنے کا موقع مل رہا تھا۔ شہید لیاقت علی خان شہادت کے وقت تک 4سال 2ماہ ایک دن وزیراعظم رہے تھے لیکن میاں نواز شریف 4سال ایک ماہ 23دن ہی وزیراعظم رہ کر کلین بولڈ ہوگئے۔ان سے قبل زرداری دور حکومت میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی یہ ریکارڈ توڑنے والے تھے لیکن سپریم کورٹ نے 2012 میں ایک ماہ قبل انہیں معزول قرار دیکر شہیدملت کا ریکارڈ بچالیا تھا۔ اس سے قبل میاں نواز شریف دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے لیکن دونوں بار مدت پوری کیے بغیر دو دو سال میں ہی اقتدار سے نکالا گیا تو اس وقت کے چیف جسٹس جناب نسیم حسن شاہ نے دوسرے ہی دن ان کی حکومت بحال کردی تھی جسے چند دن بعد دوبارہ برطرف کردیا گیا تھا۔ 28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میںجسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسی نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سنایا ہے۔ گزشتہ 24 برس میں میاں نواز شریف ذرا بھی تبدیل نہیں ہوئے ،فوجی اسٹیبلشمنٹ سے پنگا شاید ان کی سرشت میں شامل ہے۔ وہ احساس کمتری کے سب سے کم تر درجے میں جاکر مصنوعی برتری کی کیفیت کا شکار ہیں اور بار بار جمہوریت کی ٹرین کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہ ڈھاکا کے پلٹن میدان میں پاکستانی فوجیوں سے ہتھیار ڈلوانے والے بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے کاروبار کو سرحد پار تک وسعت دے سکیںاور اس زعم میں بار بار ایک ہی غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں اور سزا پارہے ہیں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری دوسری قسم کی غلطی کررہے ہیں‘ وہ وفاق اور پنجاب پر دبائوڈالنے کے لیے ’’سندھودیشی‘‘
فکر کا پرانا حربہ استعمال کررہے ہیں‘ ان کی پارٹی تیزی کے ساتھ صوبائی خودمختاری سے خود اختیاری کی طر ف گامزن ہے۔ صوبے میں مرکز گریز تحریک اور خیالات تو ہمیشہ سے موجودرہے ہیں مگر آئین کی 18ویں ترمیم نے ان خیالات کو قانونی اور آئینی پوزیشن دے دی ہے۔ باقی کسر سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی عددی اکثریت نے پوری کردی ہے۔ گوکہ اپوزیشن کے مقابلے میں اراکین کی کثرت معمولی نوعیت کی ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے جب وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا تھا تو انہیں اپوزیشن کے 80 اراکین کے مقابلے میں صرف 8 ووٹ ہی زیادہ ملے تھے لیکن اس موقع پر حزب اختلاف نے اپنی عددی طاقت ظاہر کرنے کی بجائے مراد علی شاہ کو منتخب کرنا مناسب جانا جس کا نتیجہ اپوزیشن آج تک برداشت کررہی ہے۔ سابق صدر مملکت پرویز مشرف نے 1999ء میںاقتدار سنبھالنے کے بعدکرپشن کے خاتمے کے لئے نیب کا قانون متعارف کرایا تھا ۔سندھ اسمبلی نے یہ قانون ختم کرکے صوبائی اینٹی کرپشن کا قانون منظور کیا ہے۔ اس قانون کو گورنر سندھ محمد زبیر نے نامنظور کرکے بل واپس اسمبلی کو بھیج دیا تھا اور اس میں ترمیم کی ہدایت کی تھی۔اب سندھ اسمبلی نے ترمیم شدہ انسداد بدعنوانی بل 2017ء معمولی اکثریت سے منظور کرلیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں ایم کیو ایم ‘ مسلم لیگ (ن)‘ پی ٹی آئی اور فنکشنل لیگ نے اس پر احتجاج بھی کیا جو صدا بہ صحرا ثابت ہوا‘ قانونی طور پر اگر گورنر اسمبلی کا کوئی بل اپنے اعتراض کے ساتھ واپس اسمبلی کو غور و غوض کے لیے بھیج دے اور اسمبلی دوبارہ اسی بل کو منظور کرے تو وہ بل گورنر کی منظوری کے بغیر بھی قانون بن جائے گا۔گویا کہ نیب کے قانون سے آزاد صوبائی احتساب کا قانون چلے گا اور اپنے بدعنوان افسروں کو سندھ حکومت خود پکڑے گی یا چھوڑے گی۔ یعنی احتساب کا ڈنڈا اب وزیراعلیٰ یا بلاول ہائوس اور ’’پانچ پیاروں‘‘کے پاس ہوگا اور وہ جسے چاہیں گے کلین چٹ دیں گے۔وفاقی حکومت کے بہت سے قوانین اصلاح اور ترامیم کے محتاج ہوں گے لیکن اس کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔ اگر پارلیمنٹ یا وفاقی حکومت کے نافذ کردہ یہ قوانین صوبائی اسمبلیاں ختم کرنے لگیں تو وفاق کی رٹ کہاں قائم رہے گی۔سندھ میں آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کے اختیارات پہلے ہی ختم کردیے گئے ہیں اور سارے اختیارات ان کے ایک نائب غلام قادر تھیبو کو کراچی کا پولیس چیف بنا کر تفویض کردیے گئے ہیں۔اس سلسلے میں اے ڈی خواجہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو دو خطوط بھی ارسال کرچکے ہیںکہ وزیرداخلہ سہیل انور سیال نے انہیں قطعی بے دست و پا کردیا ہے۔ آئی جی اور چیف سیکریٹری کی تقرری کا اختیار صوبے کی مشاورت سے وفاق کو حاصل ہے۔ آئی جی سے معرکہ آرائی کا مطلب وفاق سے چھیڑ خانی ہے۔ اداروں سے لڑائی کا انجام پاناما کیس میں ہمارے سامنے ہے۔
٭٭…٭٭