... loading ...
وہ خود تو اپنی کتاب میں بضد ہیں کہ وہ اس دن روٹ سروے کے لیے نکلے تھے لیکن لاہور کے سینہ گزٹ میں یہ بات کچھ دن عام طور پر گردش کرتی رہی کہ لاہور میں اسکاچ کارنر مال روڈ سے ریمنڈ بابو بروز جمعرات 27 ؍جنوری2011 کو درجہ دوم کی ایک اداکارہ سے جو نہر والے پل پر تو نہیں کسی اور مقام پر ان کی منتظر تھی ۔اس کا شوق ملاقات انہیں کشاں کشاں لیے جاتا تھا۔ ان کے حساب سے Theory Chaos (جس کی رو سے کچھ ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے ہیں جوایک بڑے واقعے کو جنم دیتے ہیں جس کے نتائج کا ادراک کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی)نے انہیں راستے سے اُچک لیا۔
مزنگ چوک پر اُن کی کرائے کی سفید کار موٹر سا ئیکلوں کے جھرمٹ میں گھر گئی۔یہ ریمنڈ کی سیکورٹی ٹریننگ اور سابقہ تجربات کے حساب سے پر خطر علاقہ تھا۔ یہاں بوجھل گاڑیاں جنہیںVBIED = Vehicle Bound Improvised Explosive Device کہا جاتا ہے ۔وہ بھی ان پر حملہ آور ہوسکتی تھی۔وہ خواتین جن کے بدن اور برقعے خودکش جیکٹ کو بآسانی چھپا سکتے تھے وہ بھی گھوم رہی تھیں۔جابجا ایسے مرد بھی موٹر سائیکلوں پر دکھائی دیتے تھے جن کی کمر اور کولہے کے جوڑ سائیڈ سے بندوق برداری کا شبہ پیدا کرتے تھے۔کار کے سامنے آن کر رکنے والی موٹربائیک پر ہیلمنٹ پہنے فہیم حیدر تھا اور پچھلی نشست پر فیضان۔اس کا بیان ہے کہ فیضان نے اس پر پستول تانا تو وہ بھی غافل نہ تھا اس نے اس کی آمد پر دیے گئے نئے نویلے امریکی پستول گلاک ۔سترہ سے دس رائونڈ فائر کیے۔پانچ فہیم کو اور پانچ جان بچا کر بھاگتے ہوئے فیضان کو لگے۔آٹھ رائونڈ ابھی اور بھی موجود تھے۔ریمنڈ جس کے پاس امریکا کی فوج میں نشانا بازی کا اعزاز تھا اسے اس بات پر فخر ہے کہ اس کی ایک بھی گولی کسی اور کو نہیں لگی ۔وہ دو نوجوان اور سڑک پر اس کو بچانے کے لیے مخالف سمت سے آنے والی جیپ سے کچلے گئے عباد الرحمن کی اموات پر اُسے کوئی بھی غم نہیں۔وہ لوگ جنہیں اپنی جان اور مال کا حصول اور دفاع ہر قیمت پر عزیز ہوتا ہے وہ ایسے نقصانات کو Co-Lateral Damageکہتے ہیں۔آپ تو جانتے ہی ہیں ڈرونز میں اتنے دہشت گرد نہیں ہلاک ہوئے جتنے معصوم شہری ،مگر ان بے رحم حملوں کی اجازت دینے والے کہتے ہیں کہ دہشت گرد ان کے درمیان موجود یعنی ان کی اصطلاح میں Embeded تھے۔
پچھلے دنوں ریمنڈ کی کتاب ” The Contractor” کیا منظر عام پر آئی ،ٹی وی کی نیم خواندہ ردالیوں ( رادلی :وہ عورت جنہیں راجھستان کی اونچی ذات کی ٹھکرائین عورتیںموت پر بین اور واویلا کرنے کے لیے بلاتی ہیں۔ ان کے ہاں جذبات کا یوں برملا اظہار اوچھی حرکت شمار ہوتا ہے) کو گویا بندر کی مانند ادرک ہاتھ لگ گئی۔ابھی چند ہی دن پہلے زرداری گھرانے کے مخالف بھٹو کے اصلی جانشین ذوالفقار جونیئر کی Hairy Thighs رقص والی ویڈیو جس پر وہ بچوں کا فراک پہن کر نازیہ حسن کے گانے ڈسکو دیوانے پرناچیں ہیں۔ان کمانداروں کے نشانے پر ٹھیک سے نہ چڑھی تھی کہ یہ کتاب بندر کے ہاتھ ادرک بن کر لگ گئی۔
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کو ان کے ہینڈلرز نے مصنف کے نقطہء نگاہ سے پڑھا اور اپنے انداز سے فوج کو بدنام کرنے کی ٹھانی۔ پاناما جے آئی ٹی کے غلغلے میں یہ تشہیری مہم یوں بھی سننے والوں کو برستی رات کا راگ ملہار لگی کہ اس میں مسلسل معتوب جنرل پاشا کی تضحیک کا خوب موقع ملا۔انہیں لگا کہ اس وقت کی فوجی قیادت ریمنڈ کی رہائی کے معاملے میں بالکل بچوں کی کھلونا Plasticine بنی ہوئی تھی۔اسے مقدمات کے فیصلوں سے نکالنے کا فیصلہ جنرل اشفاق کیانی کا تھا۔ جنرل کیانی بہت خاموش طبع تھے۔مزاجاً بحیرہ مردار کے سے بے کیف ،بے زبان دکھائی دیتے تھے مگر فیصلوں میں ایٹمی آبدوز جیسے مہلک اور نظر آنے والے تھے ۔ این آراو کے بعد افتخار چوہدری کی بحالی تحریک سے لے کر پرویز مشرف کو بے وردی کرکے رخصت کرنے تک سب کچھ ان ہی کا کمال تھا۔سویلین قیادت نے اس رہائی اور امریکا راضی تو اللہ راضی مہم ،میں مفاہمت کی ساڑھی لپیٹ کر تالیاں مارکر ڈالر بٹورنے کے لیے آئی اب منی کی باری کے مصداق شرکت کی۔ممکن ہے ان فیصلوں میں اسٹیبلشمنٹ نے سوچا ہو کہ وہ جو اسلام آباد میں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں وہ تو بیگم طیب اردگان کا خاندانی ہار پہلے ہی گھٹکاچکے ہیں۔انہوں نے ویسے بھی مہاجر دوست اداکارہ انجلینا جولی کے ساتھ ڈکار بھرا ناشتا بھی پنجابی محاورے میں پاڑ لیا ہے۔ناشتے پر اس کے نیم دوست ، نیم شوہر اداکار بریڈ پٹ کو سے اسے بدظن کرنے کے تمام حربے استعمال کرلیے کہ وہ تو تیرے لے پالک اور تیرے اپنے بچوں کی بے بی سٹر، کے عشق میںکھویا کھویا سویا سویا رہتا ہے ۔تو کہاں شب ہجراں بن کر مہاجر کیمپوں میں بھٹکتی ہے۔بے درد سننی ہو تو چل، کہتے ہیں ہم اچھی غزل۔ مگر وہ جو ہواؤں کا استعارہ ہے وہ یہ کہہ کر رخصت ہوئی کہ خوشبو کا بوجھ میری کمر کو جھکا گیا۔
ریمنڈ بابو کو جب پولیس والے لاہور کے محبتیلے اور مہمان نوازہجوم(اچھا ہوا کہ کراچی کا لالو کھیت یا کورنگی کا چمڑہ چوک نہیں تھا کہ ایسے موقع پر فائر برگیڈ بھی جلتی ہوئی کار میں سلگتے ہوئے ڈرائیور کی جان بچانے کے لیے تاخیر سے پہنچتی۔ کتاب میں ریمنڈ نے خود بھی لکھا ہے کہ لاہور کے مقابلے میں امریکی کراچی کو زیادہ پر خطر شہر سمجھتے ہیں) سے بچا کر تھانہ پرانی انارکلی لائی تو آپ کا نام، باپ کا نام قسم کے چند سوالات کے بعدتھانے دار سے پانی مانگا۔حکم ہوا وئے مسکینیا ، وے حولدار اللہ جوایا اینوں پانی پوا۔میلے پرانے پلاسٹک کے گلاس میں پانی آیا تو ملزم کہنے لگا Bottle of Water۔پنجاب پولیس کا اصلی تے وڈا نو نانسینس قسم کا تھانے دار کہنے لگاNo Money -No water تب ریمنڈ ڈیوس کو پتہ چلا کہ گونتانامو بے اور عراق کی ابو غریب جن عقوبت خانوں پر انہیں بہت ناز ہے وہ تو پنجاب کے ہر تھانے کے آگے ایک ہیلتھ Spa ہیں۔صرف ایک رات وہ ان کے پاس رہ جاتا تو وہ بتادیتا کہ جان ایف کینیڈی اور مارلن منرو کی ہلاکت میں کون سے کردار شامل تھے۔
اس کی گاڑی سے امریکی جھنڈے کے علاوہ سو عدد گولیاں اور ایک کیمرہ بھی برآمد ہوا جس میں فوجی تنصیبات کی مخصوص زاویوں سے کھینچی ہوئی تصاویر تھیں۔وہ پہلے بلیک واٹر کا ملازم تھا ۔نو گیارہ کے واقعے کے بعد امریکا میں سیکورٹی کے آلات کی فروخت ،وزارت دفاع اورسی آئی اے کے لیے کام کرنے والے پرائیویٹ کنٹریکٹر کی موج لگ گئی۔ان کانٹریکٹروں کی تعداد مائیک لوف گرین کی کتاب ـ’’ دی ڈیپ اسٹیٹ ـ‘‘ کے حساب سے اب ان کے سرکاری ملازمین کے برابر ہے یعنی پونے نو لاکھ۔انہیں سرکاری ملازمین کی نسبت ایک بہت بڑی سہولت یہ حاصل ہے کہ ان کی سیکورٹی کلئیرنس بھی بہت جلد ہوجاتی ہے ۔ یہ اپنی تنخواہ بھی مرضی سے طے کراتے ہیں اور ان کے اعمال و افعال کا براہ راست اثر امریکا کی خارجہ پالیسی پر نہیں پڑتا۔(جاری ہے)