... loading ...
وزیراعظم نوازشریف نے اپنے من کے مندر میں خود اپنا ہی بُت سجا رکھا ہے،جسے وہ ہر وقت پوجتے رہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ خواہش مند ہیں کہ دوسرے بھی یہی کریں۔ کچھ کاسہ لیس بھی ہیں جو اس کے لیے تیار رہتے ہیں تاوقتیکہ کوئی دوسرا اُن کی جگہ نہ لے لیں۔ وزیراعظم نوازشریف ایک بدلے ہوئے عہد میں پرانی ترکیبوں ، چاپلوس بوڑھوں اور موٹے پیٹوں کے لشکروں کے ساتھ بت کدۂ اوہام کی ویرانیوں سے لڑ رہے ہیں۔ اپنی ہی عقیدت میں گرفتاروسوسہ زدہ حریفوں سے لڑنے والے آدمی کاکیا حال ہوجاتا ہے، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ نوازشریف کہاں اور فرانسس بیکن کہاں؟ مگر دلچسپ اور قدرے مضحکہ خیز ایک مناسبت موجود ہے۔
وِل ڈیورانٹ نے اپنی ایک کتاب میں تاریخ کے ہیروز کا ایک اجمالی خاکہ کھینچا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں فرانسس بیکن ( ) کوعہدِ استدلال کے قائد کا رتبہ دیتا ہے۔مگر بیکن کی زندگی متضاد نوعیت کی نہاد رکھتی ہے۔بطور اٹارنی جنرل اُس نے بادشاہ کی مرضی کے فیصلے حاصل کرانے کے لیے عدلیہ پر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کیا۔اُس نے ظالم اجارہ داریوں کوتحفظ دیا۔ اور اس ’’عہدِ استدلال کے قائد‘‘ نے بطور جج اپنی عدالت میں مقدمے کے فریقین سے بھاری تحائف بھی قبول کیے۔بآلاخر پارلیمنٹ نے اُس کے خلاف بدعنوانی کے23 مقدمات بنائے۔بیکن نے آخرِ کار ہاؤس آف لارڈز کو اپنا اعتراف نامہ بھیجا۔بیکن کو سزا سنا دی گئی۔ بیکن کے مرنے کے بعد اُ س کے پہلے سوانح نگار’’ رالے‘‘(Rawley )کو اس مسئلے پر بیکن کی ایک تحریر ملی جس میں اُس نے لکھا تھا کہ
’’میں ان پچاس برسوں کے دوران میں انگلینڈ کا سب سے عادل ترین جج تھا۔لیکن پارلیمنٹ نے اپنے
دو سو برسوں میں سب سے منصفانہ کارروائی کی۔‘‘
وزیراعظم نوازشریف کا ماجرا مختلف نہیں جو نظام پر اپنے اعتماد اور اس کے اپنے ساتھ سلوک کے حوالے سے کچھ اسی نوع کی کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں مگر یہ کشمکش اپنی منطقی کسمپرسی کے باوجود بہرحال موجود رہتی ہے۔ اِسے بیکن کے طرزِ استدلال کی بھی سند ملتی ہے۔
وزیر اعظم نوازشریف اپنی زندگی کے سب سے کٹھن دور سے گزر رہے ہیں، مگر وہ اور اُن کا خاندان اِسے روایتی سیاست کی کہہ مکرنیوں سے ٹالنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت آج کی جمہوریت دراصل دستوری جمہوریت ہے۔ جس میں انتداب (مینڈیٹ) عوامی ہوتا ہے مگر اقتدار قانونی ہوتا ہے۔ کسی بھی جمہوری اقتدار میں اقتدار کی ان دوبنیادوں میں سے کوئی ایک بھی ہِل جائے تو حکمران دوسری بنیاد کو اپنے جوازِ اقتدار کے طور پر پیش نہیں کرسکتے۔ مثلاً دستوری جمہوریت میں حکمران قانونی طور پر اقتدار کے سائبان سے محروم ہو جائے تو وہ اپنی عوامی تائید کو جواز کے طور پر پیش نہیں کرتے۔ دنیا میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتوں میں برطانیا نے قبل ازوقت انتخابات کا چہرہ دیکھا تو دراصل اس کی وجہ برطانوی وزیراعظم کا استعفیٰ تھا۔ برطانوی وزیراعظم نے تو یہ استعفیٰ یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے حق میں ریفرنڈم کے نتیجے پر دے دیاتھا۔یہ معاملہ قانونی بھی نہیں بلکہ اخلاقی نوعیت کا تھا۔ جمہوریت کی عمارت کو قانون کی چھت اور اخلاقی جواز کی بنیاد نہ ملے تو مینڈیٹ کی تکرار بے معنی بلکہ بے ایمانی کہلانے لگتی ہے۔نواز شریف کا معاملہ کم وبیش اسی نوع کا ہوتا جارہا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی جماعت کے بعض رہنما ایک طرف یہ تکرار کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی اپنے متعین اختیارات اور پاناما کے حوالے سے عدالت کی جانب سے طے کردہ حدود سے تجاوز کرگئی ہے۔مگر دوسری طرف وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی ہمارے تیس سالہ دورِ اقتدار میں کرپشن ، رشوت یا بدعنوانی کا کوئی ایک ثبوت تو کجا حوالہ تو دے۔ یا للعجب! کیا جے آئی ٹی نوازشریف کے تیس سالہ دورِ اقتدار کی بدعنوانیوں کا جائزہ و احاطہ کرنے بیٹھے تھی یا پھر پاناما لیکس کے تناظر میں لندن کے فلیٹس کی خریداری کو کھوجنے بیٹھی تھی۔ محض ایک معاملے کی چھان بین میں جے آئی ٹی نے جو کچھ تلاش کیا ہے، اگروزیراعظم نوازشریف کے دعوے کے مطابق اُن کے تیس سالہ اقتدار کو کھنگال لیا جائے تونہ جانے کیا کیا کچھ برآمد ہوں۔ مگر سیاست ہوتی ہے کچھ ایسی ہے۔یہ دھوکے کی دلدل ہے۔ اور سیاست دان اسی دلدل میں عوام کو دھنسا کر اپنے قدم بڑھاتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما مختلف اعتراضات وارد کرکے ایک طوفان اُٹھانا چاہتے ہیں جس میں کوئی بھی منظر واضح نہ رہے۔ خلطِ مبحث میں کوئی سرا ہاتھ نہ آسکے۔یہ روش مسلم لیگ نون کے سلیم الطبع اور باضمیر حامیوں کوبھی برگشتہ وبیزار کررہی ہے۔ کیا یہ بھی کوئی سوال ہے کہ نوازشریف کے خلا ف ایسی ایسی فائلیں محفوظات (ریکارڈ) کا حصہ بنا دی گئیں جو بیس بیس سال پرانی تھیں۔ آخر تفتیش ہوتی کیا ہے؟ او رکیا یہ اعتراض صرف نوازشریف کے باب میں ہی وقعت رکھتا ہے یا پھر ایسا ہی اعتراض آصف علی زرداری اور بانی متحدہ کے خلاف تفتیش میں وارد کردیا جائے تو قابلِ قبول ہوگا۔ کسی بھی سیاست دان کے خلاف یا بدعنوان کے خلاف تفتیش ہو تو اُس کی زندگی کے تمام رازوں تک رسائی اور تمام بدعنوانیوں کی چھان پھٹک ہوتی ہے۔ عشروں اور دہائیوں کی مِسلیں کھولی اور کھنگالی جاتی ہیں۔اس میں کچھ نیا نہیں۔ خود نوازشریف اپنی مختلف حکومتوں میں اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف اسی طرح بروئے کار آتے رہے۔
مسلم لیگ نون کے رہنما جے آئی ٹی کے نتائج پر یہ نکتہ اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ محض ایک رپورٹ ہے عدالت کا فیصلہ نہیں۔ مگر مسلم لیگ نون کے رہنما جے آئی ٹی پر سوالات اس طرح اُٹھا رہے ہیں اور ایسے اعتراضات وارد کررہے ہیں جیسے اُسے عدالت عظمیٰ کی طرح بروئے کار آنا چاہئے تھا۔ سوال یہ ہے کہ تفتیش اور انصاف کے درمیان جو فرق ہوتا ہے وہی اُس کے طریقے میں بھی ہوتا ہے۔ اندازِ تفتیش اور اندازِ انصاف مختلف ہوتا ہے۔عدالتیں ملزمان کویہ موقع دیتی ہے کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کرے مگر تفتیش کے تیور مختلف ہوتے ہیں۔ یہ اعتراض کہاں سے واجب ہے کہ جو کاغذات عدالت میں شواہد کے طور پر جمع کرائے گئے اُس پر اُن سے رائے نہیں لی گئی۔ بھئی آپ کی جس پر رائے لی گئی وہ موجود ہے اور اس کے برخلاف جو کاغذات موجود تھے وہ محفوظات کا حصہ بنا دیے گئے ۔ تفتیش اسی نوع کے تضادات کو عریاں کرتی ہے۔ عدالتیں ان تضادات کا جائزہ اس طرح لیتی ہے کہ کسی فریق کا حقِ صفائی مجروح نہ ہو۔ مگر مسلم لیگ نون کے رہنما جے آئی ٹی کے نتائج کو عدالتی فیصلہ نہ ماننے پر اِصرار کرتے ہوئے اُس پر اعتراضات ایسے وارد کررہے ہیں جیسے یہ انصاف کا کوئی مرکز ہو۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے بینچ نے واضح کردیا کہ شریف خاندان نے جے آئی ٹی کے سامنے بہت عمومی رویہ رکھا ۔ اب تک سامنے آنے والے حقائق سے اندازا ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی کے سوالات پرشریف خاندان کے افراد اس طرح بروئے کار آئے کہ جوجاننا ہے خون جان لیں ، ہم کچھ نہیں بتائیں گے۔
وزیراعظم نوازشریف اس کے باوجود یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے کہاں رشوت لی اور کہاں پر بدعنوانی کی۔ یہ سادگی نہیں۔ انسان متضاد طبیعت کے ساتھ برعکس رویوں میں بھی خود کو پالتا ہے۔یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو بدعنوانی کو جائز سمجھ کر اُس کے دلائل بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں نوازشریف یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے کہاں بدعنوانیاں کیں تو کچھ غلط نہیں پوچھ رہے۔ آخر فرانسس بیکن بھی ایسے ہی سمجھتے تھے کہ اُن کے خلاف کارروائی بھی منصفانہ تھی اور وہ خود بھی عادل ترین فرد تھے۔