... loading ...
بلوچستان اسمبلی کے رُکن عبدالمجید خان اچکزئی اِن دنوں انتہا پسندانہ اور متعصبانہ رویوں کی زد میں ہیں ۔د ر اصل ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی ہر سطح پر سرایت کر چکی ہے ۔اور اس رُحجان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔معاملات کو اُس کے اصل تناظر میں دیکھنے کے بجائے نفرت اور تعصب کی عینک سے دیکھا جا تا ہے ۔ اورغُلُوسے کام لیا جا تا ہے ۔
عبدالمجید خان اچکزئی ایک بڑے سیاسی گھرانے کا فرد ہے اورپشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہے ۔ اپنے حلقے کے عوام کے ووٹوں سے اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ عوام کا نمائندہ ہے۔ اسمبلی نے اُنہیں قائمہ کمیٹی برائے پبلک اکائونٹس کی چیئرمین شپ دی ہے ۔اِن سے اور ِان کی جماعت سے اختلاف رائے کسی کو بھی ہو سکتا ہے ،مجھے بھی اختلاف ہے ۔بلکہ میرے اور اِس جماعت کی فکر و نظریات میںبعد المشرقین ہے ۔پشتونخوا میپ کے کچھ رہنمائوں سے جان پہچان اور علیک سلیک قائم ہے، بہت ساروں سے نہیں ہے ۔عبدالمجید اچکزئی سے بالمشافہ ملاقات تو چھوڑیئے کبھی فون پر بھی بات نہیں ہوئی ہے ۔گویا میں ان کیلئے ایک اجنبی ہوں۔رہا معاملہ بیس جون کے کار حادثے کا ،جس میں ٹریفک سارجنٹ حاجی عطاء اللہ جاں بحق ہو گئے تھے۔ تو سچ یہ ہے کہ عبدالمجید خان اچکزئی کی غفلت اور غیر محتاط ڈرائیونگ کے سبب ایک قیمتی انسانی جان کا ضیاع ہوا۔ لہذا یہ سراسر ایک روڈ حادثہ ہے اور حادثات غفلت اور غیر محتاط ڈرائیورنگ کے سبب ہی پیش آتے ہیں۔چنانچہ اس معاملے کو فقط ایک حادثے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ مگر بد قسمتی سے ایسا ہوا نہیں۔بلکہ اس حادثے کو بنیاد بنا کر ، نفرتوں،تعصبات اور غُلوکی انتہائوں کو چُھوا گیا۔ مجید اچکزئی کو ایک قاتل کے طور پر پیش کیا گیا کہ جیسے اُنہوں نے دیدہ و دانستہ طور پر ٹریفک سارجنٹ کو گاڑی کی ٹکر ماری ہو۔تعصبات کا ایک منظم اظہار مختلف حلقوں کی جانب سے ہونے لگا۔ کسی نے سیاسی تو کسی نے نسلی و لسانی تعصبات کو اُبھارنے کی کوشش کی۔
مجید اچکزئی کو اس موقع پر حکمت و دانائی سے کام لیتے ہوئے پہلے ہی دن پولیس تھانہ چلے جانا چاہئے تھا، تاکہ افواہوں ، بہتان طرازیوں اور طرح طرح کی باتوں کا در بند ہو تا۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ عبدالمجید اچکزئی نے خود کو ایک لمحہ کے لیے بھی بر ی الزمہ قرار نہیں دیا ،نہ فرار اور ناہی چھپنے کی کوشش کی ۔اگلے روز اسمبلی اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔وہ برابر کہتا رہا کہ وہ اس حادثے کے ذمہ دار ہیں اور یہ کہ وہ خود کو قبائلی رسم و رواج، شرعی اور مروجہ ملکی قانون کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔افسوس کے اس دوران تخریبی سوچ کا حامل ذہن سر گرم ہو گیا۔مرحوم کے بچوں کی ویڈیو جاری کی گئی۔ حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج اسلام آباد سے چلوائی گئی ۔چوبیس جون کی درمیانی رات گرفتاری کے لیے پولیس مجید اچکزئی کے گھر میں داخل ہوئی۔ کمروں کے اندر ایک پولیس اہلکار کو موبائل فون سے ویڈیو بنانے پر مامور کیا گیا تھا ۔ جونہی عبدالمجید اچکزئی کمرے سے نکالے گئے تو ایک اہلکار نے مامور اہلکار کوآنکھوں سے ویڈیو بنانے کا اشارہ کیا۔اس طرح ایک قبائلی و سیاسی شخصیت اور ایک پارلیمنٹرین کی چار دیواری کے احترام کی پامالی کی گئی۔کیا پولیس کا یہ طرز عمل روا قرار دیا جا سکتا ہے ؟یقینا اس سراسر توہین اور ہتک کے خلاف عبدالمجید اچکزئی قانونی چارہ جوئی کا حق ر کھتے ہیں ۔
ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ گمراہ کن اور مکروہ تاثر چھوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ عبدالمجید خان اچکزئی کا خاندان زبردستی راضی نامے کی کوشش کر رہا ہے ۔نیز ایسا ماحول بنانے کی سعی ہو رہی ہے کہ مرحوم ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ کے اہل خانہ بھی غیر محفوظ ہیں۔یوں خاندان کے افراد نے حکومت سے سیکورٹی طلب کر لی۔حقیقت میں اس نوعیت کی جسارت اول روز ہوئی ہی نہیں ۔ہاں ٹریفک سارجنٹ کے لواحقین و پسماندگان سے عفو و درگزر کی درخواست ضرور کی گئی ہے ،جو اِن کا شرعی اور قانونی حق ہے ۔در اصل اس معاملے کو اُلجھانے اور ابہامات پولیس کی جانب سے پیدا کیے گئے ہیں۔پولیس نے پہلے پرچہ نا معلوم شخص کے خلاف کاٹا ، بعد ازاں عبدالمجید اچکزئی کا نام شامل کیا گیا ۔اگر کوئی کہتا ہے کہ پولیس پر دبائو ڈالا گیا تو اولاً پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے وضاحت کرے کہ کن کی جانب سے اُنہیں قانونی چارہ جوئی سے روکا گیا ۔دوئم کیا پولیس کا محکمہ اتنا کمزور،تحت الاثر اور بے وقعت ہو چکا ہے کہ وہ اپنے ہی ایک پولیس آفیسر کے کار حادثہ میں وفات کا مقدمہ درج نہ کر سکی ۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عبدالمجید خان اچکزئی نے پولیس کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی ۔حیف کہ پولیس نے مجید اچکزئی کی نیم شب میں گرفتار ی کو عمل میں لا کر اُنہیں ایک عادی مجرم اور مفرور کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔مزید تجاوز یہ کیا کہ اُن پراقدام قتل اور انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کر دیے ۔گویا پولیس اور نادیدہ ذہن نے ایک حادثہ کو قتل’’ عمد‘‘ کے طور پر پیش کیا ۔میرے خیال سے پولیس نے نہ صرف عبدالمجید اچکزئی بلکہ بلوچستان اسمبلی کاوقار و استحقاق بھی مجروح کیا ہے ۔عبدالمجید اچکزئی کا ذرائع ابلاغ کوئٹہ کے نمائندوں سے رویہ قابل مذمت ہے۔ مگر میڈیا کے دوستوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اس صوبے کی روایات اور دستور کا لحاظ رکھیں۔ پیش ازیں میر خالد لانگو اور میر مقبول لہڑی بھی ہمارے اس طرز عمل پر خفگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ہمارے دوستوں کی غیر ذمہ داری و غیر سنجیدگی قابل افسوس ہے ۔
چند سال قبل جب صوبے میں نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کا مرحلہ طے ہو رہا تھا تو نواب اسلم رئیسانی اور نواب ثناء اللہ زہری نے اس موقع پر پریس کانفرنس کے بعد نجی گفتگو شروع کی ، وہاں موجود میڈیا کے نمائند وں کو بھی شریک گفتگو کر لیا۔ میڈیا سے ریکارڈنگ نہ کرنے کا کہا گیا۔ ہنسی مذاق کا ماحول بن گیا تھا ۔ نواب زہری نے ایک قصہ سنایا ۔ افسوس کہ ہمارے دوستوں نے نہ صرف ریکارڈنگ کی بلکہ وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی پھیلا دی ۔وہ ویڈیو کلپ حسبِ موقع آج تک نواب ثناء اللہ زہری کی کردار کشی کے طور پر استعمال ہو رہا ہے ۔غرض عبدالمجید خان اچکزئی کافیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ چنا نچہ اب مزید توہین وکردار کشی کا سلسلہ رُک جانا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کہتا ہے کہ ’’جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو ۔‘‘ (سورۃ الحج)صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرتا ہے ۔مرحوم حاجی عطاء اللہ کے لواحقین کو بھی چاہئے کہ وہ کسی کی باتوں اور بہکاوے میں نہ آئیں۔