... loading ...
28جولائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلہ سے متعلق پانامہ کیس کے ٹائٹل میں مدعیان کے ناموں میں عمران احمد خان نیازی لکھا دیکھ کر مجھے پاکستان کی سول بیوروکریسی کے کلاسیکل گروہ سے تعلق رکھنے والے سابق بیوروکریٹ اور ممتاز سکالر ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی طرف سے سنایا جانے والا یہ واقعہ یاد آگیا کہ
’’ 1976 ء میں جب میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ سے وطن واپس لوٹنے لگاتو میں اپنی یادگار تصویروں کی کاپیاں بنوانے کے لئے ایک فوٹو شاپ پر گیا ۔ دکان کے مالک نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نیازی کے سپیلنگ کیا لکھتے ہیں۔میںنے جواب دیا کہ ’’NIAZI ‘‘ ۔ وہ بولا غلط ہے۔ اصل سپیلنگNIAZEE ہیں اور یہ ترکی زبان کا لفظ ہے ۔اوراس کا مطلب ’’ بھڑکتی ہوئی آگ‘‘ ہے ۔ میں ان نئی معلومات کے حصول کے بعد دکان سے باہر نکلا میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بورڈ پر لکھا تھا’’ photo Shop Niazee ‘‘
ہمارے ہاں نیازی قبائل کی تاریخ اس سے یکسر مختلف ہے لیکن اس واقعہ سے میں عمران خان کے جذباتی ہونے کی وجہ کافی حد تک سمجھنے میں کامیاب ہوا ہوں اور سیاستدان عمران خان کو سامنے رکھتے ہوئے نیازیوں کی تاریخ کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے متذکرہ بالا واقعہ کے مندرجات درست معلوم ہونے لگتے ہیں
فطرت کے مقاصد کی نگہبانی بندہٗ صحرائی اور مرد کہستانی کو سونپی گئی ہے ۔ ہمارے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان خطہ پوٹھوہار کی شان کہلاتے ہیں وہ ان مقاصدکی نگہبانی کہاں تک کر پائے اس کا فیصلہ تاریخ اور سیاسی مبصرین کا استحقاق ہے ۔ لیکن میانوالی کے ایک نیازی نے اپنے قبیلے کے بارے میں پختونوں کے مشر اسفندیار ولی خان اور مفاہمت کی سیاست کے علمبردار آصف علی زرداری کے خیالات اور موقف کو اپنی استقامت کی روشنی سے گہنا دیا ہے ۔ دور حاضر میں پاکستان کے ساتھ ساتھ نیازیوں کی پہچان اور شناختی کارڈ بن جانے والے عمران خان نے یہ کارنامہ شاید اس لیئے سر انجام دیا ہے کہ ان کا خمیر جس علاقے کی مٹی سے اُٹھا ہے وہ بیک وقت صحرائی بھی ہے اور کوہستانی بھی ۔ دوسرے یہ کہ ان کے خاندان کو ترجمان حقیقت علامہ محمد اقبال ؒ سے جو نسبت ہے اُس کی وجہ 23 مارچ1940 ء کو منٹو پارک لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صدارت میں منعقد ہونے والا وہ جلسہ عام ہے جس میںقرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اس کے علاوہ مسلم ا سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلے صدر مولانا عبد الستار خان نیازی جنہیں براہ ٗ راست علامہ اقبالؒ کی نیاز مندی کا شرف حاصل رہا وہ عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی مرحوم سے انتہائی قریبی اور گھریلو مراسم رکھتے تھے ۔
عمران خان کے نیازی ہونے کو پہلے پہل آصف علی زرداری نے تنقید کا نشانہ بنایا اُس کے بعد ہر وہ سیاستدان جو عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے جھنجلاہٹ کا شکار ہے وہ عمران خان پر نیازی ہونے کی پھبتی کستا رہتا ہے ۔ پانامہ کیس کے آخری ایام میں پختونوں کے غمخوار ہونے کے دعویدار اسفند یار ولی خان نے بھی کہا تھا کہ ’’ میاں نواز شریف نیازی نہیں جو استعفیٰ دے ‘‘ ۔ سرحدی گاندھی کے اس جانشین کو کون بتائے کہ میانوالی کے اس نیازی خاندان نے تحریک پاکستان ، تحریک ختم نبوت ، ایوب خان کی آمریت ، تحریک نظام مصطفی ، اور ججز بحالی کی تحریک سمیت تمام قومی معرکوں میں اپنا کردار ادا کیا۔ اگر پختونوں کے حقوق کے لیئے جدوجہد کے حوالے سے اسفند یار ولی خان کے خاندان کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے سوویت یونین کی جانب سے افغانستان پر فوجی یلغار کے دنوں میں جب افغانستان کے پٹھان اپنی بقاء اور آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو سرحدی گاندھی کا یہ خاندان کابل پر قابض روس کی کٹھ پتلی حکومتوں کی گود میں بیٹھا ہوا تھا ۔ پختون قوم کے لیئے ولی خان اور محمود خان اچکزئی وغیرہ کا کردار دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ
پتھر کرتاب کنول بھی لیتی جا
عمر کا ہر خوش قسمت پل بھی لیتی جا
چُن لے اپنے خواب بھی میری پلکوں سے
ایک ادھورا تاج محل بھی لیتی جا
پٹھانوں کے نیازی قبیلہ بلو خیل کی ذیلی شاخ شیر مان خیل کی نفسیات جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ معرکہ آرائی کرنے والے لوگ ہیں ، گھبرانے ، پیچھے ہٹنے اور ساز باز کرنے سے ہمیشہ انکاری رہے ہیں۔ یہی سب کچھ عمران خان سیاست نے ثابت کیا ہے۔
ہماری آج کی سیاست کا یہ نیازی روایتی سیاست کا سب سے بڑا باغی ثابت ہوا ، کرکٹ کے میدان کے کھلاڑی نے شریف اور بھٹو خاندان سمیت روایتی سیاست کے سبھی کرداروں کو للکارا اور بچھاڑا ہے یہی وجہ ہے کہ اسفند یار ولی ہوں یا مولانا فضل الرحمن عمران خان کی سیاست سے خائف ہیں ۔ یہی خوف مخالفین کو کبھی جمہوریت اور کبھی مذہب کے پیچھے چھُپنے پر مجبور کرتا ہے اور کبھی نیازی کہتے ہوئے اُسے جنرل نیازی سے مماثلت دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
عمران خان کی زندگی جدوجہد کا استعارہ اور کامرانیوں کا دبستان ہے ۔ وہ اللہ کی ذات پر کامل یقین کو اپنا سب سے بڑا وسیلہ سمجھتا ہے اُس نے اپنی زندگی میں کامیابیوںکی بڑی بڑی منازل طے کیں اور سنگ میل عبور کیئے لیکن اٹھائیس جولائی کو ملنے والی کامیابی کو وہ اللہ پاک کی جانب سے خصوصی انعام اور حیرت انگیز کامیابی سمجھتا ہے ۔ اس کامیابی پر وہ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئے ہر قسم کے خوف سے مکمل طور پر آزاد ہے ۔ وہ ان لمحوں میں زندہ اور بیدار آنکھوں سے اپنی جدوجہدکو کامیابی سے ہمکنار ہونے کا سرمدی خواب دیکھتا ہے ۔ سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیت سے تقریر کا آغاز اُس کے لہجے کو بشارت خیز بنا دیتا ہے ۔ اُس نے نئی نسل کے من میں تتلیوں کے تعاقب کی بجائے نظام بدلنے اور اپنے حق کے ادراک کا شعور اجا گر کیاہے۔ اس کا منشور ہے کہ اب ماوؤں کے راجے ، عزت بیگ اور پنل خان اپنی ماوؤں کو اڈیکوں کی بجائے امیدسے ثمر بار کریں ۔آخر میں نیازی کی پھبتی کے پس منظر میں لکھے گئے اشعار قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں کہ
کبھی مجھ کو نیازی تو کبھی عمران کہتے ہیں
مجھے جھکنا نہیں آتا یہی سب خان کہتے ہیں
میں لودھی اور سوری ہوں مروت اور وزیری ہوں
دعا ہوں کملی والے کی مجھے پٹھان کہتے ہیں
میں لوگوں کی زباں بن کر دلوں پرراج کرتا ہوں ؎مجھے غیرت کے پُتلے لوگ پاکستان کہتے ہیں
مجھے پیغام دینا ہے وقت کے ان یزیدوں کو
جو دل میں کھوٹ رکھتے ہوں انہیں مروان کہتے ہیں
کبھی میں دشمنوں پہ ایک ہیبت بن کے گرتا ہوں
کبھی مجھ کو فضاؤں کو سبھی سلطان کہتے ہیں
میں دنیا کے قوی لوگوں سے کیا کچھ چھین لایا ہوں
میں چیتا ہوں میں جیتاہوں مجھے کپتان کہتے ہیں
مجھے ان زر پرستوں سے وطن کو پاک کرنا ہے
جنہیں اس دیس کے باسی بڑے شیطان کہتے ہیں
تلاطم خیز لہریں جس سے ٹکرانے سے ڈرتی ہیں
سنوں او دشمنوں مجھ کو وہی چٹان کہتے ہیں
٭٭…٭٭