... loading ...
اساں قیدی تخت لہور دے کو جنوبی پنجاب میں مزاحمتی و انقلابی نعرے کا درجہ حاصل ہے ، یہ نعرہ دراصل جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے اظہار اور تخت لہور سے بیزاری کا ذریعہ ہے ، یہ حقیقت ہے کہ یہ نعرہ لگانے والی جماعتیں یا تنظیمیں کبھی بھی صرف اسی بنیاد پر عوام سے ووٹ نہیں لے پائیں ، اس کے باوجود یہ نعرہ اس خطے میں پائی جانے والی محرومی کا’’ترجمان‘‘ ہے، ایسا ہی ایک قیدی پنجاب کے حکمرانوں یعنی تخت لہور کی قید میں رہا ، پاکستان کی سیاست میں اپنی جداگانہ پہچان رکھنے والے ’’بابائے جمہوریت ‘‘نوابزادہ نصر اللہ خان اور آمریت کے ’’باغی‘‘ مخدوم جاوید ہاشمی کی سرزمین سے تعلق رکھنے والاجمشید خان دستی اپنی طرز کا الگ ہی سیاست دان ہے ، جمشید دستی کو مسلمانوں کا ’’جے سالک‘‘ بھی کہا جاتا ہے جس کا عملی مظاہرہ وہ کئی بار کرچکا ہے،جمشید خان دستی نے عملی سیاست کا آغاز 2002میں نوابزادہ نصر اللہ خان کے نام سے منسوب ضلع کونسل مظفر گڑھ کی مقامی سیاست سے کیا ، جمشیددستی کوبابائے جمہوریت کے فرزندنوابزادہ افتخار احمد نے اپنے گروپ کے ٹکٹ پر ضلع کونسل مظفر گڑھ سے لیبر کونسلر منتخب کروایا ، اس زمانے میں ملک سلطان ہنجراء ضلع ناظم تھے جنرل مشرف کا طوطی بولتا تھا، جمشید دستی بظاہر لیبر کونسلر منتخب ہوا لیکن اس کے ارادے ’’خطرناک‘‘ تھے ، اس نے عملی سیاست میں قدم رکھتے ہی مزدوروں کی تحریک میں جان ڈالنے کا فیصلہ کیا اور اس علاقے کی ٹیکسٹائل اور شوگر ملز میں مالکان اور انتظامیہ کی جانب سے مزدوروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویہ کے خلاف آواز بلند کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، جمشید دستی بطور لیبرکونسلر مزدوروں کی تحریک کو ’’لیڈ ‘‘ کرنے لگا ، دھرنے ، جلسے ، جلوس اور ریلیاں اس کی پہچان بن گئیں ، اسی دور میں ضلع ناظم کے خلاف اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کیا ، اپنی طرز کے مختلف سیاست دان کے خلاف اسی دور میں پہلا مقدمہ درج ہوا ،پھر کیا تھا مقدمات ، گرفتاری اور رہائی ، احتجاج اور دھرنا جمشید دستی کی پہچان بن گیا ، یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جمشید دستی سیاست میں آنے سے پہلے صحافت بھی کرتا رہا ہے بلکہ سیاست دان بننے کے بعد بھی کچھ عرصہ صحافی رہا ، میرے بڑے اور شفیق بھائی رانا امجد علی امجد جیسے کہنہ مشق صحافی کا شاگرد رہاہے ، یہ اور بات کہ وہی رانا امجد اب اسی شاگرد کی سیاسی پارٹی میں سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کررہے ہیں ، 2002کی مقامی حکومت نے اپنی 3سالہ مدت پوری کی تو جمشید دستی 2005کے الیکشن میں اپنی آبائی یونین کونسل نمبر 35مظفر گڑھ سٹی سے ناظم منتخب ہوا ، انقلابی ذہن رکھنے والے دستی نے اپنی یونین کونسل میں نکاح ، شادی ، فوتیدگی اور پیدائشی سرٹیفکیٹ پر عائد سرکاری فیس ختم کردی ، یہ ایسا قدام تھا جس نے جمشید دستی کو سیاست دان بننے میں بہت زیادہ مدد کی، پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کا طوطی بولتا تھا ، ان کو پیپلز پارٹی کا ناظم کہاں قبول تھا حکومت پنجاب نے پیپلز پارٹی کے ضلع ناظم مظفر گرھ عبدالقیوم جتوئی کا جینا دوبھر کردیا تو ضلع ناظم نے جمشید دستی کوضلعی اسمبلی کی صدارت کے لئے پینل آف چیئر مین منتخب کرکے اپنی غیر موجودگی میں عملی طور پر ضلعی نظامت سپرد کردی ،جمشید دستی نے اس دور میں بھی ہنگامہ خیزی جاری رکھی یہاں تک کہ 2008آن پہنچا ، پیپلز پارٹی نے حلقہ این اے 178سے جمشید دستی کو ٹکٹ دے دیا، اب اس کے مدمقابل بابائے جمہوریت کے فرزند نوبزادہ افتخار احمد تھے ، یہ وہی ہیں جن کے ٹکٹ پر پہلی بار دستی لیبر کونسلر منتخب ہوا تھا اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ دستی نے اپنے ’’محسن‘‘ کو 20 ہزارووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست دی ، جمشید دستی قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تو اس کے جوہر مزید نکھرے اس نے عوامی خدمت کا سلسلہ مزید تیز کردیا ،چندہ اکٹھا کرکے اپنے علاقہ کے مزدوروں ، طلبا و طالبات اور غریبوں کے لئے بینظیر بھٹو شہید فری بس سروس شروع کرادی، اس کار خیر میں اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی حصہ لیا اور 4بسوں کا تحفہ دیا اس طرح ان بسوں کی تعداد بڑھ کر 5ہوگئی جو آج بھی عوام کو مفت سفری سہولت مہیا کررہی ہیں ،اس دوران اسے جعلی ڈگری کیس میں نااہلی کا سامنا بھی کرنا پڑا ، نااہل ہونے کے بعد ایک بار پھر ضمنی الیکشن جیت کو جمشید دستی نے نظام کے منہ پر ’’طمانچہ‘‘ رسید کیا ، عوام نے عدالتی فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر دستی کو ایک بار پھر اسمبلی میں پہنچا دیا ، جس طرح زخمی شیر زیادہ خطرناک ہوتا ہے ایسے ہی دستی نے بھی اسمبلی میں آنے کے بعد اپنی تمام تر توجہ عوامی خدمت پر مرکوز کردی، اس کا حلقہ انتخاب آج بھی پاکستان بھر میں واحد دیہی حلقہ ہے جہاں 100فیصد گائوں ، دیہاتوں اور گھروں میں بجلی اور سوئی گیس کی سہولت دستیاب ہے ، علاقے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ، نیم سرکاری ، خود مختار یا نجی کمپنیوں میں روز گار دلوانے میں جمشید دستی نے اہم کردار ادا کیا، ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے خان گڑھ کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے خانگڑھ بائی پاس کے نام سے قلیل عرصے میں خطیر رقم سے مکمل کروایا ،جمشید دستی کی خوبی ہے کہ وہ ایماندار اور کارکن دوست سیاست دان ہے ، دستی سے ذاتی تعلق کی بنیاد پر بڑی ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ترقیاتی کاموں میں کمیشن نہیں لیتا اس کو کمیشن کی آفر کرنے والے کئی ٹھیکیدار اور کنسٹرکشن کمپنیاں بلیک لسٹ کی جاچکی ہیں ، پیپلز پارٹی کے دور میں شائد واحد سیاست دان دستی تھا جو کرپشن کی بہتی گنگا میں ’’ڈبکیاں‘‘ لگانے سے بچا رہا ، 2013کے الیکشن میں جمشید دستی نے دو قومی حلقوں این اے 177اور 178سے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا اور سابق گورنر غلام مصطفیٰ کھر کے بھائی اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد نور ربانی کھر کو ہرایا ، 177کی سیٹ چھوڑ کر اپنی آبائی سیٹ سے حلف اٹھایا ، قائد ایوان کے لئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اعتماد کا ووٹ دیا ، دو سال تک ن لیگ کے ساتھ ’’معاشقہ‘‘ چلتا رہا تاہم وزیرا عظم کے شاہانہ طرز سیاست سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوام راج پارٹی بنائی ، ضمنی الیکشن میں اپنے بھائی جاوید دستی کو ٹکٹ دیا عوام کو ’’موروثی‘‘ سیاست پسند نہ آئی تو انہوں ’’جاگیر دار‘‘ نور ربانی کھر کو اپنا نمائندہ چن کر اسمبلی میں بھیج دیا، جمشید دستی کی سیاست سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ایک بات یقینی ہے وہ یہ کہ وہ کرپٹ نہیں وہ کارکن دوست عوامی سیاست دان ہے ، اب جس ’’ جرم‘‘ میں وہ جیل کی سلاخوں میں ن لیگ کی موجودہ حکومت کا پہلا سیاسی قیدی بن کر دن کاٹ رہا تھا ، اس میں اس کا جرم صرف اتناتھا کہ اس نے نور ربانی کھر کے حلقہ انتخاب کے عوام کے لئے نہری پانی سرکار کی اجازت کے بغیر کھولا تھا، اس حلقہ کو جاننے والے اچھی طرح بتا سکتے ہیں کہ اس علاقہ میں لوگوں کا ذریعہ کھیتی باڑی اور غلہ بانی ہے جب فصلیں پانی کی قلت سے سوکھ اور جانور مررہے ہوں تو پھر اتنی سی ’’بغاوت‘‘ تو بنتی ہے ، یہ بھی محض اتفا ق ہے کہ پاکستان کے 70 فیصددیہی لوگوں اور سیاست دانوں کی اکثریت پانی چوری میں ملوث ہے ، ان کے خلاف تو کبھی اس طرح کے مقدمات قائم نہیں کئے گئے ، جس شخص نے عوام کی خاطر مائنر (نہر سے چھوٹاکھال)کا تختہ اٹھایا ہو اس کے خلاف مقدمے کا درج ہونا اور برق رفتاری سے پولیس کا گرفتار کرنا سمجھ سے بالا تر ہے، طاقتور وں کی ’’انگلی‘‘ پر سیاست کرنے والوں کو پولیس پوچھتی تک نہیں جو ریاستی اداروں پر حملوں اور ملکی نظام کو تہہ و بالا کرنے والوں کی انگلیوں پر ناچتی ہے وہ ایک عوامی سیاست دان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرے تو اس کی مذمت کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے،ظلم یہ ہے کہ پانی چوری پر 7اے ٹی اے یعنی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت بھی پرچہ درج کرلیا گیا ہے ،جمشید دستی ایک بہادر آدمی ہے اس کے سا تھ جو سلوک کیا جارہا تھا وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ ہمارے نظام کے لئے باعث شرم بھی ہے ، 8جون کو گرفتار ہونے والے منتخب ایم این اے کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اس قدر تاخیر کردی کہ پنجاب حکومت کو مزید وقت مل گیا اور اس نے اپنا غصہ دستی پر نکالنے کا کام شروع کردیا، یہ بھی اتفاق ہے کہ جس دن جمشید دستی کی روتے ہوئے ہاتھ باندھ کر چیف جسٹس سے اپیل کی ویڈیو منظر عام پرآئی اسی روز ملتان میں میرے پاس بیٹھے دستی کی تصویر بھی فیس بک انتظامیہ نے میری یاد دہانی کے لئے میری وال پر شیئر کی ، ایک قومی اخبار نے کچھ عرصہ کے لئے مجھے ملتان بھیجا گزشتہ سال بالکل اسی دن جمشید دستی اور رانا امجد میرے دفتر تشریف لائے تھے اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ دستی نے اسی روز پنجاب حکومت کی جانب سے انتقامی کاررائیوں بارے مجھے بتایا تھا،صرف 22دنوں میں جمشید دستی کو 3اضلاع کی 3جیلوں میں منتقل کیا گیا یوں لگتا ہے جیسے وہ خطر ناک ’’دہشت گرد‘‘ ہو ، گرفتاری کے بعد ملتان جیل میں قید کیا گیا یہاں مخدوم جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی نے ملاقا ت کی ، شیخ رشید نے ملاقات کے لئے جانا تھا تو اسی رات ڈی جی خان جیل منتقل کردیا گیا ، اس کی پارٹی نے یہاں بھی احتجاج شروع کردیا یہاں تک کہ عید الفطر والے دن بھی ہزاروں لو گوں نے اس کی رہائی کے لئے مظاہرہ کیاپھر اسے سرگودھا منتقل کردیا گیا ، حکمرانوں کو حکومت سے نکلوانے میں ہمیشہ مشیروں کا ہاتھ رہا ہے ان کومشورہ دینے والے اور اس پر عمل درآمد کرنے والے حکمرانوںکے دوست نہیں ہوسکتے ، جمشید دستی کو بھتہ خوری، ڈکیتی ، احتجاجی سیاست کی بنیاد پر قید کیا جاتا تو شائد کوئی مسئلہ نہ بنتا مگر ان کو عوام کے لئے پانی کی ’’ ڈکیتی‘‘ کے جرم میں پابند سلاسل کیا گیا ، یہ قید جمشید دستی کے لئے ’’رحمت‘‘ ثابت ہوگی ، ایک حلقے کا ایم این اے اب جنوبی پنجاب کا نمائندہ بن کر ابھرے گا ، اس پر تخت لہور کو ’’قیدی‘‘ اہلیان جنوبی پنجاب کو نوابزادہ نصر اللہ خان اور مخدوم جاوید ہاشمی کاسیاسی ’’وارث‘‘ مبارک ہو۔
٭٭…٭٭