... loading ...
ایک طویل قانونی جدوجہد کے بعد ملک سے کرپشن کے خاتمہ کی امید پیدا ہوئی ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوسیوں کی اتھا ہ گہرائیوں میں گھری ہوئی قوم کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے اگرچہ اس میں چند افراد کو نااہل قرار دیا گیا ہے لیکن یہ چند افراد نہیں اپنی اپنی حیثیت میں ایک انجمن کا درجہ رکھتے تھے کسی کو بھی امید نہیں تھی بلکہ نوازلیگ اور اس کے اتحادی یہ تاثر دے رہے تھے کہ عمران خان اور سراج الحق کی پٹیشن پر کیا ہونا ہے خصوصاً پیپلزپارٹی نے اس جدوجہد کو کارلاحاصل اور طویل قانونی عمل کے ذریعہ نوازشریف کو 2018 ہی نہیں 2023 میں بھی کامیابی کا راستہ دینے کی کوشش قرار دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کے مطابق یہ جماعت اسلامی اور عمران خان کی پٹیشن نہیں یہودوں نصاری کی سازش ہے اور جب سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے اپنا پہلا فیصلہ سنایا تھا جس میں شیخ رشید کے مطابق پپو دو پرچوں میں فیل اور تین میں سپلیمینٹری لایا تھا اور خواجہ سعد رفیق ،خواجہ آصف سمیت تمام وزراء نے خوشی کے شادیانے بجائے تھے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل ان کی کامیابی ہے ان کا گمان تھا کہ سکہ رائج الوقت میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور جب لوٹ کا مال بے حساب جمع ہو تو اس کو خرچ کرنے اور اس کے ذریعہ گردن چھڑانے میں کیا نقصان ہے یہ تو ایسا ہی ہے جیسے حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ ،پلے سے کچھ گیا نہیں اور نانا جی کو ثواب بھی مل گیا لیکن دنیا میں ناتو ہر شخص بکاؤ مال ہے نا بے ضمیر ،جے آئی ٹی کے ان ممبران کو پہلے خریدنے پھر ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بولی ناکام رہی اور ہر دھمکی نے ان کا حوصلہ مزید مضبوط کیا کرپشن کے خاتمہ کا عزم مزید مستحکم ہوا یوں اس چھ رکنی جے آئی ٹی نے وہ کام کر دکھایا جو کسی نے سوچا بھی نہ تھا جن ثبوتوں سے نوازشریف ،اسحاق ڈار،مریم صفدر ،چھوٹے اور بڑے گونگلو اور فوجی زبان میں ڈفر کیپٹن (ر) صفدر تو آگاہ تھے لیکن انہوں نے خواب وخیال میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس بابت کوئی اور بھی آگاہی حاصل کر سکتا ہے ان سب کا خیال تھا کہ قطری شہزادے کا خط ان کی نجات کا پروانہ ہے سپریم کورٹ اس خط کو محبوبہ کا پریم پتر سمجھ کر پہلے سینے سے لگائے گی پھر اس کی نقلیںکرا کر ہر جج اپنے گلے کا تعویز اور بازو پر امام ضامن کے طور پر باندھے گا کہ یہ قطری شہزادے کا خط ہے جو اگرچہ انگریزی زبان میں ہے لیکن لکھانے والا تو عربی دان ہے اور عربی بہت مقدس زبان ہے اس کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی کس کی مجال ہو سکتی ہے لیکن یہ خط تو ٹوائلٹ پیپر سے بھی کم تر ثابت ہوا ججوں نے اس کو ٹشو پیپر کے طور پر بھی استعمال نہیں کیا ۔
جب پت جھڑ کا موسم آتا ہے تو درختوں سے پتے گرنے لگتے ہیں نادان سمجھتے ہیں کہ یہ خزاں کا موسم ہی اب ہمیشہ برقرار رہے گا درخت یوں ہی ٹنڈ منڈ کھڑے رہے گے لیکن دراصل یہ بہار کے آغاز کا اعلان ہوتا ہے کہ اب پرانے پتے اپنی عمر پوری کر چکے یہ گریں گے تو نئے پتے آئیںگے درخت مزید سرسبزاورشاداب ہونگے پھول کھلیں گے اور فضائیں خوشبووں سے مہک اُٹھیں گی ۔
جے آئی ٹی بنی تو پیپلزپارٹی ہو یا فضل الرحمن سب ہی توپوں کے دھانے عمران خان اور سراج الحق کی جانب تھے کہ انہوں نے سپریم کورٹ جا کر غلط فیصلہ کیا ہے پیپلزپارٹی میں تو بیرسٹر اعتزاز احسن سمیت بڑے قابل اور نامور قانون دان موجود ہیں جنہیں آیات ربانی تو یاد ہویا نہ ہو لیکن آئین اور قانون کی ایک ایک شق ازبر ہے لیکن ہرپارٹی کا ایک المیہ ہے کہ اس کا لیڈر اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے اور جو اس کی بولی بولے وہی اس کے نزدیک پارٹی کا سچا وفادار ہوتا ہے کہ ان لیڈروں میں ایک ہی صفت پائی جاتی ہے کہ ان سے وفاداری اور ان کی چاپلوسی ہی پارٹی سے وفاداری کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اس میدان میں سید خورشید شاہ نے تو ساری حدیں عبور کر لی تھیں اور پٹیشن دائر ہونے کے ساتھ ہی سراج الحق اور عمران خان کے بابت وہ وہ باتیں کہیں تھیں کہ جن کو ضبط تحریر میں لانا ایک امتحان کا درجہ رکھتا ہے لیکن جب دو ججز نے نوازشریف کو بدیانت اور نااہل قرار دیا اور تین ججز نے مزید تحقیق وتفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو بھی خورشید شاہ اپنے موقف پر سختی سے کھڑے ہوئے تھے کہ عمران خان اور سراج الحق نے نوازشریف کو کلین چٹ دلانے کا اہتمام کر دیا ہے لیکن جب ہواؤں کا رخ بدلا اور جے آئی ٹی نے ایسے زایوں سے تحقیق وتفتیش کی اور وہ وہ ثبوت اکھٹے کئے کہ جن کو جھٹلانا کسی کے بس میں نہ تھا تو یہ خورشید شاہ ہی تھے جو کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ بول رہے تھے اس وقت ناتو مفاہمت کی سیاست موجود تھی نا میثاق جمہوریت کا انہیں کوئی پاس تھا کہ جس میں طے تھا کہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں کرینگے اب حالات بدل چکے تھے اور سپریم کورٹ کے ججز کے تبصروں نے واضح کر دیا تھا کہ نواز شریف کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا والا معاملہ ہے تو فتح کا سہرا اپنے سر سجانے میں کیا مضائقہ ہے لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ یہ تو بارش کا پہلا قطرہ ہے ابھی تک کرپشن کے خلاف موسلادھار بارش ہونی ہے اور ہر کرپٹ سیاستدان اور فرد نے اس میں بہہ جاناہے میراسید خورشید شاہ کو مشورہ ہے کہ وہ اگست1980 کے روزنامہ عبرت حیدرآباد کی فائل کا مطالعہ کر لیں ان پر بہت کچھ واضح ہو جائے گا کہ کرپشن میں صرف نوازشریف ملوث نہیں بلکہ لاڑکانہ اور نواب شاہ بھی اس بہتی گنگا میں کسی سے کم نہیں میں مختصراً یہاں بتاتا چلوں کہ اس دورانیہ میں نواب شاہ کی چند دکانوں کے مالک کے نادہندہ ہونے پر ان دکانوں کی بینکنگ کورٹ سے نیلام کا اشتہار چھپا تھا ان دکانوں کا مالک کو ن تھا یہ جاننا شاید خورشید شاہ کے لیے تکلیف ہی نہیں شرمندگی کا باعث بھی ہویوں بھی قوم کا حافظہ کمزور نہیں 2010 میں آنے والے سیلاب کا رخ کس کی زمینوں کو محفوظ کرنے اور کس کے گوداموں کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے موڑا گیا تھا ورنہ ماضی میں کبھی بھی شکارپور سیلاب میں نہیں ڈوبا تھا ۔
یوں تو پیپلزپارٹی میں قانونی ذہنوں کی کمی نہیں لیکن جب اپنے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہو تو قانونی موشگافیاں کرنا ضروری ہو جاتا ہے سراج الحق نے آئین کے آرٹیکل 183 کے تحت جو پٹیشن داخل کی تھی یوں انہوں نے بھی ایک طرح کا خطرہ مول لیا تھا کہ اس آرٹیکل کے تحت داخل پٹیشن کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست آسان نہیں ہوتی اگر فیصلہ نواز کے بجائے سراج الحق کے خلاف آ جاتا تو ناصرف سراج الحق کی سیاست کا سورج غروب ہوجاتا بلکہ جماعت اسلامی کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا یہ سراج الحق اور جماعت اسلامی ہی ہیں جو تقریباً دو دھائی سے کرپشن کے خلاف برسرپیکار ہیں 1993-96 کی بے نظیر حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک بھی کرپشن کے خاتمہ کی تحریک تھی اسی تحریک کے نتیجہ میں بے نظیر کی حکومت انکل فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرف ہوئی فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت کی برطرفی کے لیے جو جواز پیش کئے تھے ان میں کرپشن بھی ایک جواز تھا اسی طرح 1990 میں غلام اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کرتے وقت جو چارج شیٹ جاری کی تھی اس میں سرفہرست الزام کرپشن تھا اس دور میں آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا تھا اور یہ لقب کسی پاکستانی نے نہیں ابلاغ عامہ کی د نیا کے ایک معتبر ادارے نے دیا تھا لیکن بے نظیر بھٹو نے نا تو 1990 میں اور نا ہی 1996 میں اپنی حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا گویا انہوں نے چارج شیٹ میں عائد الزامات کو قبول کر لیا تھا اور اس کے بعد 1997 کے انتخابات میں شکست کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تھی جو اکتوبر2007 میں ختم ہوئی تھی اور پھر 27 دسمبر2007 کے سانحہ میں بے نظیر کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا ۔
بات کسی اور طرف چلی گئی لیکن رہی کرپشن کے دائرہ میں ہی اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے بھونپو کی آواز تو بہت دھیمی دھیمی تھی لیکن درویش صفت مفتی محمود کے فرزند جو مفتی محمود کی درویشی کا ضد ہے ان کا ردعمل پہلے بھی لطیفوں سے کم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کرپشن کے اس معاملہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش ڈھونڈ لاتے تھے اور اب فیصلے کے بعد بھی ان کا ردعمل ویسا ہی ہے کہ یہ فیصلہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے جس سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو سکتی ہیں گویا کرپشن ملک کی ترقی کی ضمانت ہے ان کے خیال میں اس فیصلے سے سی پیک بھی متاثر ہو گا لیکن شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ سی پیک کے بابت ابتدائی بات چیت ضیاء الحق کے دور میںشروع ہوئی تھی پھر تقریباً 16 سال بعد مشرف کے دور میں اس کا بلیو پرنٹ تیار ہوا آصف علی زرداری نے منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا اور نواز شریف نے حسب روایت نامکمل منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے نام کی تختی آویزاں کر ادی سی پیک حکمرانوں نہیں حکومتوں کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ ہے حکمران تبدیل ہوتے رہے لیکن یہ معاہدہ قابل عمل ہے اور قابل ہی عمل رہے گا بلکہ کرپشن کے خاتمے سے ملک اور قوم اس منصوبے سے زیادہ بہتر انداز میں فیض یاب ہو سکے گی لیکن اس فیض میں شاید زرداروں اور فضل الرحمان کا کوئی حصہ نا ہو اگرپاکستان کرپشن فری ہو جاتا ہے تو نہ صرف 7 سے 10 سال کے عرصہ میں واجب قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کر لے گا بلکہ آئندہ مزید تین چار سال بعد قرضہ لینے نہیں دینے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا ۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کئی حوالوں سے تاریخی اور یادگار ہے نظریہ ضرورت کو دفن کیا گیا ہے اور حکمران وقت کو قانون کے دائرہ میں لا کر نا صرف حق حکومت سے محروم کیا ہے بلکہ تاحیات نااہل قرار دے کر نشان عبرت بھی بنایا ہے مزید یہ کہ عدالت نے اس فیصلے کو قانون کی کتابوں میں شائع کرنے کی اجازت دے کر ایک ایسی نظیر قائم کر دی ہے کہ جو مستقبل میں کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کارروائی کے لیے بنیادی اساس ثابت ہو گی ۔
٭٭…٭٭