وجود

... loading ...

وجود

نیازی بھڑکتی ہوئی آگ

اتوار 30 جولائی 2017 نیازی بھڑکتی ہوئی آگ

28جولائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلہ سے متعلق پانامہ کیس کے ٹائٹل میں مدعیان کے ناموں میں عمران احمد خان نیازی لکھا دیکھ کر مجھے پاکستان کی سول بیوروکریسی کے کلاسیکل گروہ سے تعلق رکھنے والے سابق بیوروکریٹ اور ممتاز سکالر ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی طرف سے سنایا جانے والا یہ واقعہ یاد آگیا کہ
’’ 1976 ء میں جب میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ سے وطن واپس لوٹنے لگاتو میں اپنی یادگار تصویروں کی کاپیاں بنوانے کے لئے ایک فوٹو شاپ پر گیا ۔ دکان کے مالک نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نیازی کے سپیلنگ کیا لکھتے ہیں۔میںنے جواب دیا کہ ’’NIAZI ‘‘ ۔ وہ بولا غلط ہے۔ اصل سپیلنگNIAZEE ہیں اور یہ ترکی زبان کا لفظ ہے ۔اوراس کا مطلب ’’ بھڑکتی ہوئی آگ‘‘ ہے ۔ میں ان نئی معلومات کے حصول کے بعد دکان سے باہر نکلا میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بورڈ پر لکھا تھا’’ photo Shop Niazee ‘‘
ہمارے ہاں نیازی قبائل کی تاریخ اس سے یکسر مختلف ہے لیکن اس واقعہ سے میں عمران خان کے جذباتی ہونے کی وجہ کافی حد تک سمجھنے میں کامیاب ہوا ہوں اور سیاستدان عمران خان کو سامنے رکھتے ہوئے نیازیوں کی تاریخ کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے متذکرہ بالا واقعہ کے مندرجات درست معلوم ہونے لگتے ہیں
فطرت کے مقاصد کی نگہبانی بندہٗ صحرائی اور مرد کہستانی کو سونپی گئی ہے ۔ ہمارے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان خطہ پوٹھوہار کی شان کہلاتے ہیں وہ ان مقاصدکی نگہبانی کہاں تک کر پائے اس کا فیصلہ تاریخ اور سیاسی مبصرین کا استحقاق ہے ۔ لیکن میانوالی کے ایک نیازی نے اپنے قبیلے کے بارے میں پختونوں کے مشر اسفندیار ولی خان اور مفاہمت کی سیاست کے علمبردار آصف علی زرداری کے خیالات اور موقف کو اپنی استقامت کی روشنی سے گہنا دیا ہے ۔ دور حاضر میں پاکستان کے ساتھ ساتھ نیازیوں کی پہچان اور شناختی کارڈ بن جانے والے عمران خان نے یہ کارنامہ شاید اس لیئے سر انجام دیا ہے کہ ان کا خمیر جس علاقے کی مٹی سے اُٹھا ہے وہ بیک وقت صحرائی بھی ہے اور کوہستانی بھی ۔ دوسرے یہ کہ ان کے خاندان کو ترجمان حقیقت علامہ محمد اقبال ؒ سے جو نسبت ہے اُس کی وجہ 23 مارچ1940 ء کو منٹو پارک لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صدارت میں منعقد ہونے والا وہ جلسہ عام ہے جس میںقرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اس کے علاوہ مسلم ا سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلے صدر مولانا عبد الستار خان نیازی جنہیں براہ ٗ راست علامہ اقبالؒ کی نیاز مندی کا شرف حاصل رہا وہ عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی مرحوم سے انتہائی قریبی اور گھریلو مراسم رکھتے تھے ۔
عمران خان کے نیازی ہونے کو پہلے پہل آصف علی زرداری نے تنقید کا نشانہ بنایا اُس کے بعد ہر وہ سیاستدان جو عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے جھنجلاہٹ کا شکار ہے وہ عمران خان پر نیازی ہونے کی پھبتی کستا رہتا ہے ۔ پانامہ کیس کے آخری ایام میں پختونوں کے غمخوار ہونے کے دعویدار اسفند یار ولی خان نے بھی کہا تھا کہ ’’ میاں نواز شریف نیازی نہیں جو استعفیٰ دے ‘‘ ۔ سرحدی گاندھی کے اس جانشین کو کون بتائے کہ میانوالی کے اس نیازی خاندان نے تحریک پاکستان ، تحریک ختم نبوت ، ایوب خان کی آمریت ، تحریک نظام مصطفی ، اور ججز بحالی کی تحریک سمیت تمام قومی معرکوں میں اپنا کردار ادا کیا۔ اگر پختونوں کے حقوق کے لیئے جدوجہد کے حوالے سے اسفند یار ولی خان کے خاندان کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے سوویت یونین کی جانب سے افغانستان پر فوجی یلغار کے دنوں میں جب افغانستان کے پٹھان اپنی بقاء اور آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو سرحدی گاندھی کا یہ خاندان کابل پر قابض روس کی کٹھ پتلی حکومتوں کی گود میں بیٹھا ہوا تھا ۔ پختون قوم کے لیئے ولی خان اور محمود خان اچکزئی وغیرہ کا کردار دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ
پتھر کرتاب کنول بھی لیتی جا
عمر کا ہر خوش قسمت پل بھی لیتی جا
چُن لے اپنے خواب بھی میری پلکوں سے
ایک ادھورا تاج محل بھی لیتی جا

پٹھانوں کے نیازی قبیلہ بلو خیل کی ذیلی شاخ شیر مان خیل کی نفسیات جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ معرکہ آرائی کرنے والے لوگ ہیں ، گھبرانے ، پیچھے ہٹنے اور ساز باز کرنے سے ہمیشہ انکاری رہے ہیں۔ یہی سب کچھ عمران خان سیاست نے ثابت کیا ہے۔
ہماری آج کی سیاست کا یہ نیازی روایتی سیاست کا سب سے بڑا باغی ثابت ہوا ، کرکٹ کے میدان کے کھلاڑی نے شریف اور بھٹو خاندان سمیت روایتی سیاست کے سبھی کرداروں کو للکارا اور بچھاڑا ہے یہی وجہ ہے کہ اسفند یار ولی ہوں یا مولانا فضل الرحمن عمران خان کی سیاست سے خائف ہیں ۔ یہی خوف مخالفین کو کبھی جمہوریت اور کبھی مذہب کے پیچھے چھُپنے پر مجبور کرتا ہے اور کبھی نیازی کہتے ہوئے اُسے جنرل نیازی سے مماثلت دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
عمران خان کی زندگی جدوجہد کا استعارہ اور کامرانیوں کا دبستان ہے ۔ وہ اللہ کی ذات پر کامل یقین کو اپنا سب سے بڑا وسیلہ سمجھتا ہے اُس نے اپنی زندگی میں کامیابیوںکی بڑی بڑی منازل طے کیں اور سنگ میل عبور کیئے لیکن اٹھائیس جولائی کو ملنے والی کامیابی کو وہ اللہ پاک کی جانب سے خصوصی انعام اور حیرت انگیز کامیابی سمجھتا ہے ۔ اس کامیابی پر وہ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئے ہر قسم کے خوف سے مکمل طور پر آزاد ہے ۔ وہ ان لمحوں میں زندہ اور بیدار آنکھوں سے اپنی جدوجہدکو کامیابی سے ہمکنار ہونے کا سرمدی خواب دیکھتا ہے ۔ سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیت سے تقریر کا آغاز اُس کے لہجے کو بشارت خیز بنا دیتا ہے ۔ اُس نے نئی نسل کے من میں تتلیوں کے تعاقب کی بجائے نظام بدلنے اور اپنے حق کے ادراک کا شعور اجا گر کیاہے۔ اس کا منشور ہے کہ اب ماوؤں کے راجے ، عزت بیگ اور پنل خان اپنی ماوؤں کو اڈیکوں کی بجائے امیدسے ثمر بار کریں ۔آخر میں نیازی کی پھبتی کے پس منظر میں لکھے گئے اشعار قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں کہ
کبھی مجھ کو نیازی تو کبھی عمران کہتے ہیں
مجھے جھکنا نہیں آتا یہی سب خان کہتے ہیں
میں لودھی اور سوری ہوں مروت اور وزیری ہوں
دعا ہوں کملی والے کی مجھے پٹھان کہتے ہیں
میں لوگوں کی زباں بن کر دلوں پرراج کرتا ہوں ؎مجھے غیرت کے پُتلے لوگ پاکستان کہتے ہیں
مجھے پیغام دینا ہے وقت کے ان یزیدوں کو
جو دل میں کھوٹ رکھتے ہوں انہیں مروان کہتے ہیں
کبھی میں دشمنوں پہ ایک ہیبت بن کے گرتا ہوں
کبھی مجھ کو فضاؤں کو سبھی سلطان کہتے ہیں
میں دنیا کے قوی لوگوں سے کیا کچھ چھین لایا ہوں
میں چیتا ہوں میں جیتاہوں مجھے کپتان کہتے ہیں
مجھے ان زر پرستوں سے وطن کو پاک کرنا ہے
جنہیں اس دیس کے باسی بڑے شیطان کہتے ہیں
تلاطم خیز لہریں جس سے ٹکرانے سے ڈرتی ہیں
سنوں او دشمنوں مجھ کو وہی چٹان کہتے ہیں
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر