... loading ...
میتھین گیس کے بڑے ذخائر کی موجودگی کے باعث یہاں کسی بھی وقت زمین سے اچانک آگ نکلنے لگتی ہے
آذرکامطلب آگ ہے‘آذربائیجان کانام بھی اسی وجہ سے پڑا ‘دوہزار سال قبل اسی سرزمین پرپارسی مذہب پروان چڑھا
70 برس قبل یہاںپھینکی گئی سگریٹ سے لگنے والی آگ آج تک جل رہی ہے‘ دس مربع میل میں شعلے بھڑکتے نظرآتے ہیں
صبا حیات نقوی
آج آپ کو لے چلتے ہیں دنیا کے سب سے بڑے پریشر ککر کی سیر پر۔آپ حیرت زدہ نہ ہوں یہ پریشر ککر کوئی عام پریشر ککر نہیں بلکہ یہ تو قدرتی ہے اور ایک بڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔یہ علاقہ وسطی ایشیائی ملک آذربائیجان کے ابشرا جزیرہ نما کا ہے۔
ابشرا جزیرہ نما، دنیا کی سب سے بڑی جھیل کہی جانے والے بحیرہ کیسپیئن سے لگا ہوا ہے۔ اسی میں آذربائیجان کے دارالحکومت اور وسطی ایشیا کا خوبصورت شہر باکو بھی واقع ہے۔
باکو کے اچیری علاقے میں طرح طرح کے ریستوران ہیں۔ یہاں روز شام کے وقت گھر سے باہر کھانے کا کلچر ہے۔ عام طور پر لوگ بکری کے گوشت کے کباب کے ساتھ نان کھاتے ہیں۔کسی بھی ریستوران میں تندور سے تازہ تازہ پکنے والی روٹیوں کی سوندھی خوشبو آتی رہتی ہے۔
لیکن باکو شہر یا ابشرا جزیرہ نما کی یہ کوئی خاص خوبی نہیں ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اس بات سے بے خوف ہیں کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے پریشر ککر کہے جانے والے علاقے کے باشندے ہیں۔یہاں کبھی بھی زمین کے اندر سے چنگاری پھوٹ نکلتی ہے۔ کیچڑ کے آتش فشاں پھٹ جاتے ہیں۔
ابشرا جزیرہ نما میں زمین کے نیچے بڑی تعداد میں قدرتی گیس کے ذخائر ہیں۔ جب میتھین گیس کا دباؤ بڑھ جاتا ہے تو وہ کہیں بھی زمین کی ملائم سطح سے باہر آنے لگتی ہے، تیز رفتاری سے گیس یوں زمین سے نکلتی ہے جیسے مٹی کا کوئی آتش فشاں پھٹ گیا ہو۔
آذربائیجان میں 400 سے بھی زیادہ مٹی کے آتش فشاں ہیں۔ دنیا کے کل ایک ہزار ایسے آتش فشانوں میں سے سب سے زیادہ یہاںپر پائے جاتے ہیں۔آج سے 70 برس قبل کسی نے پہاڑی پر سگریٹ پھینک دی تھی۔ اس کے بعد سے لگنے والی آگ یہاں آج تک جل رہی ہے۔
اس علاقے میں اکثر ایسے دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ عام طور پر تو خطرناک نہیں ہوتے ہیں لیکن کئی بار خوفناک مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
سنہ 2001 میں باکو سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر لوکبطن نامی آتش فشاں میں اتنا زبردست دھماکہ ہوا تھا کہ آسمان میں سینکڑوں میٹر بلند چنگاریاں دیکھی گئی تھیں۔ وہاں کی فضا مکمل طور پر کیچڑ اور دھوئیں سے بھر گئی تھی۔ ایک دھماکہ 6 فروری 2017 کو بھی ہوا تھا۔
باکو سے تقریبا 64 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ‘گوبستاں راک آرٹ کلچرل لینڈا سکیپ ہے۔پورے علاقے کا یہی حال ہے۔ کبھی بھی، کہیں بھی گیس کے نکلنے سے دھماکہ ہوسکتا ہے۔ آگ لگ سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی اس علاقے میں ہزاروں سال سے لوگ آباد ہیں۔آج سے تقریبا دو ہزار سال پہلے اسی سر زمین پر پارسی مذہب پروان چڑھا تھا۔یہ یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہاں آپ پتھروں پر کنندہ پینٹنگ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ پانچ سے 40 ہزار سال تک پرانی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ تمام طرح کے خطرات کے باوجود یہاں ہزاروں سال سے انسان آباد ہیں۔
آج سے تقریباًدو ہزار سال پہلے اسی سر زمین پر پارسی مذہب پروان چڑھا تھا۔ پارسی آگ کو خدا کی علامت سمجھتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ آگ سب سے زیادہ مقدس چیز ہے۔ اس علاقے میں اس دور میں بھی خود بہ خود زمین میں آگ لگ جایا کرتی تھی۔
آذربائیجان کو اپنا نام بھی اسی وجہ سے ملا ہے۔ آذر کا مطلب آگ ہوتا ہے۔ یہاں کا مشہور آتش گاہ مندر اس بات کی ایک مثال ہے۔اس دور میں ابشرا جزیرہ نما آگ لگنے اور مٹی کے آتش فشانوں کی اپنی قدرتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ دور دور سے سیاح انھیں دیکھنے آتے ہیں۔
آج سے 70 برس قبل کسی نے پہاڑی پر سگریٹ پھینک دی تھی۔ اس کے بعد سے لگنے والی آگ یہاں آج تک جل رہی ہے۔ تقریبا دس مربع میٹر کے دائرے میں یہاں ہمیشہ آگ لگی رہتی ہے۔اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے آذر بائیجان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر یہاں پر کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں 1846 سے خام تیل نکالا جا رہا ہے جو کافی خطرناک بھی ہے۔لیکن مقامی لوگ مانتے ہیں کہ جب تک وہ کیچڑ والے آتش فشاں سے دور آباد ہیں، اس وقت تک انہیں کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
تیل اور گیس کی برآمد سے ملنے والی رقم سے آذربائیجان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ آج باکو شہر قدیم تہذیب اور جدیدیت کے میل کی ایک مثال ہے۔ شہر میں بنے آگ کے ٹاور، جو شعلوں کی طرح نظر آتے ہیں، جدیدیت کی مثال ہیں جبکہ اسی کے آس پاس واقع پرانی عمارتیں آذربائیجان کی قدیم ثقافت اور روایت کی گواہی دیتی ہیں۔