... loading ...
سطح سمندر سے ساڑھے گیارہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ایک کلومیٹر طویل اور آدھا کلومیٹر چوڑی سید گئی جھیل کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ یہ حسین اور پرکشش جھیل ہمیشہ سے دنیا بھر کے مہم جو سیاحوں کامرکز نگاہ رہی ہے اورجولائی کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی مہم جوئی کے شوقین افراد ملک بھر سے دیر اور سوات کی سرحد پر واقع خوبصورت سیدگئی جھیل کا رخ کرتے ہیں۔ اس جھیل کے اردگرد گلیشیئرز ساراسال موجود رہتے ہیں۔یہاں تک پہنچنے کا راستہ طویل اور مشکل ہوسکتا ہے مگر علاقے کی خوبصورتی اس سفر پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس جھیل تک تین راستوں کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے، یعنی بالائی سوات کے علاقوں ساتنڑر روڑینگار اور لالکو سخرہ جبکہ دیر کی وادی ہوشیرائی تاہم بیشتر افراد تحصیل مٹہ کی وادی روڑینگار کی ساتنڑ ٹریل کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اسے سب سے مختصر راستا تصور کیا جاتا ہے۔اس ٹریل کا سفر بھی سیاحوں کو مسحور کردیتا ہے کیونکہ یہاں گنجان جنگلات اور سرسبز علاقے موجود ہیں جہاں رنگا رنگ پھول اور ہجرت کرکے آنے والے پرندے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دنوںاپنے دوستوں کے ساتھ یہاںآنے والے ایک سیاح امجد علی نے بتایا کہ طویل عرصے سے سیدگئی جھیل پر جانا میرا خواب تھا، کیونکہ اس کی اپنی کشش اور جادو ہے، میں نے کئی مرتبہ اس خوبصورت جھیل تک جانے کا ارادہ کیا مگر جانا ممکن نہیں ہوسکا۔ اس بار میں کامیاب ہوا، یہاں کی خوبصورتی اور فطری نظاروں نے میرے دل اور روح کو بھردیا ہے’۔اس جھیل کی جانب جانے والے افراد کہتے ہیں کہ وہ تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ ٹریل کافی نیچے اترتی ہوئی اور دشوار گزار ہے، مگر ارگرد کے نظارے لطف دیتے ہیں۔
قدرتی نظاروں کو پسند کرنے والے حمزہ خان کے مطابق ‘ہم نے ساتنڑ سے اس پہاڑی راستے پر چڑھنا شروع کیا اور جھیل کی جانب جاتے ہوئے ایک رات بھی بسر کریں گے، اگرچہ یہ چڑھائی تھکادینے والی ہے، مگر یہاں کی مسحورکن خوبصورتی تھکے ہوئے جسموں میں نئی جان ڈال دیتی ہے۔
سیدگئی جھیل تک پہنچنے سے قبل سیاحوں کا استقبال ایک چھوٹی سی جھیل کرتی ہے، مینگورہ سے یہاں آنے والے ایک شخص فیصل سعید نے بتایا ‘میں راستے میں اس چھوٹی جھیل کو دیکھ کر حیران رہ گیا، یہ بالکل شفاف اور خوبصورت ہے۔
جھیل کی جانب جاتے ہوئے ٹریکرز اکثر خود کو سفید بادلوں سے گھرا ہوا پاتے ہیں، جیسے سوات کی جھیلوں کو دیکھنے کے لیے اکثر آنے والے اکرام خان بتاتے ہیں ‘ہم نے ایک مختصر وقفہ لیا تاکہ بادل چھٹ جائیں اور راستہ صاف ہوجائے۔جب لوگ آخری پہاڑی سلسلے پر چڑھتے ہیں تو جادوئی جھیل کی پہلی جھلک ان پر سحر طاری کردیتی ہے۔سیدو شریف سے جھیل دیکھنے کے لیے آنے والے ظفر علی کاکا اپنا تجربہ بتاتے ہیں ‘جھیل کی پہلی جھلک، یعنی پہاڑیوں کے درمیان شفاف پانی، انتہائی پرسکون کردینے والا ہوتا ہے جس نے مجھے گنگ
کردیا۔انہوں نے مزید کہا کہ سوات کی اصل خوبصورتی پہاڑوں میں چھپی ہے جو اب تک دریافت نہیں ہوسکی۔
سوات کے ایک اور رہائشی محمد کرم کئی بار اس جھیل کو دیکھنے آچکے ہیں، ان کا کہنا تھا، ‘جب میں اپنے دوستوں کو یہاں لے کر آتا ہوں، تو اس جھیل کی خوبصورتی کو دیکھ کر ان پر طاری ہونے والی حیرانگی سے لطف اندوز ہوتا ہوں، مگر جو لوگ پہاڑ سر نہیں کرپاتے اور جھیل تک نہیں پہنچتے وہ مجھے مایوس کردیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایک اچھا ٹریک تعمیر کرنا چاہیے جہاں رہائشی جگہیں بھی ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس علاقے میں آکر وادی کے قدرتی عجوبے کو دیکھ سکیں۔
اس جھیل کے ساتھ تاریخی وادی ساتنڑ ہے جسے بدھ مت والوں کے لیے ایک اہم مقام کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔یہاں کے ایک معمر رہائشی پائندہ محمد کے مطابق ‘کبھی یہاں متعدد تاریخی کھنڈرات موجود تھے، جہاں سنسکرت کی تحریریں بھی موجود تھیں، بزرگوں کے مطابق بدھ مت کے ماننے والے اور ہندو یہاں عبادت کے لیے اکھٹا ہوتے تھے۔وادی ساتنڑ کے رہائشی متعدد دیومالائی داستانیں بیان کرتے ہیں جو اس جھیل سے جڑی ہیں جیسے پائندہ محمد بتاتے ہیں ‘بدھ مت کے عہد میں ایک طلائی برتن اس جھیل کی سطح پر نمودار ہوا، جو آسمان سے آنے والی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔
ثقافتی ماہرین کے مطابق لفظ سیدگئی سنسکرت کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے، سید کا لفظ سیدھا یا سادھو سے آیا جس کا مطلب بھکشو ہوتا ہے جبکہ گئی کا مطلب گانا ہے۔ایک ماہر فضل نے بتایا ‘اس کا مطلب ہے کہ ایک بھکشو روحانی کلمات گاتا ہے، روایات ہیں کہ ایک بدھ بھکشو پدماسام بھاوا (Padmasambhava) کی پیدائش وادی سوات کی ایک جھیل میں کنول کے پھولوں میں ہوئی، ایسا سمجھا جاسکتا ہے کہ یہی وہ جھیل ہے جہاں آٹھویں صدی میں پدماسام بھاوا کی پیدائش ہوئی، جنھوں نے بدھ مت کو تبت، بھوٹان اور دیگر جگہوں تک پھیلایا۔
دنیا بھر میں اس طرح کے دلکش سیاحتی مقامات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے جسے کے نتیجے میں پوری دنیا کے سیاح انھیں دیکھنے اور سیر کرنے کے لیے کھنچے چلے آتے ہیں لیکن پاکستان میں محکمہ سیاحت کی جانب سے اس ملک میں موجود اس طرح کے دلکش اور دیدہ زیب سیاحتی مقامات کی تشہیر پر دھیان دینے والاکوئی نہیں ہے ،یہی نہیں بلکہ ان مقامات کو سیاحوں کے لیے پرکشش بنانے کے لیے ان مقامات تک آمدورفت کو آسان بنانے ملک کے مختلف علاقوں سے یہاں تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کامناسب انتظام کرنے اور اس جھیل کے ارد گرد سیاحوں کی رہائش کے لیے ہوٹلوں اور ریسٹ ہائوسز کے انتظامات پر بھی ابھی تک مناسب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہاں آنے والے سیاحوں کومختلف مشکلات کاسامنا کرنا پڑتاہے ، اور ان کاتفریحی سفر مہم جوئی کے آزمائشی سفر میں تبدیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ سیاحت اس طرح کے سیاحتی مقامات کو سیاحوں کے لیے پر کشش بنانے کے لیے ان تک آمدروفت کو آسان بنانے اور ایسے مقامات پر سیاحوں کے قیام وطعام کے مناسب انتظامات پر توجہ دے تاکہ یہاں سے واپس جانے والے سیاح پاکستان کے سیاحتی مقامات کا چلتا پھرتا اشتہار بن جائیں اور دوسروں کو بھی ان کادورہ کرنے کی ترغیب دے سکیں۔