... loading ...
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب پر ان دنوں جو شور برپا ہے تو سوچنے کے لیے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس مہم سے فوج کی بدنامی میں جو افراد اور ادارے کثیرالمقاصد عزائم کے ساتھ میدان میں اُترے ہیں۔ اس میں فوج مکالمے اور طاقت کی زبان کو حرفِ آخر سمجھے بیٹھی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے جب ایک آزاد میڈیا پالیسی کے تحت ٹی وی اور دیگر میڈیا کو مادر پدر آزاد کردیا تو روشن خیالی کے اس کمانڈو کو یہ پتا نہ تھا کہ اتنی آزادی تو میڈیا کو کہیں بھی نہیں جتنی وہ بوتل کے جن کو آزاد کرکے دے رہے ہیں۔جن دنوں ملعون رشدی کی کتاب The Satanic Verses شائع ہوئی، ہمارے شیخ احمد دیداتؒ بقید حیات تھے۔ انہیں رشدی کی اس ناپاک جسارت پر بہت تائو آیا۔ کتاب ان کے ملک جنوبی افریقا میں عام دستیاب تھی۔نسلی منافرت پر وہاں بہت قدغن تھی۔دیدات صاحب مختلف اخبارات اور اداروں کو نسلی منافرت سے متعلق حصے کتاب سے فوٹو کاپی کرکے بھیج دیتے تھے۔چند دن بعد خفیہ ادارے ان کا سراغ لگا کر پہنچے کہ حضرت یہ سب کیا شرارت ہے تو وہ انہیں ڈربن شہر کے مختلف کتب خانوں میں لے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب پر پابندی لگ گئی۔ کتاب میں ہندو مت میں پاکیزگی کی علامت سیتا پر بھی بہت رکیک حملے کیے گئے ہیں۔ وہ حصے بھارت کے اداروں کو بھجوائے تو جنوبی افریقا کے بعد بھارت دوسرا ملک تھا جہاں اس بے ہودہ کتاب پر پابندی لگی۔
میڈیا کے تبصرہ ساز یہ بات بہت شد و مد سے کرتے ہیں کہ جس دن فیصلہ آنا تھا جنرل پاشا وہاں کورٹ آف سیشن میں کیوں موجود تھے ؟یہ تو بہ لباسِ سادہ کسی میجر لیول افسر کا کام تھا۔ تابعداری کا اتنا ہی ہڑکا تھا تو مینار پاکستان کی اخری منزل پر یا رنجیت سنگھ کی سمادھی میں کوئی عارضی آپریشن ۔ ڈیٹ کھول لیتے۔ایسے مواقع پر یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ جنرل کیانی خود بھی ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سربراہ رہ چکے تھے ۔ان کا کسی مشن کو سرانجام دینے کا اپنا طور طریقہ تھا ۔ اس طور طریقے میں ماتحت کے لیے اپنا اسٹائل شامل کرنے کی گنجائش بہت کم بچتی ہے۔ایسے افسرنتائج اور فیصلے سے بڑھ کر Process کو بھی اپنے انداز سے کنٹرول کرنے پر تلے رہتے ہیں اور آخر الذکر پر عمل درآمد میں اختلاف کو بھی حکم عدولی گردانتے ہیں۔
پاشا صاحب تو یوں بھی طبیعتاًبہت منکسر المزاج اور رکھ رکھائو والے افسر ہیں۔اب کیانی صاحب جیسے گرگ باراں دیدہ سپہ سالار دنیا کی سب سے بڑی قوت کے ایماء پر کوئی حکم دیں تو وہ بے چارے جنرل پاشا کیا کریں۔بقول شاعر
مشکل ہو عرض حال تو وہ کیا جواب دیں
کہنے سے ہو ملال تو وہ کیا جواب دیں
فوج کے افسر تو ویسے بھی کمانڈ اینڈ کنٹرول ، ڈو ۔ آر۔ ڈائی قسم کی نوکری کے اڈے ( اڈہ : لکڑی کا وہ مستطیل فریم جس پرکپڑا تان کر کشیدہ کاری اور بنت کی جاتی ہے ) پر کسے ہوتے ہیں۔بے چارے اپنی کہاں سوچتے ہیں ۔ اس لیے امریکی کہتے ہیں کہ جب فوج میں نوکری کے لیے جاتے ہیں تو وہ دماغ رکھ کر بندوق تھما دیتے ہیں اور ریٹائر ہوجائو تو وہ ظالم بندوق بھی واپس لے لیتے ہیں۔
ہمیں کسی نے کہا کہ یہ آپ کو فنا فی الحکم کے لطائف ستہ صرف فوجی افسران میں کیوں دکھائی دیتے ہیں ،خیر سے آپ کے ہاں بھی فواد حسن فواد، ظفر حجازی(ایس ای سی پی) سعید خان (نیشنل بنک والے) اور پنجاب پولیس کے ہر دل عزیز سابق آئی جی مشتاق سکھیرا پر آپ کی نگاہ کیوں نہیں پڑتی ۔یہ بھی اسی قبیل اور عبدیت اور رضامندی میں ایسے ہی فنا فی الحاکم ہیں جیسا یہ افسر تھا جو ایک اہم مشن پر جس کے ساتھ جرات و ترقی جڑی تھی ایک انٹرویو کے لیے پہنچا تھا۔ مشن اہم تھا جس میں حکم ڈو اور ڈائی تھا۔بورڈ کے سامنے تین افسر پیش ہوئے ہدایت یہ تھی کہ وہ اپنی اہلیہ سمیت حاضر ہوں گے۔تینوں کو علیحدہ کمروں میں بٹھایا گیا۔پہلا افسر جس کی شادی کو بمشکل دو ماہ ہوئے تھے وہ حاضر ہوا تو اسے بورڈ نے پستول دے کر کہا کہ جائو اپنی بیوی کو مار ڈالو۔وہ تو اس حکم سے ہی کپکپا اٹھا۔جواب میں کہنے لگا قریبی عزیزہ ہے بچپن کا پیار ہے یہ پاپ مجھ سے نہ ہوگا۔بھاڑ میں گئی ترقی اور مجھے آپ بزدل ہی مان لو۔ دوسرے افسر کو بھی یہی حکم دیا ۔ وہ بندوق تھام کر کمرے میں گیا تو دیکھا کہ بیوی دو ماہ کے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ وہ اس غیر انسانی فعل پر لرز گیا۔ بندوق واپس کی بیوی کا ہاتھ پکڑا اور سیدھا گائوں چلا گیا۔تیسرے افسر نے بیوی پر تین فائر کھولے مگر بندوق سے گولی نہ نکلی، کمرے میں البتہ بہت چیخ و پکار ہوئی۔ واپس آن کر بورڈ کو کہنے لگا پستول ناکارہ تھی ۔میں نے سر پر لوہے کی کرسی مار کر بیوی کو ہلاک کردیا ہے۔
پاشا صاحب نے جو کچھ کیا وہ افسری کے معیار سے Conduct Unbecoming ہے مگر وہ بہت زیرک آدمی تھے۔انہیں امریکا کی جلد بازی اور بے قراری اساما بن لادن کے حوالے سے معلوم تھی۔کوئی دن تھا کہ بٹ گرام افغانستان سے ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد آنے کو تھے۔اساما وہاں موجود ہو یا نہ ہو مگر صدر اوباما کو آپریشن کی پروپیگنڈا اہمیت اور Optics کے سہارے الیکشن دوبارہ لازماً جیتنا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ کسی بھی جگہ اس آپریشن کے بعد ریمنڈ کو رکھنا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔فیضان اور فہیم کے گھرانے بہر حال غریب گھرانے تھے۔سمجھتے تھے کہ مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔ اامریکا سے ملنے والی خطیر دیت کی رقم خاندان کے بقایا افراد کے لیے آئندہ زندگی آسان بنا دے گی۔اس واقعے کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ پاکستان میں سفیرحسین حقانی کے بھیجے ہوئے پرائیویٹ کنٹریکٹر اور بلیک واٹر کے کارندے دم دبا کر بھاگ گئے۔اساما بن لادن پر بھی کوئی خاص شور نہ مچا۔ مستقبل کے ایک وزیر اعظم کا ملک کی سب سے بڑی عدالت میں کالا کوٹ پہننے کا ارمان بھی پورا ہوگیا۔ رہ گئی وہ بستہ ب کی اداکارہ جو ریمنڈ ڈیوس سے ملاقات کی منتظر تھی تو اسے احمد فراز کا یہ شعر ہمیشہ سے اپنے نصیب پر حاوی لگتا تھا کہ ع
جن کے ہم منتظر رہے ،اُن کو
مل گئے اور ہم سفر شاید
اب آپ ہی بتائیے نا آپ اگر ریمنڈ ڈیوس اور کلبھوشن یادو جیسے لوگوں کو ان کی خطائوں پر جرات کا مظاہرہ کرکے پکڑ بھی لیں تو صرف ان کو اصول پرستی کے تحت زیادہ دن تک اپنی تحویل میں نہیں رکھا جاسکتا، بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ممالک مفادات سے چلتے ہیں اصولوں سے نہیں۔ ستمبر 2016میں خود امریکا نے اپنے باشندوں کی رہائی کے لیے ایران کو ایک بلین ڈالر سے اوپر رقم ادا کی تھی۔انگریزوں کے سیانے کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی ہاتھی کو دم سے پکڑنے کی غلطی کر ہی بیٹھے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ جہاں تک آپ کے ہونٹوں کو رسائی میسر ہے وہاں تک اسے پیار سے چومیں اور یہ کہہ کر چھوڑ دیں کہ ع
آنا تیرا مبارک ،تشریف لانے والے
حافظ خدا ہمارا ، اے دُم لہرانے والے
٭٭…٭٭