... loading ...
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے پاناما لیکس کا دنیا میں انکشاف کیا۔ جس میں دنیا کے سیاست دانوں نے اپنے ملک کے عوام کے پیسوں کو لوٹ کر یا کسی نے اپنی حلال کی کمائی کو قانون کے مطابق آف شور کمپنیوں میں رکھا ہوا تھاجس پیسے سے وہ تجارت بھی کر رہے تھے۔ حلال اور قانون کے مطابق آف شور کمپنیوں میں پیسارکھنا جرم نہیں مگر غیر قانونی پیسا رکھنا جرم ہے۔
مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے لوگوں کے نام بھی اس میں سامنے آئے۔ اس میں ہمارے وزیر اعظم صاحب کے خاندان کا نام بھی سامنے آیا۔ اپوزشن کے اعتراض پر وزیر اعظم صاحب نے ایک نے اچھا قدم اُٹھاتے ہوئے دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک بار پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس کی صفائی پیش کی اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے عوام کے سامنے پیش کیا۔ سپریم کورٹ کو خط بھی لکھا کہ ایک عدالتی کمیشن کے ذریعے اس کی تحقیقات کی جائیں تاکہ دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہو جا ئے۔ سپریم کورٹ نے واپس حکومت سے کہا کہ پرانے قانون کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔ اس کے لیے نئے ٹی او آر بنائے جائیں تو سپریم کورٹ اس کا فیصلہ سنا سکتی ہے۔یہ بات پارلیمنٹ کے سامنے لائی گئی ۔ نون لیگ اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں وقت گزار دیا اور کسی بھی ٹی اور آر پر متفق نہ ہوسکیں۔اس کے بعد جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے عدالت عالیہ میں درخواستیں دائر کی کہ عوام کو انصاف دلایا جائے۔ عدالت نے ایک لارجر بینچ قائم کیا اور پاناما لیکس کا مقدمہ عوام کو انصاف دلانے کے لیے شروع ہوا۔پہلا لارجربینچ چیف جسٹس صاحب کی مدت ملازمت ختم ہونے کی وجہ سے فیصلہ نہ کر پایا۔ اس کے بعد نیا بینچ عدالت عالیہ کے پانچ معزز ججوں پر مشتمل قائم ہوا۔ اس عدالتی بینچ نے تمام فریقوں سے عدالت کا فیصلہ من عن تسلیم کرنے کے لیے تحریری حلف نامے لیے۔ پانچ معزز ججوںنے روزانہ کی بنیاد پر تمام فریقوں کو سننے کے بعد اپنے اپنے طور پر فیصلہ لکھا۔ دو ججوں نے وزیر اعظم کو صادق اور امین نہ مانتے ہوئے عوامی عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ لکھا اور تین ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وزیر اعظم کو تین ماہ کا وقت دیا جائے اور ایک عدالتی جے آئی ٹی بنا کر اس کی مزید تحقیقات کی جائیں۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اس کا آخری فیصلہ سنایا جائے گا۔
جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، انکم ٹیکس ،اسٹیٹ بینک،نیب اور پاکستان کے دوسرے متعلقہ اداروں سے بینچ نے خود اچھا ریکارڈ رکھنے والے ممبران کا سلیکشن کیا اور ان کو ساٹھ دن کے اندر اپنا کام مکمل کرنے کا وقت دیا۔ بینچ نے جے آئی ٹی کو سوالات دیے کہ ان کی بنیاد پر تحقیقات کی جائیں۔جے آئی ٹی نے وزیر اعظم، ان کے بیٹوں،وزیر خزانہ اور دوسرے متعلقہ لوگوں کو بلا کر بینچ کے دیے گئے سوالات کے تحت تحقیقات کیں۔ اب آج ۵ جولائی کو وزیر اعظم کی بیٹی کو بھی تحقیق کے لیے بلایا ہے۔ صاحبو! یہ کچھ انہونی بات نہیں کہ وزیر اعظم اور اس کے خاندان جس پر کرپشن کا الزام ہے اور ملک کی عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ جدید جمہوری ملکوں میں حکمران ،اپوزیشن اور آزاد عدلیہ عوام کے معاملات طے کرتے رہتے ہیں۔ اپوزیشن کایہ کام ہے کہ حکومت کے غلط کاموں پر تنقید کرے اور عوام کے حقوق غصب ہونے کی شکل میں حکمرانوں کا پارلیمنٹ میں احتساب کرے اور اگر پارلیمنٹ کسی فیصلے پر متفق نہ ہو تو اسے عدلیہ میں پیش کر کے اس کا فیصلہ لے۔یہ کام جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے کیا۔ پیپلز پارٹی نے مفاہمت کی پالیسی اپنائے رکھی۔ حکومت کی اتحادی پارٹیوں نے حکومت کے حق میں بیان بازی کی۔ حقیقی اپوزیشن نے پہلے پارلیمنٹ میں کیس کو پیش کیا اور پارلیمنٹ جب اس کا فیصلہ نہ کر سکی تو ملک کی آزاد عدلیہ میں اس کیس کو پیش کیا۔حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے عدالت کی ہر پیشی پر عدالت کے باہر ،میڈیا میں شور وغل کے ساتھ اپنا اپنا نقطہ نظرعوام کے سامنے بیان کیا جاتا رہا۔ شام کو الیکٹرونک میڈیا اس پر تبصرے کرتا رہا۔ کچھ نے حکومت کے حق میں اور کچھ نے اپوزیشن کے حق میں اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ بہت سی خرابیوں کے علاوہ اس سے عوام میں اپنے حقوق کاشعور بلند ہوا جوایک اچھی با ت ہے۔ حکومت اس کے وزرا نے مختلف طریقوں سے عدالت اور اس کے بعد جے آئی ٹی پر دبائو ڈالا۔ عدالت عالیہ نے اپنے ریماکس میں کہا کہ چاہے آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ہم نے ہر حالت میں انصاف کے ساتھ فیصلہ سنانا ہے۔ حکومت نے پہلے کہا کہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کو عدالت میں گھسیٹا گیا۔ جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرانے کے بعد وزیر اعظم نے باہر نکل کر پریس کانفرنس کی کہ ایک عوام کی بھی جے آئی ٹی لگنے وا لی ہے، اس میں ہمیں انصاف ملے گا۔ میری تین نسلوں کا احتساب ہو رہا ہے۔کچھ حلقوں کی طرف سے یہ پتلی تماشا اب مزید نہیں چلنے دیا جائے گا۔میرے اسی سالہ پرانے کاروبار کے متعلق سوال کیے جارہے ہیں۔اس پر عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم کاا شارہ فوج اور عدلیہ کے متعلق ہے۔
ریلوے کے وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر فیصلہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کے خلاف کیا گیا تو ملک ٹوٹ سکتا۔ ایک مشیر نے کہا کہ جے آئی ٹی جیمز بونڈ ۰۰۷ ہے۔ قطری شہزادے کے پاس خود جائے قطری شہزادے کے بیان کے بغیر فیصلہ پاکستان کے عوام نہیں مانیں گے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ مریم نواز کو جے آئی ٹی میں نہ بلایا جائے اس کو صرف سوالات بھیج کر کارروائی مکمل کی جائے۔ کیا بے نظیر عدالتوں کے سامنے پیش نہیں ہوئی تھی کیا ہر روز قوم کی بیٹیاں عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہیں ہیں۔ کیاان کے لیے وزیر خزانہ نے سو الات بھجنے کا کبھی بھی کہا ہے۔ اگر مریم نواز صاحبہ سیاست میں ہیں تو ان کو اپنی صفائی پیش تو کرنی ہے نا۔ پوری حکومتی مشینری جے آئی ٹی کومتنازع بنانے کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ مختصر یہ کہ حکومت نے یہ سمجھ کر کہ دو ججوں نے وزیر اعظم کو صادق اور امین نہ ہونے پرعوامی عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ دیا اور تین ججوں نے صرف ساٹھ دنوں کا مزید وقت دیا یہ تو حکومت کے خلاف فیصلہ آئے گا۔ اس پرحکومت کی پوری مشینری نے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی سر توڑ کوشش کی جو ایک غلط اقدام ہے۔مگر جے آئی ٹی واجد ضیا ء کی سربراہی میں بڑی برد باری سے اپنا کام کر رہی ہے۔ اس کو دس جولائی تک اپنا کام مکمل کر کے بینچ کے سامنے آخری رپورٹ پیش کرنی ہے۔ا ور پھر بینچ مکمل فیصلہ سنائے گا۔ دوسری طرف عمران خان پر بھی حکومتی وزیر نے مقدمہ قائم کیا ہوا ہے اس کا بھی فیصلہ آ جائے گا۔سپریم کورٹ کے ریماکس کے مطابق نہ آسمان گرے گا نہ زمین پھٹے گی۔ہاں عوام کے لوٹے ہوئے پیسے کا عوام کوانصاف ملے گا اور پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو گا۔آج جے آئی ٹی کے سامنے وزیر اعظم کی بیٹی مریم نوازپیش ہو ئی۔ نون لیگ نے پورے ملک سے کارکنوں کو آنے کی کال دے رکھی تھی۔ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر موجود رہی۔ مریم نواز نے پیشی سے قبل جذباتی ٹوئیٹ میں کہا کہ والد کی آنکھوں میں تشویش اورخدشات دیکھے۔ مریم نواز کے حق میں بینرز بھی لگا دیے گئے ہیں۔کیا یہ عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے کا ایک حربہ نہیں تھا؟ جوڈیشل اکیڈمی کی طرف آنے والے سارے راستے بند کر کے خاردار تار لگا ئے گئے ۔پولیس، ایف سی اور رینجرز کو تعینات کیا گیا۔ نون لیگ کے واویلے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔جے آئی ٹی مریم نواز سے سوالات کے بعد اپنی آخری رپورٹ بینچ کے سامنے پیش کرنے والی ہے اور بینچ اپنا آخری فیصلہ سنائے گا۔ نہ آسمان گرے گا اور نہ ہی زمین پھٹے گی۔بس دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ حکومت اپوزیشن اور عوام کو اپنی عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے آزادی سے فیصلہ کرنے کا آئینی حق دینا چاہیے۔ اس سے عوام کی جیت ہو گی ان شاء اللہ۔