... loading ...
پاکستان میں ’’عدالتی مارشل لاء‘‘ نہ سہی، عدلیہ کی ’’رٹ‘‘ ضرور قائم ہوچکی ہے۔ پوری قوم اور دنیا کی نظریں سپریم کورٹ پاکستان کی سمت مرکوز ہیں جس نے آج وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی قسمت کا فیصلہ صادر کرنا ہے۔ تقریباً ڈھائی ماہ قبل عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم کے خلاف پاناما کیس میں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی جس میں شامل اراکین نے 60 دن کی کارروائی اور ملزمان کے بیانات پر مشتمل رپورٹ تیار کرکے گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ میں پیش کردی تھی۔ اس رپورٹ کے مندرجات پہلے ہی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس رپورٹ کا نچوڑ یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کا خاندان لندن میں فلیٹس کے حوالے سے ’’منی ٹریل‘‘ ثابت نہیں کرسکا ہے۔ ان کے بیانات میں تضاد ہے ، کئی دستاویزات جعلی نکلی ہیں، الیکشن کے وقت اثاثہ جات کو پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ ان کے امین اور صادق نہ ہونے کے ثبوت سامنے آچکے ہیں جن کی بنیاد پر عدلیہ کوفیصلہ سنانا ہے۔
2000 ء کی دہائی میں جب بنگلہ دیش کا سیاسی نظام بہت بُری طرح سے تباہ اور کرپٹ ہوگیا تھا تو وہاں دو سال کے لئے ’’عدالتی حکمرانی‘‘ قائم کی گئی تھی اور فوج نے سیاستدانوں کو پیچھے دھکیل کر عدلیہ کو حکمرانی سونپ دی تھی۔ اس حکومت نے بہترین اصلاحات کیں، کرپشن کا خاتمہ ہوا اور آج بنگلہ دیش کی معاشی حالت پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ سپریم کورٹ پاکستان نے 10 جولائی کو صرف ایک ہی دن میں چھ اہم احکامات جاری کیے۔ مسلم لیگ (ن) کے متنازع سینیٹر نہال ہاشمی پر ’’بدکلامی کیس‘‘ میں فرد جرم عائد کی گئی، غلط خبر کی اشاعت پر جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان، ان کے بھائی میر جاوید رحمن اور رپورٹر کو شوکاز نوٹس جاری کیے۔ ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کی گرفتاری کا حکم جاری کیا جن پر نواز شریف خاندان کے ریکارڈ میں ردوبدل کا الزام ہے۔ جے آئی ٹی کے خلاف لیگی وزراء کے ہتک آمیز بیانات کا متن طلب کرلیا۔ جے آئی ٹی کے اراکین کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم جاری کیا۔ کس ادارے کو کتنے اشتہارات دیے ، اس کی تفصیلات طلب کرلیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آصف علی زرداری کے بچوں کے ناموں کے ساتھ بھٹو لکھنے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی۔ یہ سب عدلیہ کی ایک روزہ کارروائی کی روداد ہے۔ ادھر سندھ ہائی کورٹ نے کراچی بدامنی کیس سے لے کر سندھ اسمبلی سے صوبہ میں نیب کے خاتمہ کا بل روکنے تک درجنوں اہم فیصلے کرکے سندھ حکومت اور بلاول ہائوس کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔ صوبائی حکومت تمام تر خواہش اور کوششوں کے باوجود آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو ان کے عہدے سے عدالتی پشت پناہی کے باعث نہیں ہٹا سکی ہے۔ سابق آئی جی غلام حیدر جمالی کی برطرفی میں بھی عدلیہ کا ہاتھ تھا جن پر کئی الزامات ہیں۔ کراچی میں سندھ اسمبلی کے حلقہ 114 میں ضمنی انتخاب کے نتائج کو دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے عدالت میں چیلنج کردیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے نتیجہ روک لیا ہے۔ ایم کیو ایم کے امیدوار کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم لندن نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے باوجود انہیں 18 ہزار ووٹ ملے ہیں۔ یہ ایم کیو ایم پاکستان کی جیت ہے جس کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان کررہے ہیں۔ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے بھی کامران ٹیسوری کی اعلانیہ حمایت کی تھی۔ آفاق احمد 2018 ء کے عام انتخابات میں مہاجر علاقوں سے ایک امیدوار نامزد کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
دوسری طرف میاں نواز شریف کے پاس اب تین آپشن ہیں۔پہلا آپشن‘یہ قانونی اور سیاسی جنگ لڑیں‘ کرسی پر جمے رہیں‘ جے آئی ٹی کی ر پورٹ کونامکمل اور جانبدار قرار دیں‘ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کریں‘ ملک کا ہر بڑا وکیل پینل میں شامل کریں اور معاملے کو ایک دو ماہ تک گھسیٹ لیں‘ میاں نواز شریف کی پٹیشن ایک دو ہفتے یا حد ایک مہینے میں مسترد ہو جائے اور سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو سچ مان کر کیس نیب میںبھجوا دے‘ نیب ریفرنس تیار کرے اور احتساب عدالت میں کیس شروع ہو جائے‘ میاں صاحب وہاں بھی وکیلوں کا پورا بریگیڈ کھڑا کر دیں‘ یہ نیب سے کریمنل پروسیجر کوڈ (سی پی سی) کی دفعہ 205 اور 540 اے کے تحت استثنیٰ حاصل کریں اور حکومت کرتے رہیں‘ ہماری تازہ ترین تاریخ میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اس استثنیٰ کی مثالیں موجود ہیں‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف دونوں کے خلاف نیب کے ریفرنس تھے‘ یہ دونوں وزیراعظم بھی رہے اور نیب کے مقدمے بھی بھگتتے رہے‘ یوسف رضا گیلانی کی تفتیش تک وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی تھی‘ ملک ریاض چیئرمین نیب فصیح بخاری ‘ پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا اور نیب کی ٹیم کو وزیراعظم ہاؤس لے کر گئے تھے اور یوسف رضا گیلانی نے ناشتے کی میز پر اُبلے ہوئے انڈوں سے سفیدی نکالتے ہوئے نیب کے سوالوں کے جواب دیے تھے‘ راجہ پرویز اشرف نے بھی حکومت فرماتے ہوئے نیب کی کارروائیاں بھگتی تھیں‘ یہ ایک طرف وزیراعظم بھی تھے اور دوسری طرف ان کا نام ای سی ایل پر بھی تھا‘ میاں نواز شریف بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ یہ وزیراعظم بھی رہیں‘ نیب کے کیس بھی چلتے رہیں‘ خاندان احتساب عدالتوں میں پیش ہوتا رہے اور یہ جیسے تیسے حکومت کو سینٹ کے الیکشنوں تک کھینچ کر لے جائیں‘ سینٹ کے الیکشن بھی ہو جائیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن سینیٹ میں اکثریت بھی حاصل کر لے اور یہ چیئرمین شپ پر پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے ساتھ بارگیننگ بھی کریں اور حکومت بجلی کے منصوبے بھی مکمل کرلے‘ گیس بھی پوری کر لے‘ پاک چین اقتصادی راہداری بھی ایکٹو ہو جائے اور پانچ سال بھی پورے ہو جائیں‘ یہ آپشن میاں نواز شریف کو سوٹ کرتا ہے لیکن یہ انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے‘ میاں نواز شریف کی ’’ڈس کوالی فکیشن‘‘ میں اب زیادہ گنجائش نہیں بچی‘ یہ جولائی کا مہینہ بمشکل نکالیں گے۔
یہ حقیقتاً پاناما کے ایشو پر بری طرح پھنس چکے ہیں اور انہیں پھنسانے میں غیروں سے زیادہ اپنوں نے کردار ادا کیا‘ میاں نواز شریف جس دن واقعات کی ٹیپ ’’ری وائینڈ‘‘ کریں گے‘ یہ اس دن اپنے اصل دشمنوں تک پہنچ جائیں گے‘ یہ یاد کریں شریف فیملی کو کس نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے میاں نواز شریف سے ’’یہ ہیں وہ ذرائع اور میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کروں گا‘‘ جیسی تقریریں کروائی تھیں‘وہ کون لوگ تھے جنہوں نے انہیں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ سے استثنیٰ لینے سے روکا تھا‘ وہ کون لوگ تھے جو انہیں ’’کلین چٹ‘‘ کی یقین دہانی کراتے رہے تھے‘ وہ کون تھے جنہوں نے انہیں جے آئی ٹی کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ وہ کون تھے جنہوں نے انہیں دو ایجنسیوں کے نمائندوں کو جے آئی ٹی میں برداشت کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ وہ کون لوگ تھے جو وزیراعظم ہاؤس کی ’’فیملی سائیڈ‘‘ میں وزیراعظم سے ملاقات کرتے تھے اور انہیں یہ یقین دلاتے تھے ’’معاملہ ہمارے کنٹرول میں ہے‘ آپ فکر نہ کریں‘‘ اور وہ کون لوگ تھے جو انہیں آخری وقت تک نہال ہاشمی جیسی حماقت سے روکتے رہے‘۔میاں نواز شریف جس دن یہ ٹیپ ’’ری وائینڈ‘‘ کریں گے یہ اس دن دوستوں کے بھیس میں چھپے دشمنوں تک پہنچ جائیں گے‘یہ اس دن جان لیں گے یہ سب ان کے نئے رشتے داروں کا کیا دھرا ہے‘ یہ نئے رشتے دار اربوں روپے بھی سمیٹ گئے اور شریف فیملی کو پھنسا بھی گئے‘ میاں نواز شریف جس دن اس حقیقت تک پہنچ جائیں گے یہ اس دن اس پہلے آپشن کی سنگینی سے بھی واقف ہو جائیں گے‘ یہ اس دن جان لیں گے سینیٹ کے الیکشن اور جولائی کے درمیان آٹھ ماہ ہیں‘ یہ آٹھ مہینے ان کے لیے آسان نہیں ہوں گے‘ان آٹھ مہینوں کے درمیان ان کی عزت کی گٹھڑی روز کھلے گی‘ یہ نواز شریف سے پاناما شریف بھی بنا دیے جائیں گے‘ یہ اثاثوں سے بھی محروم ہوجائیں گے‘ ان کے بچوں کے خلاف فیصلے بھی ہوں گے‘ خاندان کی داڑیں بھی کھل کر سامنے آ جائیں گی‘ طلال چودھری‘ آصف کرمانی اور خواجہ سعد رفیق بھی ڈس کوالی فائی ہوں گے‘ رانا ثناء اللہ‘ عابد شیر علی اور دانیال عزیز بھی توہین عدالت میں طلب کیے جائیں گے اور میاں نواز شریف کا ہر وہ ساتھی جو شریف فیملی کی حمایت میں سامنے آئے گا وہ پرویز رشید‘ مشاہد اللہ اور طارق فاطمی بنا دیا جائے گا‘وعدہ معاف گواہ بھی سامنے آئیں گے‘ وکٹیں بھی اڑیں گے‘ عمران خان بھی سڑکوں پر آئیں گے اور آخر میں میاں نواز شریف ڈس کوالی فائی بھی ہو جائیں گے‘ میاں نواز شریف کو اب صرف ان کی قسمت ہی بچا سکتی ہے‘ یہ قسمت کے دھنی ہیں لیکن کیا قسمت اس بار بھی ان کا ساتھ دے گی‘ یہ پاناما سے بڑا سوالیہ نشان ہے چنانچہ قسمت نے یاوری نہ کی‘ کوئی معجزہ نہ ہوا تو میاں نواز شریف 2018ء کا الیکشن نہیں لڑ سکیں گے‘ یہ پورا زور لگا کر‘ یہ روز بدنامی کے کانٹے چن کرشاید پانچ سال پورے کر جائیں لیکن یہ طے ہے اگر کوئی معجزہ نہ ہوا‘ اگر پاک بھارت جنگ نہ چھڑی‘ اگر چین‘ امریکا نواز شریف کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھے‘ اگر گلف میں لڑائی شروع نہ ہوئی اور اگر ملک کے دو تین اہم لوگوں کو ہارٹ اٹیک نہ ہوا تو میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے‘۔
ان کے کیریئر کا 2017ء میں ’’دی اینڈ‘‘ ہو جائے گا‘ یہ خواہ وزیراعظم ہاؤس کی نحوست سے بچنے کے لیے پنجاب ہاؤس ہی کیوں نہ شفٹ ہو جائیں یہ ’’ڈس کوالی فکیشن‘‘ سے نہیں بچ سکیں گے‘ یہ معاملے کو جتنا چاہیں کھینچ لیں مگر آخری فیصلہ بہرحال ان کے خلاف ہو گا۔ہم اب دوسرے آپشن کی طرف آتے ہیں‘ میاں نواز شریف جمہوریت‘ سسٹم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں‘ اپنے زیرتکمیل منصوبے کانفرنس کے شرکاء کے سامنے رکھیں‘ سیاسی جماعتوں سے مہلت لیں‘ یہ منصوبے مکمل کریں‘ چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہ بننے کا اعلان کریں‘ اسمبلیاں توڑیں اور نئے الیکشنوں کا اعلان کر دیں‘دسمبر میں الیکشن ہو جائیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن اکثریت حاصل کر لے تو یہ شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال اور خواجہ آصف جیسے کسی پڑھے لکھے اور تجربہ کار سیاستدان کو وزیراعظم منتخب کرا لیں اور یہ خود رائے ونڈ میں بیٹھ کر پارٹی چلائیں‘ یہ بھی بچ جائیں گے‘ فیملی بھی بچ جائے گی‘ پارٹی بھی بچ جائے گی‘ جمہوریت بھی بچ جائے گی اور ملک بھی بچ جائے گا‘ یہ آپشن پہلے آپشن سے ہزار گنا بہتر ہے‘ آپ تین بار ملک کے وزیراعظم بن گئے‘ آپ نے زندگی کا آدھا حصہ ’’لائم لائیٹ‘‘ میں گزار لیا‘ آپ اب آبرومندانہ طریقے سے سائیڈ پر ہو جائیں‘ آپ نئے لوگوں کو راستا دیں‘ آپ سسٹم کو چلنے دیں‘ آپ راستے میں رکاوٹ نہ بنیں‘ کیا عزت خراب کر کے جانا ضروری ہے‘ کیا ملکی تاریخ میں کوئی ایسا وزیراعظم نہیں آئے گا جو عدالتی یا فوجی حکم کے بغیر عزت کے ساتھ گھر چلا جائے یا جو جمہوریت‘ رول آف لاء‘ سسٹم اور ملک کے لیے اپنی انا کی قربانی دے دے؟ کیا ملک ہر بار ’’ٹرمائل‘‘ کا شکار ہو گا اور کیا ہر بار لڑائی ضروری ہے؟
میاں نواز شریف ان سوالوں کا جواب تلاش کریں گے تو یہ مناسب حل پر آ جائیں گے‘ ملک میں واقعی سازشیں ہو رہی ہیں لیکن سازشوں کا ہدف جمہوریت یا میاں نواز شریف نہیں ہیں‘ یہ سازشیں فوج اور ملک کے خلاف ہیں‘ سازش کے تحت پہلے نیٹو کو افغانستان بٹھایا گیا‘ پھر سی آئی اے کو جنرل مشرف کے ذریعے پاکستان میں داخل کیا گیا‘ پھر جنرل مشرف سے نواب اکبر بگٹی اور لال مسجد آپریشن جیسی غلطیاں کرائی گئیں‘ پھر بلوچستان لبریشن آرمی کو ٹریننگ اور فنڈ دیئے گئے‘پھر تحریک طالبان پاکستان بنوائی گئی‘ پھر ان دونوں کو افغانستان میں پناہ‘ رقم اور ٹریننگ کیمپ دیے گئے‘ پھر پاک آرمی کو ضرب عضب اور ردالفساد کی شکل میں پورے ملک میں پھیلا دیا گیا اور اب ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور جمہوری حکومت کو فوج کے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے‘ یہ لڑائی کہاں تک جائے گی اور لڑائی کا نتیجہ کیا نکلے گا؟یہ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے‘ فوج ملک کا واحد ڈیفنس ہے‘ یہ ڈیفنس ختم ہو گیا تو ملک نہیں بچ سکے گا‘
ہم یوگو سلاویہ کی طرح چھ ملکوں میں تقسیم ہو جائیں گے یا پھرکرد بن کر سو سال تک چار ملکوں کے جوتے کھائیں گے‘ ہم کہاں جائیں گے چنانچہ عقل مندی کا تقاضا ہے آپ باعزت طریقے سے راستے سے ہٹ جائیں‘ نئے مینڈیٹ کی تازہ ہوا آنے دیں اور ملک کو چلنے دیں‘ آپ ڈٹے رہے‘ آپ لڑتے رہے تو آپ کے ساتھ ساتھ یہ پورا سسٹم بھی جائے گا اور اگر سسٹم چلا گیا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا‘ کیا میاں نواز شریف یہ چاہتے ہیں! یہ اگر یہ نہیں چاہتے تو یہ ’’سٹیپ ڈاؤن‘‘ ہوں‘نئے الیکشن کرائیں اور وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے الگ ہو جائیں‘ ملک اور جمہوریت دونوں مضبوط ہو جائیں گے اور تیسرااور آخری آپشن۔میاں نواز شریف اپنی جگہ کوئی نیا وزیراعظم لے آئیں‘ وزیراعظم پانچ سال پورے کرے اور یہ شہر شہر ‘گاؤں گاؤں جا کراپنا کیس لڑیں‘ میرا خیال ہے میاں نواز شریف تیسرے آپشن کی طرف جائیں گے‘ حکومت پانچ سال پورے کرے گی لیکن میاں نواز شریف وزیراعظم نہیں رہیں گے۔ پاکستان کی عدلیہ فیصلوں میں پوری طرح آزاد ہے‘ اسے پاک فوج اور عوام کی پوری حمایت بھی حاصل ہے‘ آج پیر17جولائی اور فیصلے کا دن بھی ہے۔ تخت لاہور برقراررہتا ہے یا دھڑن تختہ ہوگا۔