وجود

... loading ...

وجود

بالآخر نواز شریف نااہل

اتوار 30 جولائی 2017 بالآخر نواز شریف نااہل

پاناما کیس کی کاز لسٹ کل لگا دی گئی تھی تمام متعلقہ حضرات جن میں درخواست گزار، سراج الحق صاحب، عمران خان صاحب اور شیخ رشید صاحب اور مدعا علیہان اور وکلا کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کر دیے گئے تھے۔ ساڑھے گیارہ بجے سپریم کورٹ کی پانچ رکنی لارجر بینچ، جسٹس آصف سعیدکھوسہ صاحب کی سربراہی جس میں جناب جسٹس اعجاز الحسن صاحب، جسٹس گلزار احمد صاحب،جسٹس اعجاز افضل صاحب اورجسٹس شیخ عظمت سعید صاحب شامل ہیں، نے بلا آخر عوام کی امنگوں کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ فیصلہ آیا کہ نیپ دو ہفتے کے اندر مریم نواز، اسحاق ڈار اورکپٹن صفدر کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔فیصلے کے وقت کمرہ عدالت کھچا کھچ بھراہوا ‘ ملکی اور انٹرنیشنل میڈیا موجود تھا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقی رپورٹ پیش کرنے کے بعد فریقین کو سن کر انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے اکیس جولائی کو سپریم کورٹ کے معزز ججوں نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس قبل پہلے 30 ؍اپریل کے فیصلے میں دو ججوں نے وزیر اعظم کو نااہل قررار دیا اور تین ججوں نے وزیر اعظم کو منی ٹریل کے ثبوت فراہم کرنے کے لیے ساٹھ دن کا موقعہ فراہم کیا۔ جس کے تحت جے آئی ٹی بنی۔ جے آئی ٹی نے انصاف کے تقاضے پورا کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کو منی ٹریل کے ثبوت پیش کرنے کا پورہ موقع دیا اور مقررہ وقت میں اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ عدالت عالیہ کے سامنے پیش کر دی۔ نواز شریف نے کاز لسٹ آنے پر وزیر اعظم ہائوس میں قریبی رفقاء کا اجلاس طلب کیا جس میں آئندہ کے لیے مشورے کیے۔ اس اجلاس میں اٹارنی جنرل قانونی مشاورت کے لئے شریک ہوئے۔ وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس اورکاز لسٹ کے آنے کے بعد الیکٹرونک میڈیا پر اینکرز نے اپنے اپنے تبصرے اور تجزیے پیش کیے۔ اُدھر نوازلیگ کے کچھ وزرا نے باہر ملک جانے کے لیے ویزے لگوا لیے۔وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میںنواز شریف کو چارج شیٹ جاری کی اور کہا چند دن بعد کھل کر میڈیا سے بات کروں گا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت پینتیس سال سے سرتاج عزیز،مہتاب عباسی اور سینئر ترین نون لیگی اور نواز شریف کے ساتھی ہیں باقی سب اِدھر اُدھر ہو گئے ۔ حالت یہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ سے مجھے بھی مشاوارت کے
اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں نہیں بلایا گیا۔پینتالیس اجلاسوں میں صرف تین اجلاس میں بلایا گیا۔ کہا کہ میں نے ہمیشہ نواز شریف کوصحیح مشورے دیے۔ مجھے منافقت نہیں آتی۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاناما کیس آنے کے بعد قومی اسمبلی کی سیٹ اور وزارت داخلہ سے استعفیٰ دے دوں گا۔ اگر نواز شریف پاناما کیس میں جیت گئے تو وزیر اعظم ہائوس میں جاکر مبارک باد دوں گا۔ اور خداناخواستہ نواز شریف کیس ہارگئے تو میں کسی عہدے کا امیدوار نہیں ہوں گا مجھے عزت پیاری ہے کوئی عہدہ نہیں!۔میں نواز شریف کو مشورہ دیتا ہوں کہ جیتنے کی شکل میں ارد گرد کے لوگوں کے مشورے پر کسی کی گردن زنی نہ کرنا اور ہارنے کی شکل میں تحمل سے برداشت کا مظاہرہ کرنا۔ اداروں سے لڑائی مول لینے میں ملک کا نقصان ہے ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کو قبول کرنا ہو گا۔ اس وقت پاکستان پر کالے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔ پارٹی پر اس وقت سخت مشکل وقت ہے میںپارٹی سے کیوں الگ ہوں؟ بہت سے لوگوں کو خدشات ہیں میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ ڈان لیک میں بھی کچھ لوگوں نے وزیراعظم کو غلط مشورے دیے گئے۔ میں نے ہمیشہ اداروں کے درمیان اتحاد اتفاق کا کہا۔ میرے فوجی بیک گرئونڈ کی وجہ سے میرے ساتھ یہ رویہ رکھا جارہا ہے لیکن مگر مجھے اپنے فوجی بیک گرونڈ پر فخر ہے۔امیر جماعت اسلامی نے فیصلہ سے پہلے سپرہم کورٹ کے باہر عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس کا فیصلہ کے بعد پاکستان میں کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کرے تاکہ ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو۔ پاکستان کی دکھیا عوام جو کرپشن، مہنگائی لوڈشیڈنگ،امن وامان اور بیروزگاری کی ماری ہوئی ہے ۔ انصاف کے لیے عوام کی نظریں اپنی عظیم سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرف لگی ہوئی تھی۔ اس لیے الیکٹرونگ میڈیا نے اس اہم کیس کی رپورٹنگ کے لیے خصوصی پروگرام کیے جس میں فیصلہ کی پل پل کی خبریں عوام کے سامنے رکھیں۔ اُدھر عمران خان نے سپریم کورٹ آنے سے رک گئے کیونکہ ان کی گرفتاری کا امکان تھا۔انھوں نے گھر میں ہی بیٹھ کر سپریم کورٹ کی کاروائی سنی ۔ مریم اورنگزیب صاحبہ سپریم کورٹ آئیں اور کہاکہ پہلے دن سے معلوم ہے کہ وزیر اعظم سرخ رو ہونگے۔ مریم نواز شریف اور نواز شریف کے بچے بھی سپریم کورٹ میں فیصلہ سننے کے لیے آئے۔ الیکٹرونگ میڈیا میں ڈسکس ہو رہا ہے کہ خواجہ آصف امریکا میں ہیں شاید نام نہاد جمہورت کے خلاف سازش میں مدد کی کوشش کر رہے ہوں۔ عابد شیر علی سپریم کورٹ کے باہر کہتے رہے کہ نواز شریف پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ہاں الزام ہے کہ نواز شریف نے پاکستان میں بجلی پیدا کروا کر اندھیرے ختم کیے۔ پاک چائنا اقتصادی کوریڈور شروع کیا۔ سڑکوں کے جال پچھائے۔بھائی اگر کرپشن کا الزام نہیں تو یہ کیس کیوں چل رہا ہے۔ لندن فلیٹس کی منی ٹریل کیوں مانگی جا رہی ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول تھا۔ کورٹ سے نواز شریف کا سیاسی تابوت نکلنا تھا۔۔۔شیخ صاحب! قانون کے مطابق سب فریقین کو فیصلہ کو قبول کرنا تھا۔ کیا کوئی ہے جو سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول نہیں کرے گا؟، سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ منوانے کے لیے آئینی اختیارات موجود تھے۔الیکٹرونک میڈیا کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کا مریم نواز کو وزیر اعظم بنانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔نواز شریف کی کرپٹ سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔ وزیر داخلہ نے پنجاب ہائو س میں بیٹھ کر فیصلہ سنا۔ سپریم کورٹ کے باہر پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے کارکن ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی کرتے رہے۔ پولیس ان کو آمنے سامنے آنے سے روکتے رہے۔سپریم کورٹ اور ریڈ زون میں تین ہزار پولیس فورس، ایف سی اوررینجرز بھی موجودر ہے روٹین سے زیادہ سیکورٹی کا انتظام کیا گیا۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر