... loading ...
دنیا کو دھوکا کہا گیا۔ظاہر کتنا بڑا دھوکا ہے اسی لیے آدمی اپنے گردوپیش کو ویسا ہی دیکھتا ہے جیسا کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ مصنوعی دنیا کی جادو نگری یہ ممکن بھی بنادیتی ہے۔ اور حواس خمسہ کا قیدی اس کا آسانی سے شکار بھی بن جاتا ہے۔
ایک دھوکا ہے یہ شب رنگ سویرا کیا ہے
یہ اجالا ہے اجالا تو اندھیرا کیا ہے
اللہ کے حبیبﷺ ایک مستقل دعا فرمایاکرتے ۔ الھم ارنی حقائق الاشیا کما ھی۔( اے اللہ مجھے اشیا ایسے ہی دکھا جیسی وہ فی الواقع ہیں)۔ اشیااور اشخاص متنوع پرتیں رکھتے ہیں۔خالقِ کائنات نے کائنات کی صورت گری کچھ اسی طرح فرمائی۔اگر ۵ جولائی کے ٹیلی ویژن پر مختلف سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کو آپ نے بات کرتے ہوئے دیکھا سنا نہیں تو ایک مرتبہ دیکھ لیجیے۔ کیسے کیسے لوگ کیسی کیسی زندگی گزار آئے اور اب کیا کیا باتیںکرتے پائے جاتے ہیں۔
اللہ کی شان 5؍جولائی کو بھٹو کی برطرفی اور جنرل(ر) ضیاء الحق کے سریر آرائے اقتدار ہونے کے مسئلے پر ایسے ایسے لوگ لب کشا ہیں کہ حیرت کی چادر تن جاتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دربار میں سائلوں کی طرح بیٹھے لوگ اب جمہوریت کے’’ مامے چاچے ‘‘ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی پیداوار، اب جمہوریت کا رومانوی چہرہ بن گئے۔ اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے حقیقی مخالفوں کا پانی بھی کہاں جا کر مرا؟ وہ اُن کی باقیات سے اپنے جمہوری آدرش کو تھپکیا ں دیتے ہیں ، لوریاں سناتے ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر وہ خود کو ایک ایسی آدرش حیثیت کا حامل بنا کر پیش کرتے ہیں کہ تاریخ کا طالب علم حیران رہ جاتا ہے۔ 5؍جولائی کی وہ تاریخ تو ایک بار آئی تھی جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار بھٹو کو برطرف کردیا تھا۔ مگر اُس 5؍جولائی سے وابستہ ہمارا قومی کردار تو مسلسل چلا آتا ہے، نفاق سے بھرپور، بے شرمی سے معمور۔
پاکستان میں جمہوریت نام کی شے نے جنم ہی کب لیا تھا؟یہ ایک وسیع اور محیط تر مغالطہ ہے۔یہ بھی ایک عمومی دھوکا ہے کہ جمہوریت کے نام پر کچھ لوگوں نے مزاحمت کا ایک کردار ادا کرکے تاریخ کے ماتھے کو کوئی جھومر بخشا۔ یہ دراصل جتھوں کی لڑائی تھی جس میں ہر ایک اپنے اپنے مقام کی تلاش میں رہتا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو جنہیں 5؍ جولائی کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا ،وہ کون تھے؟فیلڈمارشل ایوب خان کو جو ڈیڈی کہا کرتے۔اُن کے آٹھ سال تک وزیر رہے۔اُن کے مزاج مبارک کو کبھی ’’جمہوریت ‘‘نے چھوا تک نہیں۔ جمہوریت صرف طرزِ حکومت نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی ثقافت کا نام ہے۔ مگر اس سے آپ جناب کوکوئی نسبت نہ تھی۔ اُنہوں نے ایوب خان کو نہیں بلکہ ایوب خان نے اُنہیں کان پکڑ کر نکال باہر کیا تھا۔ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو مارچ 1966ء میں پاکستان مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے ہٹایا۔پھرتین ماہ بعداپنی کابینہ سے فارغ کردیا۔ تب روئیداد خان ، غلام اسحق خان کے ہمراہ اُن سے ملنے اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ آگے کی روداد ، روئیداد خان کی کتاب سے پڑھتے ہیں۔
’’ہم الطاف گوہر کے گھر سے نکل کر ذوالفقار علی بھٹو کے گھر چلے گئے،اُن کا گھر اس زمانے میںسول لائنز
راولپنڈی میں تھا۔ ہم گھر کے اندر داخل ہوئے تو وہاں کا ماحول سخت افسردہ وپژمردہ پایا۔ذوالفقار علی بھٹو اپنے گھر
کے لان میں تن تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔وہسکی کا جام اُن کے ہاتھ میں تھا۔ غلام اسحق خان نے مصافحہ کے لیے ہاتھ
بڑھایاتو ذوالفقار علی بھٹو، غلام اسحق خان سے لپٹ کر رونے لگے، پھر اُنہوں نے مجھ سے معانقہ کیااور پھر ذرا جوش
سے کہا : ایوب خان نے آج جو سلوک میرے ساتھ کیاہے وہ تم اپنے اردلی کے ساتھ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘
بھٹو نے درست کہا تھا۔ درحقیقت طاقت اور اقتدار کے خواہش مند یہ سیاست دان آمروں کے پاس اردلی سے بھی بدتر حالت میں رہنے کو تیار رہتے تھے تب ہی اُن کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو اردلیوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب اس پسِ منظر میں بھٹو کو جمہوریت کی علامت بنناتھا۔ مگر ذرا سوچیے! ستم ظریفیٔ حالات نے اُنہیں جہاں تک پہنچایا، وہاں پہنچ کر اُنہوں نے کون سی جمہوری اقدار اپنائی تھیں۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنے متعلقین سے بعدازاں جو سلوک کیا وہ ایوب خان کے اُن کے ساتھ کیے گئے سلوک سے بھی بدتر تھا، اردلیوں سے بھی بدتر۔اُن کے خلاف برپا کی گئی تحریک (کیا وہ جمہوری کہی جاسکے گی)کو ایک طرف رکھیے۔اُنہوں نے جو حالات پیدا کیے وہ کون سے جمہوری ماحول کو پروان چڑھا رہے تھے۔اُن کی اقتدار پر مکمل گرفت کی خواہش اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ اُس کے مقابلے میں پورا پاکستان چھوٹا پڑ گیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے۔ یحییٰ خان کی جانب سے جب قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو روئیداد خان نے اُن سے کہا کہ اب اجلاس طلب کیا جاچکا ، یحییٰ خان اپنے اعلان سے کیسے پِھر سکتے ہیں ۔ اس پر جمہوریت کے چیمپیئن کا جواب تھا کہ
’’اس میں کیا مشکل ہے؟ ڈھاکا میں بدامنی پھیلائی جاسکتی ہے، بلوے ہوں گے، اشک آور گیس پھینکی جائے گی،
گولیاں چلیں گی، دوچار لاشیں گریں گی اور بس قومی اسمبلی کے اجلاس کے التواء کا جواز خود بخود پیدا ہو جائے گا۔‘‘
ایک مودبانہ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا احترام کس کی ذمہ داری ہے۔کسی آمر کی یا ایک جمہوریت پسند سیاست دان کی؟ایک عظیم اور ہمہ گیر منافقت قومی تاریخ کو درست تناظر میں دیکھنے کی عادت پیدا نہیں کرنے دیتی۔ ہم آمروں سے جمہوریت کی توقع رکھتے ہیں اور جمہوری رہنماؤں کو آمریت کی پوری گنجائش دیتے ہیں۔ 1970 کے عشرے میں تین بڑی فلمیں دینے والی امریکی فلم پروڈیوسر اور مصنفہ جولیا فلپس (Julia Phillips) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ
’’ ریگن اور بش نے دنیا کو منافقت کے لیے محفوظ بنا دیا ہے۔‘‘
ہمارے ہاں ماشاء اللہ یہ کام آمروں اور سیاست دانوں نے مل کر کیا ہے۔اور دانشوروں نے اِے خوب خوب پروان چڑھایا ہے۔ آمریت اور جمہوریت کی بحث اسی منافقت کی آئینہ دار ہے۔ ان دونوں نظاموں کے طرف دار دراصل نظام کے حسن وقبح کے باعث اُس سے وابستہ نہیں بلکہ اس نظام کے علمبرداروں سے اپنی منفعت بخش وابستگی کے باعث اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے لوگ بھلے مختلف نظاموں میں نظر آتے ہیں مگر یہ بروئے کار تو ایک ہی طرح سے آتے ہیں۔درحقیقت یہ مسئلہ اُسلوب حکمرانی اور طرزِ حکمرانی کا سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ اپنے اپنے داؤ کا مسئلہ ہے۔
بھٹو مخالف دو بڑے صحافیوں کی زندگیوں میں اس خاکسار کو پوری طرح جھانکنے کا موقع ملا۔زرداری کی صدارت کے ہنگام اُن میں سے ایک کے گھر سجی محفل میں تاریخ کا یہ ورق کھلا تو سوال یہ تھا کہ جب زرداری سے بات چیت کی جاسکتی ہے، جب آپ اُن کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تو پھر بھٹو کی مخالفت کیوں کی تھی؟ وہ جمہوریت کا زرداری کے مقابلے میں زیادہ حقیقی اور روشن چہرہ ہے۔ ان کانوں نے دونوں بزرگ صحافیوں کو ہنستے ہوئے معنی خیز انداز میں یہ کہتے سنا کہ بھٹو نے ہمار ا در کھٹکھٹایا ہی نہیںورنہ ہم تو تیار بیٹھے تھے۔ پاکستان میں عمومی طور پرتمام اطراف میں کھیل مفادات کا ہی جاری ہے۔ مگر اپنے اپنے کھیل کے دفاع میں دراصل طرزِ حکمرانی کو ایک ڈھال کے طور پر زیربحث لایا جاتا ہے۔
اب ذرا تصور کیجیے! آج جمہوریت کا سب سے نمائندہ چہرہ جناب نوازشریف کا ہے۔اُن کی حمایت جمہوریت کے نام پر وہ لوگ بھی کررہے ہیں جو جنرل ضیاء الحق کے شدید ہامی تھے اور وہ بھی کررہے ہیں جو شدید مخالف تھے۔ کیا نوازشریف کا سیاسی ورثہ ایسا تابناک ہے کہ وہ اپنی بلاامتیاز حمایت کی ایسی مشترکہ بنیاد فراہم کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں ایک مضحکہ خیز ہنسی لبوں پر اُچھلتی ہے۔جنرل ضیاء نے اُنہیں اپنی عمرلگنے کی دعا کی تھی، شاید لگ بھی گئی ہو۔ آپ نے وہ مشہور ویڈیو ملاحظہ کی ہو گی جس میں میاں نوازشریف اعجازالحق کے ساتھ کھڑے جنرل ضیاء الحق کے لیے مردِ مومن مردِ حق کے نعرے لگارہے ہیں۔ پھر جنرل ضیاء کے بدترین مخالف نوازشریف کے حق میں کیسے ہو گئے؟سوال ایک دوسرا بھی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے تب بے پناہ ہامی اب جمہوریت کے حق میں دلائل کیسے گانٹھ لیتے ہیں۔ ماضی پنسل سے نہیں لکھا جاتا کہ اُسے کسی ربر سے مٹا دیا جائے۔ یہ تعاقب میں رہتا ہے۔ اِسے کوئی پستول کا نشانا بناتا ہے تو یہ اُسے توپ کے نشانے پر لے لیتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کا ایسا کوئی مخالف نہیں جو اپنی اخلاقی ساکھ کے ساتھ جمہوریت کی تائید میں بے جھول کردار کے ساتھ نظر آئے۔ یہ بحث صرف منافقت کی ثقافت میں ہی پروان چڑھ سکتی ہے۔